2020 خدا خدا کر کے ختم ہونے والا ہے۔ اس برس نے دنیا بھر کو کیسے کیسے گھاؤ دیے۔ نظر نہ آنے والا ایک جرثومہ دنیا میں اس طرح پھیلا کہ کیا مشرق و مغرب اور کیا شمال و جنوب، ہر طرف قہر ڈھاتا چلا گیا۔ کروڑوں، کیا امیر اور کیا غریب، کیا گورا اور کیا کالا یہ جرثومہ سب ہی کے قدموں میں احتیاط اور خوف کی بیڑیاں ڈال گیا۔ کروڑوں اس کا شکار ہوئے اور لاکھوں اس کا نوالہ بنے۔ اس عالم میں دنیا کے تمام کاروبار ٹھنڈے ہوئے۔ گھروں میں چولہے بجھ گئے اور معدوں میں بھوک بھڑک اٹھی۔
گزشتہ برس بذریعہ انتخاب انجمن ترقی اردو کی میں معتمد اعزازی ہوئی تھی۔ یقین تھا کہ ہم جن کتابوں کو شایع کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، وہ شایع ہوں گی اور ان کی تقریب اجرا بھی ہو گی لیکن بہت سے منصوبے دل کے دل میں رہے۔"تلمیحات راشد" محمد مجیب کی "روسی ادب" کا نیا ایڈیشن علی عباس حسینی کے افسانوں کی "کلیات" شایع ہوئیں لیکن کورونا کی وجہ سے ان کی تقریب رونمائی نہ ہو سکی۔
اس کے بعد ہمارے بے بدل ادیب ڈاکٹر حسن منظر نے اب سے سالہا سال پہلے 2 ہندی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا تھا، ان کے پاکستان ایڈیشن کا اہتمام کیا گیا جس میں ملتان کے ڈاکٹر انوار احمد نے خصوصی دلچسپی لی۔ یہ دونوں کتابیں شایع ہو گئیں۔ میری خواہش تھی کہ ان کی تقریب اجراء 8 اکتوبر 2020کو ہو، اس لیے کہ 8اکتوبر منشی جی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات دونوں ہی تھے۔ لیکن کورونا کی ایسی دہشت پھیلی ہوئی تھی کہ 8 اکتوبر آئی اور گزر گئی اور اب 14 نومبر 2020 کو ان دونوں کتابوں کی تقریب اجرا ہوئی۔
اسے تقریب پذیرائی کا نام دیا گیا۔ اس میں ڈاکٹر حسن منظر موجود تھے اور ان کے ساتھ ہی ہمارے معروف صدا کار اور اداکار ضیا محی بھی آئے۔ انھوں نے منشی پریم چند کی ایک کہانی "بوڑھی کاکی" اپنے مخصوص انداز میں سنائی۔ انھیں سننے کے لیے لوگ مشتاق رہتے ہیں۔ اس روز بھی انھوں نے منشی پریم چند کی یہی کہانی سنا کر داد سمیٹی۔
اس روز اپنے مہمانان گرامی کا استقبال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ 40ء کی دہائی کا لاہور ہے، چھوٹی اینٹوں، بلند و بالا ستونوں، اونچی کھڑکیوں میں جڑے ہوئے شفاف شیشوں والا ایک وسیع کمرہ ہے۔ بہت سے لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کچھ کھڑے ہیں اور ان کے قدموں میں بیٹھا ہوا 7 برس کا ایک بچہ ہے جس کی شیروانی کے بٹن گلے تک بند ہیں۔ اس تصویر کا وہ بچہ آج 81 برس کا ہے اور ہمارے درمیان موجود ہے۔ زمانہ اسے جھک جھک کر سلام کرتا ہے۔ وہ لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ سے تربیت لیتا ہے۔
اسٹیج پر جولیس سیزر میں کام کرتا ہے۔ ٹی ای ایلیٹ کی کتاب Seven Pillars of Wisdom کے فلمی ورژن "لارنس آف عریبیہ" میں غلط کنویں سے پانی پینے کے جرم میں مارا جاتا ہے اور یہیں سے اس لڑکے کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جو بلندیوں کا سفر ہے۔ 47 برس بعد وطن واپس آتا ہے۔ پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کا ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ اب ناپا کا سربراہ ہے۔ ملکوں ملکوں گھومتا ہے۔ شعر اور نثر پڑھتا ہے تو اپنی آواز کے زیروبم سے لفظوں میں جان ڈال دیتا ہے۔ لوگ سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ ہماری انجمن کے صدر جناب واجد جواد کا کمال ہے کہ وہ ضیا محی الدین کو آج کی محفل میں کھینچ لائے ہیں اور اب کچھ ذکر اس شخص کا جس کی آج تقریب پذیرائی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں حسن منظر کے جنھوں نے ہندی کی دو اہم کتابوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس کے خزانے میں بیش بہا اضافہ کیا۔
