Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 2021 Mout Se Larne Ka Saal

2021 Mout Se Larne Ka Saal

زمانہ زن زن کرتا گزر گیا۔

2020 ساری دنیا کے آلام کا پشتارہ اٹھائے فنا کے سمندر میں اتر گیا۔

ہم جو ہربرس کے گزرنے کی بات کرتے تھے اور نئے سال کے آمد کی خوشیاں مناتے تھے، اس برس ہم میں سے اکثر سر جھکائے سوچتے رہے کسی نے لکھا کہ

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے

خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے

اور کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ 2020 جیسا بھی کوئی سال آئے گا جو صرف ہمیں ہی نہیں ساری دنیا کو تہس نہس کرے گا۔

اب سے پہلے کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کوئی ایسی بیماری بھی آئے گی جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور جس کے سامنے نیو یارک شہر کی بلندیاں اور نیو گولی مار کی پستیاں ایک ہوجائیں گی۔ وہی عالم ہوگا کہ تری سرکار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے۔ نظر نہ آنے والا ایک جرثومہ ارب پتی اور کنگال کو ایک جیسی اذیت دے گا۔

اس جرثومے اور اس سے پھیلنے والی مہلک بیماری پر گزشتہ برس میں نے بہت سے کالم لکھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے ان میں سے 28 کالم اکٹھا کیے اور ڈاکٹر جعفر احمد نے اسے کتابی شکل میں شایع کردیا۔

زیادہ پرانی نہیں اپریل 2020 کی بات ہے جب میں نے لکھا تھا کہ " ایک مشہور امریکی مورخ مائیک ڈیوس کا خیال ہے کہ ایک قطعی طور پر عقلی (Rational) دنیا میں آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک عالمی وبا زیادہ بین الاقوامیت کی راہ ہموار کرے گی۔ اس مورخ کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت جو اپنے منافع سے آگے نہیں دیکھتی ہے۔ اس لیے سماج کے کمزور طبقات کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کی دنیا کو اس بات کی ضرورت ہے کہ زیادہ مقدار میں ٹیسٹ کٹس، ماسک اور وینٹی لیٹر کی پیدوار میں نہ صرف اپنے ملک بلکہ زیادہ غریب ملکوں کی ضروریات کوبھی پیش نظر رکھتے ہوئے غیر معمولی اضافہ کیا جائے، ایسا کرنا اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ دنیا کے تمام ملک ایک ہی بوتل کے اندر بند ہیں۔ الگ الگ رہ کر اس وبا پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔

دنیا کے محققین کورونا وائرس اور اس کے تباہ کن اثرات کے مطالعے میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے دنیا میں کافی کام ہورہا ہے۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ آج کی دنیا زیادہ بہتر انداز میں اس عالمی وبا کا مقابلہ کررہی ہے۔ کسی بھی عالمی وبا کی طرح کورونا وبا بھی سماجی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشی حوالوں سے منفی اور مثبت دونوں اثرات مرتب کررہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی ہر حکومت اور دنیا کا ہر شہری اس مشکل گھڑی میں اپنے حواس پر قابو رکھے، خوف زدہ نہ ہو اور تاریخ کی اس حقیقت کو سمجھ لے کہ ہر عالمی وبا کے بعد انسان نے بہتر سبق سیکھا ہے۔ امید نہیں یقین رکھنا چاہیے کہ انسان اس بحران پر بھی قابو پالے گا اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مالی وسائل اور توانائیاں صرف کرے گا۔

ان چند مہینوں کے دوران متعدد ملکوں کے سائنس دانوں نے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کرکے اس جرثومے سے حفاظت کی ویکسین تیار کی ہے اوراب شنید ہے کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچے گی۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ کراچی کا ایکسپو سینٹر، ویکسین سینٹر میں تبدیل کردیا جائے گا۔

دنیا بھر میں آج سے نہیں سیکڑوں اور ہزاروں برس سے آفت ارضی و سماوی پھیلتی رہی ہیں۔ وبائیں آتی رہی ہیں اور لاکھوں کو لقمہ اجل بناتی رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے جو پڑھے لکھے تھے انھوں نے شعرو ادب سے جی لگایا۔ اس دور میں کتابوں کی اشاعت زور شور سے نہیں ہوتی تھی اس لیے ایسے زمانے میں پڑھے لکھے لوگوں نے کچھ اپنی اور کچھ دوسروں سے سنی سنائی کہانیاں سنائیں۔ یہ داستان گو اسی طرح اپنا روزینہ کماتے تھے ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنھوں نے اس زمانے میں بھی شہرت کمائی اور جب وہاں سے اٹھے تو داد سمیٹی اور اس کے ساتھ ہی ان کی جیب میں چاندی اور سونے کے سکوں میں اضافہ ہوا۔

بیسویں صدی میں اٹلی دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا اور اس کے آمر مطلق مسولینی نے جرمن نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کی پیروی کرتے ہوئے اٹلی کو بھی دوسری جنگ عظیم کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد اٹلی پر جو کچھ گزری ہم سب کو معلوم ہے۔ اب اس وقت کورونا وائرس اٹلی اور اسپین پر ٹوٹ پڑا ہے۔ کسی دن ہلاک شدگان کی تعداد اٹلی میں بڑھ جاتی ہے اور کسی روز اسپین میں جان سے جانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ایک نازک وقت ہے۔

پوری دنیا اپنے اپنے عذاب جھیل رہی ہے اورکورونا وائرس کی دہشت نے انھیں نیم مردہ کررکھا ہے۔ وہ لوگ جو اس ہلاکت خیز وبا سے بے حد و حساب دہلے ہوئے ہیں، ان میں سے وہ جو دانشور ہیں، ادیب ہیں اورسائنسدان ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اٹلی جیسے ملک میں ادیبوں نے سات یا ساڑھے سات سو برس پہلے اس سانحے کو کس طور لکھا تھا تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عرفان صدیقی نے اس عالم کو کس دل دوز انداز میں رقم کیا ہے۔ ان کے چند اشعار آپ کی نذر ہیں۔

مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے

اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے

ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں، ٹوٹتی جاتی ہے سانس

اس کا کہنا ہے نہ گھبرائو شفا ہونے کو ہے

فاصلوں اور قید تنہائی تلک تو آگئے

جانے کیا کچھ اور بھی نذر وبا ہونے کو ہے

ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو

ایسے لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے

سچ تو یہ ہے کہ 2020 میں دنیا بھر کے شہروں کو موت نے ڈس لیا اورجو حادثہ ہونا تھا وہ ہو چکا، 2021 موت سے لڑنے کا سال ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس امتحان میں کتنے ملک اور کتنی قومیں سرخرو ہوتی ہیں۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.