Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 3000 Safhaat Ki Judicial Commission Report

3000 Safhaat Ki Judicial Commission Report

وقت ظالم ہے، انسانوں کو، ان کے خوابوں کو روندھتا ہوا گزر جاتا ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو بھاری اسلحے سے لیس ظالمان، آرمی پبلک اسکول میں گھسے اور انھوں نے چشم زدن میں ہنستے، کھیلتے، روشن چہروں والے بچوں کوکھیرے، ککڑی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا۔ سفاکی سے قتل کیے جانے والے 145 لوگوں میں سے بیشتر اسکول کے بچے تھے۔ ان 132 بچوں کی آنکھوں میں خواب تھے، انھیں یقین تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے دلوں کی ٹھنڈک ہیں۔

گھروں میں بیٹھی ہوئی ان کی مائیں اور بہنیں ان کے دوپہر کے کھانے کی تیاریاں کررہی تھیں لیکن پشاورکا وہ علاقہ جو بہت محفوظ و مامون سمجھا جاتا تھا جہاں ماں باپ اپنے بچے اس لیے داخل کراتے تھے کہ یہاں "سیکیورٹی" بہت سخت سمجھی جاتی تھی۔ وہاں تمام حفاظتی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ خود کار اور نیم خود کار اسلحے کی آوازیں گونجیں اور ننھے بچوں سے لے کر ساتویں، آٹھویں اورنویں جماعت کے بچے خاک و خون میں ڈوب گئے۔

اسکول کی پرنسپل اپنے بچوں اور قاتلوں کے راہ میں آگئیں تو ان سے کہا گیا کہ " ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیں، تم گھر چلی جاؤ۔" ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، انھوں نے راہ سے ہٹنے سے انکار کردیا تو انھیں بھی گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ میری نگاہ میں اصل شہید وہ تھیں جنھوں نے اپنے بچوں کے ساتھ جانا قبول کیا۔ کیسی بہادر اور "ماں " عورت تھی۔ اسے ہزاروں سلام۔ آسمان اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔

یہ خونیں سانحہ دسمبر 2014 میں ہوا تھا۔ اپنے ہی خون میں نہا جانے والے بچوں کے والدین اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں 5 اکتوبر 2018 کو ایک جوڈیشل کمیشن بیٹھا، جس کی رپورٹ ابھی تین دن پہلے آئی ہے۔ اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اندرونی امداد اور سہولت کاری کے بغیر اتنا بڑا سانحہ ممکن ہی نہیں تھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کرم ہے کہ انھوں نے تین ہزار صفحوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن رپورٹ کو عام کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں کے سامنے یہ بات آئی کہ وہ اپنے ہی لوگ تھے، اپنا ہی خون تھا جس نے یہ سفاکانہ قتل کرنے والوں کی پشت پناہی کی، انھیں رہائش اورکھانا پینا مہیا کیا۔

انھیں اسلحہ فراہم کیا۔ 3000 صفحات کی اس رپورٹ میں 132 لوگوں کے بیانات ہیں، 101 کی عینی شہادتیں ہیں جن میں 31پولیس والوں اور 31 فوجیوں کے بیانات شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر ایک گاڑی میں آگ لگا دی۔ اس سے اٹھنے والے دھویں نے علاقے میں گشت کرنے والی MVT-1 کی توجہ اسکول کے گیٹ اور اس کے اندرون کی طرف سے ہٹادی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ دہشت گرد کسی تعرض کے بغیر اسکول کے اندرگھسنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے جو چاہا وہ کیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ MVT-1کے عملے کو سزا دی گئی، یہ سزا ان کی نا اہلی پر دی گئی۔ ایک بریگیڈیئر اور ایک میجر کو سزا سنائی گئی اور 5 فوجی اہلکار برخاست کیے گئے اور انھیں سزائیں دی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو گارڈ اسکول کی عمارت اور اس کے بچوں کی حفاظت کے لیے تعینات تھے انھوں نے اگر ابتدا میں ہی جوابی کارروائی کی ہوتی تو بچوں کا اس طرح قتل عام نہ ہوتا، یہ بچے ہمارا مستقبل تھے۔ ان کے ماں باپ نے اے پی ایس کی حفاظت پر مامور محافظوں پر اندھا اعتماد کیا تھا۔ وہ اعتماد کانچ کے کسی پھول دان کی طرح چکنا چور ہوا۔ اس موقعے پر ن م راشد کی ایک نظم یاد آتی ہے جو انھوں نے 50ء کی دہائی میں لکھی تھی:

رات جب باغ کے ہونٹوں پر تبسم نہ رہا… رات جب باغ کی آنکھوں میں … تماشا کا تکلم نہ رہا…غنچے کہنے لگے… "رکنا ہے ہمیں باغ میں "لاسال" ابھی"… صبح جب آئی تو "لاسال" کے… جانکاہ معمے کا فسوں بھی ٹوٹا!… صبح کے نام سے اب غنچے بہت ڈرتے ہیں … صبح کے ہاتھ میں … جراح کے نشتر سے بہت ڈرتے ہیں … وہ جو غنچوں کے مہ وسال کی کوتاہی میں … ایک لمحہ تھا، بہت ہی روشن… وہی اب ان کے پگھلتے ہوئے جسموں میں … گلِ تازہ کے بہروپ میں …کن زخموں سے دلگیر ہے۔

