شاعری آج سے نہیں ہزاروں برسوں سے ساحری اور جادوگری کہلاتی ہے۔ بیسویں صدی سے نثر کا عروج ہوا لیکن ابھی تک دنیا میں لوگ شاعری پر جان چھڑکتے ہیں۔
5 اکتوبر 2020 کو جب نوبیل انعام کی ادبی کمیٹی نے امریکی شاعرہ لوئیس گلک کو ادب کا نوبیل انعام دینے کا اعلان کیا تو شاعری اور بہ طور خاص امریکی شاعری کے دلدادہ لوگوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے چاہنے والوں اور شاگردوں نے رات گئے تک اس کے انعام کا جشن منایا۔
اس کے ایک مداح اور شاگرد کا کہنا تھا کہ اس نے نوبیل انعام کا اعلان ہونے سے پہلے اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا۔ اس کے ایک ضخیم مجموعے Vita Nova (نئی زندگی) جس کا عنوان عظیم اطالوی شاعر دانتے سے مستعار لیا گیا ہے کا بار بار حوالہ دیتا ہے۔
ہمارے یہاں امریکی شاعری کے والہ و شیدا احمد سہیل نے کئی امریکی شعرا کے کلام کا ترجمہ کیا ہے جن میں لوئیس گلک بھی شامل ہیں۔ احمد سہیل نے اس کی ایک نظم "سنو ڈراپز" کا ترجمہ کیا ہے۔ جس میں انھوں نے سردیوں کے موسم کے بعد زندگی کی معجزاتی واپسی کو بیان کیا ہے۔ لوئیس کہتی ہے۔
مجھے زندہ رہنے کی توقع نہیں تھی
زمین مجھے دبا لے، مجھے توقع نہ تھی
دوبارہ جاگنا، محسوس کرنا
گیلی زمین میں میرا جسم
یاد کرتے ہوئے، دوبارہ جواب دینے کے قابل
اتنی دیر میں پھر کیسے کھِلنا ہے
سرد روشنی میں
ابتدائی موسم بہار کی
اس نے ہماری روز مرہ زندگی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ محبت، جدائی، موت، بچپن اور خاندانی زندگی وہ ان تمام معاملات کو اپنی شاعری میں یوں بیان کرتی ہے کہ ہم بے قرار ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ 27 برسوں میں وہ پہلی عورت ادیب ہے جسے یہ انعام دیا گیا، وہ 16 ویں ہے جس نے یہ انعام جیتا۔ 1993ء میں یہ ٹونی موریسن تھی جسے یہ انعام ملا اور اب لوئیس گلک کے حصے میں یہ اعزاز آیا۔ اس سے پہلے وہ پلٹزر اور دوسرے اہم ادبی انعامات کی حق دار ٹھہرائی گئی۔ اس کا شعری مجموعہ "واردات" شائع ہوا تو "نیویارک" ٹائمز نے اسے گزشتہ 25 برسوں میں سامنے آنے والی ظالمانہ اور دکھ درد سے بھری ہوئی امریکی شاعری قرار دیا تھا۔ اس کی شاعری اداس کرتی ہے اور پڑھنے والا دکھ درد سے دوچار ہوجاتا ہے۔ وہ ایک ایسی فرد ہے جسے بھیڑ بھڑکے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ابھی تک اس کے 12 مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔
نوبیل انعام کا اعلان ہونے کے فوراً بعد اس نے ایک مختصر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ مجھے 8 لاکھ 70 ہزار پائونڈ ملیں گے جس سے میں ورمنٹ میں ایک گھر خرید سکوں گی۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میری خواہش ہے کہ میری روز مرہ زندگی کا توازن نہ بگڑے اور میں اپنے دوستوں اور پیاروں کے ساتھ خوش رہوں۔ اب یہ دیکھیں کہ آپ سے باتوں کے درمیان فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے۔ اس آواز سے میرے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ آپ اپنے قارئین کو کون سی کتاب سب سے پہلے پڑھنے کا مشورہ دیں گی تو اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ پہلی کتاب نہ پڑھیں تو بہتر ہے۔ میری کتاب Averno انھیں زیادہ لطف دے گی۔ یا پھر وہ میرا آخری مجموعہ Faithful and Virtuous Night پڑھیں۔ میرا یہ مجموعہ میری تمام تخلیقات کا احاطہ کرتا ہے۔
امتیاز ڈھار کر کا کہنا تھا کہ لوئیس کی شاعری ہمارا دل خوش نہیں کرتی لیکن وہ چیزوں کے بارے میں ایک واضح اور روشن نقطہ نظر رکھتی ہے۔
اس کی ساتھی شاعرات اور شاعروں کو اس بات کی خوشی تھی کہ ان کی برادری سے تعلق رکھنے والی کو یہ انعام ملا۔ ان کے خیال میں وہ اس کی حق دار تھی، یوں بھی وہ اس سے پہلے بہت سے اہم انعامات لے چکی ہے۔
اس انعام کے بارے میں بعض خواتین کا کہنا تھا کہ یہ زبردست بات ہے کہ ایک عورت کو ادب کا نوبیل انعام ملا۔ کئی امریکی شاعرات اس بات سے بہت خوش ہیں کہ اس کی ایک ساتھی کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔
لوئیس 1943ء کے نیویارک میں پیدا ہوئی۔ اس نے کولمبیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ مختلف یونیورسٹیوں میں شاعری پڑھائی اور آج کل Yale یونیورسٹی سے متعلق ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ جب میں جوان تھی تو میں ایسی زندگی گزار رہی تھی جو میرے خیال میں ایک لکھنے والی کو گزارنا چاہیے۔ اس کے چند برس بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ میں ایک لکھنے والی نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے ورمنٹ میں پڑھانا شروع کردیا۔ اس وقت میرا خیال تھا کہ شاعر اگر وہ واقعی شاعر ہیں تو انھیں استاد نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ پڑھانے کے ساتھ ہی میں لکھنے والی بھی ہوں۔
اس کے مجموعوں کو 20 برس سے چھاپنے والے پبلشرز کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے وسیلے سے انسانوں کو کسی خاص نقطہ نظر سے وابستہ نہیں کرتی۔ وہ انسانوں کے لیے لکھتی ہے۔ ان کے دکھ درد کو سمجھتی ہے اور ان ہی کے لیے لکھتی ہے۔ شاید یہ کہنا زیادہ درست ہو کہ وہ کسی "ازم" کا نعرہ نہیں لگاتی۔
اس کی شاعری میں ہمیں یونانی اصنامیات اور اساطیر کے بہت سے حوالے ملتے ہیں۔ وہ آج کے معاملات کو دو ہزار برس پرانی یونانی کہانیوں سے جوڑتی ہے۔ ان کے حوالے دیتی ہے۔ اس کی نظمیں بہت جذباتی اور انسانی دکھ درد کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوتی ہیں۔ اس پر ابھی بہت کچھ لکھا جائے گا ہمارے یہاں یہ کام احمد سہیل نے فوراً کیا اور ان کا ایک تفصیلی مضمون امریکی شاعری کے شیدا لوگوں کا دل شاد کرگیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ لوئیس کی شاعری کے مزید تراجم کریں گے اور اس کی شاعری پر تنقید بھی کریں گے۔
اس بارے میں لکھتے ہوئے آخر میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ 2020 کے نوبیل امن انعام کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق امن کا نوبیل انعام رواں سال اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو دیا گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کو یہ ایوارڈ بھوک سے نمٹنے کی کوششوں پر دیا گیا ہے۔ امن کا نوبیل انعام اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو دینے کا فیصلہ ناروے کی نوبیل کمیٹی نے کیا ہے، اس مقابلے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، گریٹا تھنبرگ، ڈونلڈ ٹرمپ اور جیسنڈا آرڈن بھی پسندیدہ تصور کیے جا رہے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ برس امن کا نوبیل انعام ایتھوپیا کے وزیر اعظم علی احمدابی کو دیا گیا تھا۔ اس سال امن کے نوبیل انعام کے لیے مجموعی طور پر 318 نامزدگیاں شامل تھیں۔ جس میں 211 افراد اور 107 تنظیموں کے نام جمع کرائے گئے تھے۔ دیگر نامزدگیوں میں بلیک لائیو میٹر موومنٹ، کمیٹی تو پروٹیکٹ جرنلسٹس، رپورٹر ودائوٹ بارڈرز، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین کو شامل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سوئیڈن کی کم سن لڑکی گریتا تونبرگ کو بھی امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے فاقہ کشی کے شکار 27 کروڑ انسانوں کی جانیں بچانے کے لیے دنیا بھر کے ارب پتی انسانوں سے مدد کی اپیل کی ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے نے دنیا کے امیر ترین انسانوں سے اپیل کی ہے کہ فاقہ کشی کے شکار 270 ملین انسانوں کی مدد کے لیے مالی وسائل مہیا کریں۔ دوسری صورت میں ان کروڑوں انسانوں کی جانیں بچانا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ ڈیوڈ بیسلے نے کہا کہ ان کے ادارے کو ان فاقہ کش انسانوں کو ایک سال تک کھانا کھلانے کے لیے تقریباً 5 ارب ڈالر درکار ہیں۔ دنیا کے 2ہزار ارب پتی انسان مجموعی طور پر 8 ٹریلین ڈالر کے مالک ہیں۔
شاعری یا ادب کی باتیں اسی وقت اچھی لگتی ہیں جب لوگوں کے پیٹ میں نوالہ بھی ہو۔ اسی لیے لوئیس کا ادبی انعام اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو امن کا ایوارڈ ملنا ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ اس موقع پر مجھے نظیر اکبر آبادی یاد آتے ہیں جنہوں نے روٹی پر ایک کمال نظم لکھی تھی۔