2020 میں دنیا ایک ایسی جگہ ہو گئی ہے کہ ہم نے کبھی ایسی دنیا کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ ہم نابرابری اور عدم مساوات کا غم مناتے تھے۔ گورے اور کالے کے درمیان جو فرق تھا اس پر گریہ کرتے تھے لیکن پھر ایسی انہونی ہوئی کہ ایک نظر نہ آنے والے جرثومے نے گورے کالے، برہمن اور غیر برہمن، سید اور غیر سید، امیر اور غریب کا فرق مٹا دیا۔ عوام بھی اس جرثومے کے سامنے بے بس ہیں اور امیر بھی تمام احتیاطوں کے باوجود زندگی ہار رہے ہیں۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ امریکی انتخابات جن کا نتیجہ آ جانے کے بعد جیتنے والے اور ہارنے والے سب ہی مطمئن ہو جاتے تھے، اس مرتبہ ذہنی طور پر ایک غیرمتوازن شخص نے انتخابات کے نتائج کو ایک مضحکہ بنا دیا۔ وہ دنیا جو خون میں نہائی ہوئی تھی اور جسکے لوگ توقع کر رہے تھے کہ ایک متوازن اور معتدل مزاج صدر دنیا میں امن کے لیے کوشش کریگا اور ان کی زندگی کچھ بہتر ہو گی، اس نے جاتے جاتے دنیا کو پہلے سے زیادہ مضطرب اور دہشت ناک کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
عراق، سوڈان، فلسطین، افغانستان اور دوسرے بہت سے علاقوں میں رہنے والے امن کے لیے ترستے ہیں۔ امن ان کے لیے ایک ایسی رات ہے جو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے شکستہ نہ ہو اور ایک ایسا دن ہے جب وہ سبزی کے ٹھیلے سے بچوں کے لیے تھوڑا سا آلو اور ٹماٹر خرید سکیں۔ پنساری کی دکان سے انھیں آٹا، چاول، تیل اور نمک میسر آ سکے۔ اپنے بچوں کی اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے۔ امن آج سے نہیں پہلے دن سے ان کی ضرورت رہا ہے۔ اس امن کے لیے وہ لاکھوں برس سے جنگلی جانوروں اور حشرات الارض سے لڑے ہیں۔ اس امن کے لیے انسان نے آگ دریافت کی تا کہ جنگلی جانوروں کے خونخوار جبڑوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس امن کے لیے اس نے بھاری قیمت ادا کی۔
ماسکو میں جب ایک شاندار تقریب میں فیضؔ صاحب کو لینن امن انعام دیا گیا تو انھوں نے کہا تھا کہ امن گیہوں کے کھیت، دلہن کا آنچل اور بچوں کے چہرے کی ہنسی ہے، تو انھوں نے کیا غلط کہا تھا۔ گیہوں کے کھیت لہلہاتے ہوں اور انھیں ٹینک روند نہ رہے ہوں۔ توپوں کی گولہ باری جلا کر خاکستر نہ کر رہی ہو تو ہر گھر کے باورچی خانے میں آٹے کا کنستر بھرا رہتا ہے اور ہر گھر میں تازہ روٹی کی خوشبو مہکتی ہے۔ سرحدوں پر گولیاں نہ چلتی ہوں یا شہر بمبار طیاروں کی بمباری سے محفوظ ہوں تو سہاگنیں بیوہ نہیں ہوتیں۔ ان کی عزتیں محفوظ ہوتی ہیں اور بچوں کی ہنسی سے بھی زیادہ دلنواز کوئی نغمہ ہو سکتا ہے۔ یہ ہنسی جنگ سے اور قبضے سے محفوظ گھروں، باغوں اور بازاروں ہی میں گونجتی ہے۔
امن کا مفہوم بس وہی جانتے ہیں جن سے اس وقت دنیا کشت و خون کے ایک عظیم بحران سے گزر رہی ہے۔ اس بحران کو دور سے دیکھنے والے ہوں یا اس میں زندگی کا عذاب سہنے والے دونوں کا ہی یہ کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ انسان بنیادی طور پر حیوانی جبلت رکھتا ہے۔ بظاہر یہ اتنی سادہ اور درست بات ہے کہ اس کی تردید کرنا آخری درجے کی کم فہمی محسوس ہوتی ہے لیکن اگر اس مسئلے پر گہرائی میں جا کر غور و خوض کیا جائے تب ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم معاملات کو بہت سادہ اور سطحی انداز میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
ان دنوں جہاں دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں سے جنگ کی خبریں آ رہی ہیں وہیں سری لنکا، سوڈان، ہندوستان، پاکستان اور دوسرے برسر پیکار علاقوں میں امن کا بھی چرچا ہے۔ یہ امن صرف جنگ زدہ علاقوں کی ہی نہیں ساری دنیا کی ضرورت ہے۔ ایک پرسکون اور پر امن دنیا سے بڑی راحت انسانوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہو سکتی۔ بیسویں صدی میں تیسری دنیا کے ان تمام ملکوں میں بڑی بڑی مزاحمتوں نے جنم لیا جو اپنے ہی آمروں سے پہلی دنیا کے جبرو استبداد سے عاجز آ چکے تھے۔ ان میں برصغیر، روس، چین، افریقہ اور ایشیا ہیں اور لاطینی امریکا کے متعدد ملک شامل ہیں۔ ان میں شروع سے آخر تک ایک کے سوا تمام مزاحتمی تحریکیں پرتشدد اور مسلح جدوجہد پر مبنی تھیں۔
