امریکاکے صدارتی انتخابات زیادہ دورنہیں ہیں، انتخابات کے نتائج یہ فیصلہ کردیں گے کہ امریکا کو نسل پرستی کی گرفت سے آزاد ہونا ہے یا اس کو ابھی اس راہ میں کئی اور مشکل مراحل سے گزرنا ہے۔ آنے والے انتخابات میں سیاہ اور سفید فام عورتوں کا اتحاد اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ امریکا میں سیاہ فام غلاموں بالخصوص عورتوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا، اس کا حساب بے باق اب کرنا امریکاکے لیے ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں جدید گائناکولوجی کے بانی ڈاکٹر جیمزماریون کا نام بار بار ذہن میں آتا ہے۔
جیمز امریکا کی جنوبی ریاست ساؤتھ کیرولینا میں پیدا ہوا تھا اوراپنے وقت کے مشہور جیفرسن میڈیکل کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ ریاست امریکا کے جنوب میں واقع ہے، یہ وہ علاقہ تھا جہاں غلامی اپنی بدترین شکل میں موجود تھی۔ برطانوی آبادکار اپنی نوآبادی میں غلاموں سے مفت کاشت کرایا کرتے تھے۔ جیمز نے امریکا کے اس جنوبی علاقے کے مال دار زمین مالکان کے غلاموں کے علاج معالجے کا کام شروع کیا، یہ وہ لوگ تھے جو اپنے غلاموں کو زندہ اور صحت مند رکھنا چاہتے تھے تاکہ ان سے کھیتوں میں مشقت لے سکیں۔ اس دوران جیمز نے گائناکولوجی کے شعبے میں سرجری کے تجربات کا سلسلہ شروع کیا۔
یہ 19 ویں صدی کا امریکا تھا جہاں لوگ اور ڈاکٹر دونوں عورتوں کے علاج میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے لہٰذا جیمز نے اپنے آلات جراحی کو آزمانے اورآپریشن کے تجربات کے لیے سیاہ فام غلام عورتوں کا انتخاب کیا۔ جیمز نے بغیربے ہوش کیے غلام عورتوں کے اذیت ناک آپریشن کیے۔ انھیں درد اور تکلیف سے بچانے کے لیے کوئی دوا نہیں دی جاتی تھی۔
اس کے بے رحمانہ تجربوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک 17سالہ سیاہ فام غلام لڑکی انارکا کے 30 آپریشن کیے۔ یہ نسل پرست ڈاکٹر اتنا سفاک تھا کہ اس نے نہ صرف سیاہ فام عورتوں بلکہ ان کے ننھے بچوں پر سرجری کے ایسے تکلیف دہ عمل کیے جنھیں بیان کرناممکن نہیں ہے۔ جب وہ سیاہ فام غلام عورتوں کے آپریشن کرکے اپنے کام میں ماہر ہوگیا تو اس نے سفید فام عورتوں کے آپریشن شروع کیے لیکن انھیں تکلیف و اذیت سے بچانے کے لیے انتھیسیا دی جاتی۔
آج بھی اس ڈاکٹرکے کئی حامی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اس نے غلام عورتوں کی رضامندی حاصل کی تھی، انھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ غلام صرف ہاں کہہ سکتا ہے، "نہیں " کہنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی۔ ان نسل پرست لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت کے قانون کے تحت جیمز یہ تجربات کرسکتا تھا۔ تاہم، مریض کو بے ہوش کیے بغیرجراحت کے آلات کا تجربہ کرنے کا، اگراس وقت کے امریکا میں کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود تھا تو یقیناً یہ وہ امریکا تھا جس پر آج کے امریکیوں کو فخرکرنے کی بجائے شرمندہ ہونا چاہیے۔
اس سے بڑا المیہ اورکیا ہوگا کہ جیمزکا مجسمہ نیویارک سٹی کے مشہور سینٹرل پارک میں لگایا گیا تھا جہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے تھے اور اسے ایک رحم دل اور انسان دوست ڈاکٹر سمجھ کر خراج عقیدت پیش کیا کرتے تھے۔ تاہم، شدید عوامی دباؤکے باعث یہ مجسمہ اب ہٹا دیا گیا ہے اور وہاں ایک تختی آویزاں کردی گئی ہے، جس پر ان تین سیاہ فام غلام عورتوں کے نام درج ہیں جن پر اس نسل پرست گائنا کولوجسٹ نے سرجری کے اذیت ناک تجربات کیے تھے۔
امریکا میں 400 سال قبل افریقا کے لوگوں کو پکڑ کر لانے اور انھیں غلام بنا کر کھیتوں میں مشقت لینے کا آغاز ہوا تھا۔ اس دوران لاکھوں صحت مند اور توانا افریقی لوگوں کو جانوروں کی طرح پکڑا گیا اور انھیں بحری جہازوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر امریکا لایا گیا۔ ان بدنصیب لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس وقت کا افریقا اپنے صحت مند لوگوں سے تقریباً خالی ہوگیا تھا۔
