Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Baramdat Mein Izafa Magar Kaise?

Baramdat Mein Izafa Magar Kaise?

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت برآمدات بڑھانے میں سنجیدہ ہے اور اس کا طریقہ کار بڑی حد تک درست۔ کورونا کی آفت کے باوجود بیشتر اشارے مثبت ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت بھی اپنی پوری استعداد کے ساتھ بروئے کار ہے۔ اس شعبے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ مزدور رکھے جا سکتے ہیں لیکن مہیا نہیں ہیں۔ تاہم وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2020-2021ء کے مالی سال کے پہلے حصے میں بجٹ کا مالی خسارہ 21فیصد بڑھا ہے۔ برآمدات 4.8فیصد کم ہوئی ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری میں 70فیصد کمی ہوئی ہے۔ زرعی شعبے کے قرضوں میں 24فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف inflationمیں کمی ہوئی ہے اور بڑی صنعتوں میں 7.4فیصد پیداوار بڑھی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پچھلے سات ماہ میں اپنے ہدف سے 20ارب زیادہ محصولات جمع کئے ہیں۔ ہدف 2.55کھرب تھا جبکہ محصولات 2.57کھرب تھیں۔ جنوری 2021ء میں سیمنٹ سیکٹر نے پچھلے سال کے جنوری کی نسبت 16.28فیصد اضافہ دکھایا ہے۔ سیمنٹ کی اندرون ملک کھپت میں 23.97فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن برآمد میں 14.09فیصد کمی ہوئی ہے۔ حکومت کی نئی کنسٹرکشن پالیسی کی وجہ سے ملک کے اندر تعمیراتی صنعت یقینا کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ بنکوں کے ڈیپازٹ جنوری 2021ء میں جنوری 2020ء کی نسبت 16.28فیصد اضافہ دکھا رہے ہیں اس کی بڑی وجہ بیرون ملک پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے 23ارب ڈالر اور کورونا کی وجہ سے غیر ضروری اخراجات میں کمی ہے۔

کورونا کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں مشکل کا شکار ہیں لیکن پاکستان پر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل و کرم کیا ہے کہ بیماری نسبتاً بہت کم رہی اور حکومتی پالیسی بھی کامیاب رہی، زیادہ تر صنعت کا پہیہ چلتا رہا اور ہم نے چند دوسرے ممالک سے آرڈر بھی لے لئے جہاں بیماری نے بہت زیادہ متاثر کیا تھا لیکن اپنی برآمدات کو مستقل طور پر بڑھانے کے لئے ہمیں بعض طویل مدتی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینا پڑے گی تاکہ ہمیں اپنی صنعتوں کا خام مال درآمد نہ کرنا پڑے۔ پچھلے سال ہمیں اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کے لئے کپاس کی 55لاکھ گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں جس پہ ظاہر ہے کثیر زرمبادلہ خرچ کیا گیا۔ اس سے ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کے اپنے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں اور ہماری صنعت کے لئے بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں کی مسابقت میں بھی نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی اور زرخیز زمین کے حامل ملک کے لئے زرعی اجناس کی درآمد ہماری بہت بڑی ناکامی ہے۔ پچھلے سال پاکستان نے صرف یوکرائن سے 341ملین ڈالر کی درآمدات کیں جس میں سے تقریباً 80فیصد زرعی اجناس تھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور غریب کسان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ پاکستان کی غذائی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے ملک میں مختلف فصلوں کے زون بنائے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہم اپنی ضرورت کی تمام اجناس اپنے ملک میں پیدا کریں۔ اس کے لئے ہمیں اپنے بہترین ماہرین کو بروئے کار لانا ہو گا اور اپنے کسان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرنی ہو گی۔ جعلی کھاد، جعلی ادویات اور جعلی بیجوں کے خلاف قومی سطح پر تحریک چلانا ہو گی۔ پاکستان کے عام آدمی کے لئے خوشحالی صرف اس صورت میں آئے گی کہ ملک میں سبز انقلاب کی بنیاد رکھی جائے۔