عدم تشدد پر مبنی صرف مہاتما گاندھی اور خان عبدالغفار خان کی تحریک تھی۔ ورنہ لینن یا نیلسن منڈیلا ہوں، فلسطینی رہنما یاسر عرفات سب ہی نے مسلح مزاحمت کی۔ بیسویں صدی کے ان بڑے اور مقبول رہنمائوں میں سے صرف نیلسن منڈیلا تھے جو رفتہ رفتہ اس بات سے قائل ہوئے کہ تشدد مزید تشدد کو جنم دیتا ہے اور تشدد کا یہ دائرہ پہلے سے کچلے ہوئے پس ماندہ عوام کو غریب تر، پسماندہ تر اور مجبور تر کرتا چلا جاتا ہے اور آخر کار عدم تشدد کے ہتھیار سے انھوں نے جنوبی افریقہ کی بدترین نسل پرست اور ریاستی جبر کی انتہا کرنے والی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے اور عوامی خواہشات کے سامنے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔
یاسر عرفات نے 1974 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو تقریر کی تھی اس وقت وہ فلسطین کی مسلح مزاحمت کے رہنما تھے اپنی اس تاریخی تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں زیتون کی شاخ ہے۔ میں عالمی برادری سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے بندوق رکھنے پر مجبور کر دے اور میرے ہاتھ سے زیتون کی شاخ کو گرنے نہ دے۔ یاسر عرفات نے اپنی مسلح جدوجہد کی آنچ رفتہ رفتہ مدھم کی لیکن افسوس کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک اور اسرائیل نے ان کی درخواست پر کان نہ دھرا۔
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ فلسطین کی تحریک آزادی کی باگ ڈور امن کی اور مذاکرات کی بات کرنے والے یاسر عرفات کے ہاتھ سے نکل کر ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جو صرف اور صرف مسلح جدوجہد کی بات کرتے ہیں۔ جنھیں خود کش حملے کرتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کسی فوجی ٹھکانے یا قافلے کو نشانہ بنا رہے ہیں یا نہتے شہریوں اور بچوں کو۔ اس پس منظر میں آج کی دنیا کو دیکھئے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید نا اُمیدی ہمارا مقدر ہے۔ شاید انسان کے اندر صرف وحشی درندے غراتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے کے لیے بے تاب ہے۔
اس کے باوجود فلسفیوں، نفسیات دانوں، دانشوروں اور سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو تاریخی شواہد، نفسیاتی تحقیق و تفتیش، سیاسی تحریکوں اور مسلح مزاحمتوں کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ بیشتر انسان اپنی اصل میں امن پسند ہیں۔ وہ جنگ سے گریز چاہتے ہیں اور ایک پر سکون اور پر امن دنیا میں خوش امیدی کے ساتھ زندگی گزار نے کے خواہاں ہیں۔ علم البشریات کے حوالے سے اگر اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے کہ زیادہ اور کم متشدد سماج یا جنگ آمادہ اور امن پسند سماج کے درمیان کیا بنیادی فرق پایا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کی سماجی تربیت اور اس میں ان کے اندر یہ اصول راسخ کرنا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں اور عورتوں کا احترام کریں اور چھین جھپٹ کو اپنی زندگی کا رویہ بنانے سے گریز کریں۔
انسان میں امن پسندی کے رویوں کا سیاسی بنیادوں پر جائزہ لینے کے لیے اسپین کے مشہور شہر سیوائل میں جسے ہم اسپین کی اسلامی تاریخ میں اشبیلیہ کے نام سے جانتے ہیں، وہاں مختلف علوم کے ماہرین کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس کے اختتام پر 16 مئی 1986 کو ان دانشوروں اور علم البشریات کے ماہرین کی جانب سے یہ اعلان نامہ جاری کیا گیا کہ:
"یہ کہنا سائنسی طور پر نادرست ہے کہ ہم نے اپنے حیوانی اجداد سے جنگ کرنے کا رویہ ورثے میں پایا ہے … یہ کہنا سائنسی طور پر نادرست ہے کہ جنگ یا کوئی دوسرا پُرتشدد رجحان ہماری انسانی فطرت میں جینیاتی طور پر داخل کیا گیا ہے … یہ کہنا سائنسی طور پر نادرست ہے کہ انسانی ارتقا کے عمل میں رجحانات کی دیگر قسموں کے مقابلے میں جارحانہ رجحان کو زیادہ اختیار کیا گیا ہے … یہ کہنا سائنسی طور پر نادرست ہے کہ انسان ایک "پُرتشدد ذہن" کا مالک ہے… یہ کہنا سائنسی طور پر نادرست ہے کہ جنگ کا باعث جبلت، یا کوئی واحد تحریک ہے۔
آج کے عالمی حالات میں یہ باتیں بیشتر لوگوں کو دیوانے کا خواب محسوس ہوتی ہیں لیکن جب یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ جنگیں انسانوں کے ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں تو پھر اس متبادل کو بھی آزمانا ضروری ہے کہ امن کا آغاز بھی انسانوں کے ذہنوں میں ہوتا ہے۔
ہم امن کے آغاز کو انسانوں کے ذہنوں میں پرورش پاتے محسوس کرتے ہیں اور اسی لیے کورونا کے عذاب سے مل کر لڑتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ امن کا آغاز بھی ہمارے ذہنوں میں ہو۔ ہم صرف اس ویکسین کی انتظار نہ کریں جو ہمیں کورونا سے نجات دلائے، ہم امن کی ویکسین ایجاد کرنے کی بھی کوشش کریں۔ یہ امن ویکسین ہی ہمیں ان تمام عذابوں سے نجات دلائے گا جن میں آج ہم گرفتار ہیں۔