آشفتہ ہے!… رات میں خواب بھی تھے… خوابوں کی تعبیر بھی تھی… صبح سے غنچے بہت ڈرتے ہیں !… غنچے خوش تھے کہ یہ پھول… ہو بہو ان کا خدوخال لیے… ان کا رنگ، ان کی طلب… ان کے پروبال لیے… ان کے خاموش تبسم ہی کی پہنائی میں … کیا خبر تھی، انھیں وہ کیسے سمندر سے… ہوئے ہیں خالی!… جیسے اک بھولے ہوئے قہقہے سے…یہ سارے ستارے ابھرے… جیسے اک دانہ انگور سے… افسانوں کا سیلاب اٹھا… جیسے اک بوسے کے منشور سے… دریا جاگے… اور اک درد کی فرد سے… انساں پھیلے… انھیں (ان غنچوں کو) امید تھی… وہ پھول بھی ان کی مانند… ان کی خود فہمی کی جویائی سے پیدا ہوں گے… ان کے اس وعدہ مبرم ہی کا… ایفا ہوں گے!… پھول جو اپنے ہی وہموں کے تکبر کے سوا… کچھ بھی نہیں … ان کی (ان غنچوں کی)… دلگیر صدا سنتے ہیں … ہنس دیتے ہیں۔

یہاں ایک انگریزی معاصر کے اداریے سے چند جملے نقل کررہی ہوں کہ " انتہا پسندی ایک ایسی آگ ہے جسے اگر بروقت نہ بجھایا جائے تو وہ ہر چیز چاٹ جاتی ہے۔"

یہ کمیشن رپورٹ ان لوگوں کی نگاہوں سے گزری ہے جن کے بے گناہ اور معصوم بچے انتہا پسندی کی اس آگ میں خاکستر ہوگئے۔ جانے کتنے تکیے آنسوؤں سے تر ہوئے ہوں گے اور انھوں نے سوچا ہوگا کہ کیا ہم اپنوں پر بھروسہ کرسکتے ہیں، جن پر ہم نے پہلے بھی بھروسہ کیا تھا اور ہمارا اعتماد ریت کا گھروندا ثابت ہوا تھا اور ان لوگوں کا ضمیر تو آج بھی خوابیدہ ہوگا جنھوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دی تھی اور ان کے سہولت کار بنے تھے، اس یقین کے ساتھ کہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔

ہمارے یہاں دہشت گردوں کو کچلنے کے بجائے سیاسی رہنماؤں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ہم اپنی آیندہ نسلوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر توانا کرنے کے بجائے ان کے سروں پر پیتل کی ٹوپیاں چڑھا رہے ہیں۔ وہ بچے اور بچیاں جو سائنس، انجینئرنگ اور لبرل آرٹس میں آگے بڑھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں ان کے لیے رقم مہیا کرنے کے بجائے ہم اپنی دوسری صلاحیتیں بڑھا رہے ہیں اور اس بات پر فخر کررہے ہیں کہ ہم کس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں۔ ہم اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ اگرکسی نے میلی آنکھ سے ہماری طرف دیکھا تو ہم اس کی آنکھیں نکال لیں گے۔

دنیا کا ہر ملک اپنے دفاع کے لیے اسی طرح سوچتا اور تیاریاں کرتا ہے لیکن ہم تو اپنے معصوم بچوں کو دہشت گردوں کے چنگل سے نہ بچا سکے، ہم اس طرح کے دعوے کرتے ہوئے کچھ اچھے نہیں لگتے۔ ہم اقتدارکی خاطر صرف دوسرے سیاسی مخالفین کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ ہم ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار ہیں اور اس بارے میں غور نہیں کرتے کہ ہمارے یہاں سماج میں نا برابری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اس نا برابری کے ساتھ ہم پچھڑے ہوئے طبقات کو کیسے یقین دلاسکتے ہیں کہ ان کے بچے صرف کمی بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ یہ اندوہناک واقعہ جب ہوا تو یہ نعرہ لگا تھا کہ ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ یہ کون سا دشمن ہے جس کے بچوں کو پڑھانے کا عزم کیا گیا تھا اور کیا ہم نے حساب لگایا کہ ہم اپنے کتنے بچے پڑھا سکے ہیں؟

سڑکوں پر اور بازاروں میں ناکافی لباس میں خستہ حال اور زرد آنکھوں والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ہمارے بچے نہیں ہیں، اس لیے ہم ان کے بھوک کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے۔ ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ ہمارا دل نہیں مسوستے۔ ہمارا ضمیر نہیں جاگتا اور ہم اپنی نمازوں، نوافل، حج، عمرہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو جنت میں جانے کا راستہ جانتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم نہیں سوچتے اور مطمئن رہتے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول میں بے گناہ بچوں کو خون میں نہلانے والوں اور ان کے سہولت کاروں کا ضمیر شاید آج بھی مطمئن ہوگا، شاید انھیں یقین ہوگا کہ انھوں نے جنت کمالی ہے۔ اب کیا غم ہے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.