اب اس بات کو لگ بھگ ایک سو بیس برس ہوتے ہیں کہ دنیا بھر میں عالمی ادب کے دیوانے اگست اور ستمبر کے مہینے سے 5 اکتوبر کا انتظار کرتے ہیں کہ اس مہینے دوسرے شعبوں میں انعامات کے علاوہ ادب کے نوبیل انعام کا تاج کس کے سر سجے گا۔
ابتدا میں یہ انعام عمومی طور پر یورپی اور امریکی سفید فام ادیبوں کے حصے میں آتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ، ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی سفید فام اور سیاہ فام شاعروں اور ادیبوں کو بھی دیا جانے لگا۔
نوبیل انعام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ الفریڈ نوبیل نے جب ڈائنا مایٹ ایجاد کی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی یہ ایجاد دنیا میں کیسی قیامت مچا دے گی۔ اس ایجاد کے بعد اس سے پہلے لڑی جانے والی جنگیں بچوں کا کھیل محسوس ہونے لگیں۔ اس کی گہری دوست نواب بیگم برتھا وون سٹنر تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ انسانوں اور شہروں کی ہلاکت خیزی میں ڈائنا مایٹ کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔
وہ یہ بھی جانتی تھی کہ الفریڈ کی صحت بہت خراب ہوچکی ہے، اسی لیے اس نے الفریڈ نوبیل سے خط و کتابت کا سلسلہ بڑھا دیا۔ وہ کہتی تھی کہ بینکوں میں تمہاری جو دولت جمع ہے، اسے اپنے بھائی بھتیجوں کے نام نہ کرنا جو اس دولت کو عیش و عشرت میں اڑا دیں گے۔
اپنی اس دولت کے لیے کوئی فاؤنڈیشن بنا جاؤ۔ فاؤنڈیشن تمہاری دولت سے ملنے والی سود کی رقم سے علم و ادب، امن اور سائنس کے مختلف شعبوں میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کو بھاری انعام سے نوازے۔ برتھا یہ چاہتی تھی کہ اپنے اپنے شعبوں میں کارِ فرہاد کرنے والوں کو نہ صرف عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے بلکہ ان کی زندگی کے آخری دن کچھ سکون اور آرام سے گزریں۔
ہمیں اس بات کو اپنے برصغیر کے لیے اعزاز کا سبب سمجھنا چاہیے۔ 1913 میں رابندر ناتھ ٹیگور اور 1988میں نجیب محفوظ کو نوبیل کا ادبی انعام عطا کیا گیا۔ ٹیگور کی "گیتان جلی" پر گفتگو کو آیندہ کسی محفل کے لیے رکھتے ہوئے میں نجیب محفوظ کے اس احساس شکر گزاری کا ذکر کرنا چاہوں گی جس میں مصر کے اس عظیم دانشور اور ناول نگار نے کہا تھا:
" میں اس دنیا سے آیا ہوں جو اتنے قرضوں کے بوجھ تلے محنت مزدوری کررہی ہے صرف جن کی ادائیگی پر اٹھنے والا خرچ ہی اس کو فاقہ مستی یا اس سے قریب تر رکھتا ہے۔ اس کے بہت سے لوگ ایشیا میں سیلاب کی نظر ہوجاتے ہیں۔ جب کہ کچھ افریقا میں قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنوبی افریقا میں لاکھوں افراد کو استرداد اور محرومی کے ذریعے انسانی حقوق کے اس دور میں بھی تمام انسانی حقوق سے مبّرا رکھا گیا ہے۔
گویا ان کو انسانوں کی گنتی میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ غزہ اور غربی کنارے پر ایسے لوگ بستے ہیں جو اپنی زمین پر، اپنے آباؤ اجداد کی زمین پر بستے ہوئے بھی اپنی شناخت سے محروم کردیے گئے ہیں، سو وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں صرف یہ طلب کرنے کے لیے کہ انھیں بھی پہچانیں۔ ان کو ان کی بہادرانہ اور شریفانہ حرکت کا جواب ٹوٹی ہوئی ہڈیوں، گولیوں سے چھلنی جسموں، مسمار شدہ مکانات، جیلوں اور عقوبت خانوں میں اذیتوں سے دیا گیا۔ ان کے چاروں جانب ڈیڑھ ارب عرب غصے اور غم کی کیفیات میں سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس کو، ان لوگوں کی دانش کے ذریعے بچایا نہیں گیا جو ایک منصفانہ اور مکمل امن کے خواہاں ہیں، تو یہاں شدید تباہی پھیلے گی۔"