ہماری وزارت خارجہ اپنے سفارت خانوں کو برآمدات بڑھانے کی ترغیب دے رہی ہے اور نئی منڈیوں کی تلاش جاری ہے وزیر خارجہ خود اس کوشش میں پیش پیش ہیں لیکن مثبت نتائج نظر نہیں آ رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزارت خارجہ یہ کوششیں اپنے طور پر کر رہی ہے اور مختلف وزارتوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ جن ملکوں میں نئی منڈی بننے کی صلاحیت موجود ہے ان میں سے اکثر کمرشل اتاشی کی سہولت سے محروم ہیں اور سفارت خانے کے مختصر عملے کو اپنے روز مرہ کے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ کمرشل اتاشی کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے اور ان کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ بھی ضروری ہے۔ سنٹرل ایشیا اور مسرقی یورپ کے ممالک سے پاکستان میں رقم بھیجنا اور منگوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اگر کاروبار کے لئے رقم منگوانا یا بھیجنا اتنا مشکل ہو گا تو کاروبار کو فروغ کیسے حاصل ہو گا۔ یوکرائن میں اپنے قیام کے دوران بھی میں نے مشاہدہ کیا کہ کاروباری لوگوں کے لئے پیسے پاکستان بھیجنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ لوگ کسی آنے جانے والے کے ہاتھ رقم بھجواتے تھے۔ یا ہنڈی اور حوالہ کا سہارا لیتے تھے، سفارت خانے کے سٹاف کے لئے بھی اپنے عزیز و اقارب کو رقم بھجوانا خاصہ مشکل تھا، آپ پاکستان میں صرف اپنے اکائونٹ میں رقم بھجوا سکتے تھے اور رقم کا دس ہزار ڈالر سے کم ہونا بھی ضروری ہے۔

انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ چیمبر IRTکی وزیر اعظم کے نام ایک درخواست میری نظر سے گزری ہے۔ اس درخواست میں چیمبر کے صدر نے استدعا کی ہے کہ نیشنل بینک آف پاکستان سنٹرل ایشین ممالک میں اپنی برانچز بند کر رہا ہے جس سے کاروباری حضرا ت کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس درخواست میں ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، قزاقستان، کرگستان اور آذر بائیجان کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم واقعی نئی منڈیوں کی تلاش میں ہیں تو ہمیں ان برانچز کو ہرگز بند نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وقتی طور پر یہ برانچز نقصان میں بھی جا رہی ہوں تو بھی ہمیں طویل المدتی فوائد کے لئے انہیں کھلا رکھنا چاہیے۔ یوکرائن میں بھی نیشنل بنک کی برانچ کھولنا ازحد ضروری ہے۔ اگر وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ اس پر غور کریں، تو یہ ہماری برآمدات کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ نیشنل بنک ایک بہت بڑا بینک ہے لیکن باقی سرکاری اداروں کی طرح یہ بھی روبہ انحطاط ہے۔ خاص طور پر آئی ٹی کے شعبے میں نیشنل بنک کی کارکردگی میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔

نیشنل بنک کی اے ٹی ایم استعمال کرنے سے عام لوگ گریز کرتے ہیں۔ آن لائن ٹرانسفر کی سہولت میں بھی نیشنل بنک نے بڑی تاخیر سے شروع کی ہے۔ سنٹرل ایشیائی ممالک میں برانچز کو بند کرنا اور اپنے اثاثے کوڑیوں کے بھائو سے بہتر ہے کہ اس بنک کو ہنگامی بنیادوں پہ جدید ترین خطوط پہ استوار کیا جائے اگر اس بینک کو محرک قیادت میسر ہو تو یہ بینک پاکستان کی برآمدات بڑھانے اور قومی معیشت کو ترقی دینے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