یہ صاحب دیکھنے میں نحیف و نزار ہیں، لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوں تو کوئی ان کی طرف توجہ نہ دے، سر جھکائے ہوئے بھیڑ میں سے گزرتے چلے جائیں لیکن انھوں نے اپنی آنکھوں کا تیل جلایا ہے۔ تب ہی درجنوں افسانے اور بہترین ناول لکھے ہیں، ہندی سے وہ ترجمے کیے ہیں جو آج کی تقریب میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ وہ ہمارے ابتدائی منظر پر ادبی تاریخوں کے چاند کی طرح طلوع ہوئے اور پھر کون تھا جو ایسے تخلیقی وفور رکھنے والے کو ماہِ کامل بننے سے روک سکتا۔ وہ انسانوں کا مطالعہ سہج سہج کرتے ہیں اور پھر نوک قلم سے ان کی زندگی کی پرتیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔
وہ ہمارے افسانوی منظر نامے پر بعد میں نمودار ہوئے لیکن نو عمری سے لکھ رہے ہیں۔ ایک محفل میں ان کا افسانہ سن کر منٹو نے انھیں داد دی اور فیض صاحب نے ان کا افسانہ "رہائی" پڑھ کر تعریفی خط لکھا اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ 2000 کے آغاز میں سندھی کے معروف دانشور اور لکھاری جامی چانڈیو دلی گئے، قرۃ العین حیدر کے نیاز حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ جامی نے حیدر آباد کا نام لیا تو قرۃ العین نے بے ساختہ کیا "اچھا۔ حسن منظر کے شہر سے" حسن منظر کہتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا میرے لیے بڑا اعزاز تھا۔
حسن منظر جب ساری دنیا گھوم کر، ریٹائرمنٹ کے بعد حیدر آباد پہنچے تو انھوں نے کہا کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں پناہ گاہ میں آ گیا ہوں۔ انھوں نے سندھ کے دکھ سکھ لکھے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں سندھ کا سماج سانس لیتا ہے۔ دھنی بخش کے بیٹے پڑھ کر کون اسے بھلا سکتا ہے۔ چند مہینوں پہلے اکادمی ادبیات نے انھیں "جھجک" پر قومی ایوارڈ دیا۔
ان کا پسندیدہ ناول "انسان اے انسان" آؤٹ آف پرنٹ ہے۔ اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے سبب وہ یورپ، افریقا اور ایشیا کے مختلف ملکوں میں رہے۔ ہر بستی، ہر دیار کے انسان کو بیمار دیکھا۔ ان کے یہاں غضب کے موضوعات اور تکنیکی تنوع ہے، "حبس" جس کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح العاصفہ ہے۔ فلک نا انصاف پڑھیے تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ مغل تاریخ کا وہ باب جس پر قاضی عبدالستار اور کئی دوسروں نے لکھا لیکن حسن منظر نے اسے عجب انداز سے لکھا۔ ایسا انداز جو دل کے ٹکڑے کرتا ہے۔
حسن منظر ہمارے بڑے ادیب ہیں۔ ان کے بارے میں لکھتے جائیے، بات ختم نہیں ہو گی۔ آج انھیں اس بات کی داد دیجیے کہ انھوں نے ہندی سے کیا کمال ترجمہ کیا ہے۔ آج آنے والوں کی اور بہ طور خاص اپنے بزرگ کرم فرماؤں کی میں از حد شکر گزار ہوں۔ شائستہ زیدی صاحبہ اور بعض دوسرے بزرگ ادب دوستوں نے معذرت کی ان کا بھی شکریہ۔ (ر) جسٹس حاذق الخیری کی بہ طور خاص شکر گزار ہوں جو اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود تشریف لائے۔ فاطمہ حسن اور رخسانہ صبا کی آمد کا خصوصی شکریہ۔ فاطمہ عزیز دوست ہیں، میں آج یہاں ہوں تو ان ہی کا انتخاب ہوں جب کہ میرا کہنا تھا کہ یہاں کسی زیادہ اہل فرد کو ہونا چاہیے۔
منشی پریم چند ایک ایسے ادیب تھے جن کے دل میں کھوٹ، کپٹ، مذہبی تعصب اور ذات پات کی تفریق نام کی بیماریاں نہ تھیں۔ وہ جس سماج میں پیدا ہوئے تھے، وہ چھوت چھات کی بنا پر انسانوں کی عزت نفس کو تہس نہس کر دیتا تھا، غربت، بیروزگاری اور بیماری تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ منشی پریم چند ہمارے لوگوں کو اب نصاب میں شامل اکا دکا کہانیوں سے یاد رہتے ہیں جب کہ وہ ہمارے ادب کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔
پریم چند ایک انصاف پسند اور انسان دوست لکھنے والے تھے۔ آج جب ہر طرف تعصب اور نفرت کی آندھی چل رہی ہے، ان کی تحریروں کا پھر سے شایع ہونا اور ان پر گفتگو ہونا ایک نیک کام ہے۔ جس میں صدر انجمن واجد جواد اور مشیر مالیات عابد رضوی نے اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر یاسمین فاروقی نے بھی ان دونوں کتابوں کے بارے میں مختصر مگر جامع گفتگو کی۔ وہ خوش رہیں۔ برصغیر کے ادب دوستوں کو دیوالی کے موقع پر ہم ان کتابوں سے بہتر کیا تحفہ پیش کر سکتے ہیں۔