نجیب نے جو کچھ کہا تھا افسوس کہ سب کچھ اسی طرح ہو رہا ہے اور ہمارے اور دنیا کے بیشتر حکمران ان باتوں پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 1950 کا یہ نوبیل ادبی انعام برٹرینڈ رسل کو دیا گیا۔ وہ فلسفے اور ریاضی میں 20 ویں صدی کا عبقری کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی اس نے دنیا میں پھیلی ہوئی جنگ زدگی کے خلاف بہت کچھ لکھا۔ 1964 میں اس نے برٹرینڈ رسل پیس فاؤنڈیشن قائم کی۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ ویتنام اور فلسطین میں پھیلی ہوئی جنگوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ اس نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ "تین شدید جذبات میری پوری زندگی پر مکمل طور پر حاوی رہے ہیں۔ وہ ہیں: محبت کی عنا، علم و دانش کی تلاش اور انسانیت کی مصیبت زدگی پر تاسف"
اسے جب نوبیل ادبی انعام سے نوازا گیا تو اس میں بھی وہ ہمیں ویتنام میں امریکا کی غاصبانہ جنگ کے خلاف آواز بلند کرتا سنائی دیتا ہے۔ وہ دنیا کے عربوں، ایشیائیوں افریقیوں اور غریب سفید فاموں کی بھوک کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:
انسان کچھ ایسی لاانتہا خواہشات رکھتا ہے جو مکمل طور پر کبھی پوری نہیں ہو سکتیں اور شاید یہ خواہشات اس کو جنت میں بھی بے چین ہی رکھیں گی۔ اجگر کو جب پیٹ بھر خوراک مل جائے تو وہ سو جاتا ہے اور اس وقت ہی جاگتا ہے جب اسے پھر خوراک کی ضرورت پڑتی ہے۔
انسان بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ وہ عرب جو صرف چند کھجوروں پر زندہ رہنے کے عادی تھے۔ جب مشرقی رومن سلطنت کی دولت سے مالا مال ہوئے اور محلوں میں موجود ناقابل یقین عیش و عشرت سے بہرہ مند ہوئے تو وہ بیٹھ نہیں رہے۔ اس کے لیے بھوک ہی وجہ حرکت نہیں تھی اس لیے کہ صرف سر کے ہلکے سے اشارے پر ہی یونانی غلام انواع و اقسام کی غذائیں فراہم کر دیتے تھے۔ اور بھی خواہشات تھیں جنھوں نے ان کو متحرک رکھا۔ ہم بالخصوص چار خواہشوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اکتساب پسندی، رقابت یا مسابقت، خود نمائی اور طاقت کا حصول۔
اکتساب پسندی: زیادہ سے زیادہ اشیا پر قابض ہونے کی خواہش یا چیزوں کو اپنے نام کرانا ایسی محرک ہے، میرے خیال میں جس کی ابتدا غالباً محرومی کے خوف اور ضروریات زندگی کی خواہش کے اتصال سے ہوئی ہے۔ ایک بار ایسٹونیا کی دو لڑکیوں سے میری دوستی ہوئی تھی جو قحط کے باعث موت کے منہ میں جانے سے بال بال بچی تھیں۔
اپنے اہل خاندان کے ساتھ رہتی تھیں۔ اور ان کو وافر خوراک مہیا تھی۔ مگر ان کی تفریح کا زیادہ وقت قریبی کھیتوں سے آلو چراتے گزرتا تھا۔ جن کو وہ بس جمع کرتی تھیں۔ امریکا کا مشہور مال دار شخص راک فیلر (Rockefeller) جس کا لڑکپن بڑی عسرت میں گزرا تھا اپنی آیندہ زندگی کچھ اسی عالم میں بسر کرتا رہا۔ بازنطینی ریشمی گدیلو میں رہ کر بھی عرب سردار ریگستانوں کو نہیں بھول سکے اور اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ اشیا کا جمع کرنا ان کا مشغلہ تھا۔
اس اکتساب پسندی کی کیسی بھی نفسیاتی توجیہ پیش کی جائے کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکے گا کہ اکتساب پسندی ہی سب سے بڑی محرک ہے۔ بالخصوص ان لوگوں میں جو طاقتور ہوتے ہیں۔ آپ جتنا بھی حاصل کر لیں گے، ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہیں گے۔ شکم سیری کا خواب ایسا ہے کہ آپ کو ہمیشہ اسی میں سرگرداں رکھتا ہے۔
نجیب محفوظ اور لارڈ رسل کی بات کرتے ہوئے یہ ذکر تو رہ گیا کہ چند دنوں پہلے 5 اکتوبر کو امریکی شاعرہ لوئیس گلک کو 2020کا نوبیل انعام ملا۔ 77 برس کی لوئیس گلک ایک خاموش طبع شاعرہ ہے۔ بنیادی طور پر وہ استاد ہے۔
اس کے شاگردوں اور مداحوں کی ایک بڑی تعداد امریکا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ انھوں نے امریکا کے مختلف شہروں اور یونیورسٹیوں میں شامپین کی بوتلیں کھول کر جشن منایا۔ ہمارے یہاں بھی وہ ان لوگوں میں بہت مقبول ہے جو ان کی شاعری میں اپنی زندگی کا عکس دیکھتے ہیں۔
(جاری ہے)