بلاول بھٹو زرداری آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں چوکے اور چھکے لگانے میں مصروف ہیں۔ الیکشن کا نتیجہ جو بھی ہو۔ بلاول نے پوری ن لیگ کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ ن لیگ کے سب چھوٹے بڑے لیڈر ٹی وی چینلز پر بلاول کے سوالوں کے جواب دیتے نظر آ رہے ہیں۔ فن تقریر پر بھی بلاول بھٹو کی گرفت کافی مضبوط ہو گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ انہیں بار بار لکھی ہوئی تقریر کا سہارا لینا پڑتا تھا لیکن اب وہ کافی حد تک فی البدیہہ تقریر کرتے ہیں اور خوب قافیے سے قافیہ ملاتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کی آر یا پار والی تقریر سے شروع کر کے میاں شہباز شریف کے پائوں پکڑنے والے ڈائیلاگ کا بلاول بھٹو نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ نظریاتی سیاست کے سفر کا خلاصہ یہی بیان کیا ہے کہ یہ سفر آر اور پار سے شروع ہوا اور حصول اقتدار کے لئے پائوں پکڑنے پر ختم ہوا ہے۔ ن لیگ کے لیڈر پریشان ہیں کہ بلاول بھٹو نے سیاسی تکلف کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور لحاظ کا رشتہ بالکل ہی ختم کر دیا ہے۔ صرف ن لیگ ہی نہیں، بلاول نے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ بلاول بھٹو نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے اتحاد کا مقصد صرف نہاری اور حلوے کھانا ہے تو ہم اس کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کے لئے تو وہ بزدل خان کا نام استعمال کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بلائی ہوئی اسلامک سمٹ کا بھی انہوں نے کریڈٹ لیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ واحد پاکستانی سیاسی لیڈر ہیں، جس نے مودی سے ہاتھ بھی نہیں ملایا۔ جبکہ کچھ لوگ تو مودی کو اپنی شادیوں تک میں مدعو کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی جارحانہ سیاست اپنی جگہ لیکن اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں انتخابی مہم جو رخ اختیار کرتی ہے وہ پاکستان کے لئے کسی طور بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے مخالفین پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں کہ ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور اس پہ طرہ یہ کہ الزامات کا درست ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور یہ الزامات غلط ثابت بھی ہو جائیں تو الزام لگانے والے کے لئے کوئی سزا کا تصور نہیں ہے۔ الزامات کا مقصد صرف مخالفین کی پگڑی اچھالنا ہے۔ بلاول بھٹو کے الزامات سب سے اچھا جواب ن لیگ کے رانا ثناء اللہ نے دیا ہے کہ ان الزامات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ انتخابی تقریروں میں سب چلتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے ان الزامات کو واقعی بڑی سنجیدگی سے محسوس کیا ہے اور کافی سیخ پا ہیں۔ وہ نہ صرف پیپلز پارٹی کو مستقبل کی Slectedکہہ رہے ہیں بلکہ جوش خطابت میں 1993ء میں اپنے الیکشن چوری کرنے کی بھی تصدیق کر رہے ہیں۔
دوسری طرف مریم نواز نے بھی خاموشی توڑتے ہوئے آزاد کشمیر کے الیکشن کا مورچہ سنبھالا ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کی تقریر کے جواب سے درگزر کیا ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کو خوب للکارا ہے۔ ان کا اعلان ہے کہ ووٹ چوروں کے حلق سے سیٹ نکالنے کا ہنر وہ سیکھ چکے ہیں اور اگر کشمیر کا الیکشن چوری کیا گیا تو وہ آخر دم تک لڑیں گے۔ انہوں نے عمران خان پر الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان نے کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ نالائقی کا طعنہ تو وہ مسلسل عمران خان کو دیتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا:کہ یہ بالکل غلط ہے کہ انہیں امیدوار نہیں مل رہے۔ وہ ساری سیٹوں سے امیدوار کھڑے کر رہی ہیں۔ مریم نواز اگرچہ شعلہ نوا مقرر ہیں لیکن پی ڈی ایم کے اتحاد میں دراڑیں پڑنے کے بعد اور بلاول بھٹو کی کاری ضربوں کے بعد ن لیگ کی انتخابی مہم میں کمزوری کے آثار نمایاں ہیں اور بادی النظر میں ن لیگ کی کامیابی کے امکانات کافی کم ہیں۔ روایتی طور پر بھی آزاد کشمیر میں اسی پارٹی کی حکومت بنتی ہے جو پاکستان میں برسر اقتدار ہوتی ہے۔
پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ آج تک پاکستان میں الیکشن ہارنے والی کسی بھی پارٹی نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ پاکستان کی تاریخ میں 1970کے علاوہ، ایک الیکشن بھی ایسا نہیں جسے غیر متنازعہ قرار دیا جا سکے۔ جب تک سب سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گی، اس وقت تک انتخابی اصلاحات بھی ممکن نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ اتنا بڑھ چکا ہے کہ چند بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابات کا غیر شفاف ہونا ہی مناسب لگتا ہے تاکہ وہ اپنے اثرورسوخ اور غنڈہ گردی کی وجہ سے الیکشن پر اثر انداز ہو سکیں۔ پاکستان میں درحقیقت الیکشن ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور یہی پاکستان کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ لوگ الیکشن میں پیسہ لگاتے ہیں اور جیتنے کے بعد اس میں کئی گنا زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔ اس روش نے نہ صرف سیاست کا بیڑہ غرق کیا ہے بلکہ اصل کاروباری لوگوں کے لئے بھی بے پناہ مشکلات پیدا کر دی ہیں، ان کو مجبوراً سیاسی لوگوں کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بنانا پڑتا ہے تاکہ وہ کاروبار کامیابی سے کر سکیں۔
حمزہ شہباز کے اکائونٹ میں نامعلوم لوگوں کی طرف سے پچیس ارب روپیہ آ جانا اور حمزہ شہباز کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ سیاست میں بے حد مصروف تھے اور وہ نہیں جانتے کہ کس کس نے ان کے اکائونٹ میں روپیہ جمع کروایا ہے۔ اتنی مضحکہ خیز بات صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے ورنہ عام آدمی کے اکائونٹ میں تو کوئی ایک سو روپیہ بھی غلطی سے نہیں ڈالتا۔ اگر حمزہ شہباز نے اس رقم کی ملکیت سے انکار کیا ہے تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت نے کیوں یہ روپیہ ابھی تک بحق سرکار ضبط نہیں کیا۔ اسی لئے کہ پاکستان کی تمام نوکر شاہی ابھی تک مکمل طور پر حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی۔ پاکستان کا عدالتی نظام بھی بہت سی اصلاحات مانگتا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت کے سامنے توہین عدالت کا قانون بھی بے بس ہو چکا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آج کل سوشل میڈیا کے نشانے پر ہیں۔ ان کے بارے میں بے شمار جھوٹی اور سچی کہانیاں زیر گردش ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو کس طرح مہذب ممالک کے عدالتی نظام کے ہم پلہ بنایا جا سکتا ہے۔ جو چیف جسٹس اس سمت میں قدم اٹھائے گا وہ پاکستان کا محسن ہو گا۔ دوسری جنگ عظیم میں چرچل نے بالکل درست کہا تھا کہ: اگر ان کی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ حکومت کو اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ مل کر اس سمت قدم اٹھانا چاہیے۔ حکومت تو آج تک وہ 120احتساب عدالتیں بھی نہیں بنا سکی، جس کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو ازسر نو منظم کیا جائے۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