امریکا میں لائے گئے سیاہ فام غلاموں کی کم و بیش نصف تعداد عورتوں پر مشتمل تھی۔ ان عورتوں کے ساتھ جو بہیمانہ رویہ اختیارکیا جاتا تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال اوپر بیان کی گئی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ افریقی عورتوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا جاتا رہا ہوگا۔ سیاہ فام غلام عورتوں کو سیاہ فام غلام مردوں کی طرح کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ سیاہ فام مردوں کے مقابلے میں ان کا کہیں زیادہ استحصال کیا جاتا تھا۔ ان سے جسمانی مشقت تو لی ہی جاتی تھی لیکن اس کے ساتھ انھیں جنسی ہوس، درندگی اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔
سفید فام مرد، ان سے جبراً جنسی عمل کرنے میں بالکل آزاد تھے۔ سیاہ فام عورت چونکہ غلام اور اپنے مالک کی ملکیت ہوا کرتی تھی لہٰذا اس کی اپنی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور اسے صرف ایک "شے" تصورکیا جاتا تھا۔ ان عورتوں کو باقاعدہ شادی کرکے سماجی زندگی گزارنے کا بھی حق نہیں تھا کیونکہ مضبوط خاندانی نظام سیاہ فام غلاموں کی آزادانہ خریدو فروخت میں رکاوٹ ثابت ہوسکتا تھا۔ انھیں ایک ساتھ رہنے اور بچے پیدا کرنے کی اجازت تھی جس کا مقصد غلاموں کی تعداد میں اضافہ تھا جو غلام مالکان کے لیے منفعت بخش کام تھا۔ لیکن یہ سہولت دیتے وقت یہ خیال رکھا جاتاتھا کہ اتنے زیادہ بچے پیدا نہ ہوں جن سے سیاہ فاموں کی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے۔
نسل پرستی ایک مخصوص ذہنی رویے اور رجحان کا نام ہے جسے ختم کرنے کی بھرپورکوشش کی جائے تب بھی اس کے اثرات ختم ہونے میں وقت گزرجاتا ہے۔ امریکا کی جنوبی ریاستوں میں غلامی قانونی تھی لہٰذا وہاں کے لوگوں میں نسل پرستی کا گہرا اثر آج بھی نظر آتا ہے۔ سفید فام مردوں کی طرح سفید فام عورتیں بھی نسل پرستی میں پوری طرح مبتلا تھیں۔ مشہور امریکی صدر جاج واشنگٹن کے پاس 18 جب کہ اس کی بیوی کے پاس اپنے شوہر سے کہیں زیادہ یعنی84 سیاہ فام غلام تھے۔
اس دورکے امریکا میں کل غلام مالکان میں 40 فیصد سفید فام عورتیں تھیں جو غلاموں کی خریدو فروخت سمیت ہر متعلقہ سرگرمی میں پوری طرح شامل تھیں۔ انھیں بچپن سے ہی یہ تربیت ملتی تھی، والدین بچوں سے خوش ہوکر انھیں تحفے میں غلام دیا کرتے تھے۔ سفید فام عورتوں کو شادیوں میں غلام مرد یا سیاہ فام لڑکیاں جہیزکے طور پر دی جاتی تھیں۔ ان غلاموں کی تعداد سے خاندان کی امارت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔
اپنے آقا کی حکم عدولی پر سیاہ فام غلام عورتوں کو اکثر برہنہ کرکے ان کے بچوں اور برادری کے لوگوں کے سامنے کوڑے مارے جاتے تھے تاکہ ان کی زیادہ سے زیادہ تذلیل کی جاسکے۔ غلامی کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی تھا کہ غلاموں کو دہشت زدہ کیا جاتا رہے، انھیں کڑی سے کڑی سزائیں دی جاتی رہیں تاکہ ان کے ذہنوں میں اپنے آقاؤں کا مستقل خوف بیٹھ جائے۔
یہی وجہ تھی کہ سفید فام عورتیں بھی اپنے غلاموں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔ گھر میں کام کرنے والی غلام لڑکیوں کوکبھی پیٹ بھرکرکھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ ایک مالکن ہر روز اپنے بستر پر تھوڑی سے مٹھائی رکھ دیا کرتی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس نے دیکھا کہ بستر پر رکھی مٹھائی کا ٹکڑا غائب تھا۔ اس عورت نے غلام لڑکی کو بلایا اور اسے جھولنے والی کرسی پر رسیوں سے باندھ دیا اور اپنی بیٹی کو غلام لڑکی کے جسم پر کوڑے برسانے کی ہدایت کی۔ لڑکی کا سر دیوار سے ٹکراتا رہا اور وہ اذیت سے روتی اور چیختی رہی۔
جب سزا ختم ہوئی تو اس کا جبڑا ٹوٹ گیا تھا اور اس کا چہرہ بگڑچکا تھا۔ یہ بچی جب جوان ہوئی تو وہ دانتوں سے محروم تھی۔ ایک دن مالکن نے وہ غلام لڑکی اپنے رشتہ دارکے حوالے کردی کیونکہ وہ اب اس کا بدنما چہرہ دیکھنے کے لیے مزید تیار نہیں تھی۔ سفید فام خواتین جن غلاموں کو اپنی ملکیت میں رکھتیں ان کی غالب تعداد شادی شدہ ہوا کرتی تھی کیونکہ غیر شادی شدہ سفید فام عورت کے غلام، شادی کے بعد ان کے شوہروں کی ملکیت میں آجایا کرتے تھے۔ خاندان میں جو عورت غلاموں کی مالک ہوتی صرف وہی ان پر حکم چلاسکتی تھی، خاندان کے دوسرے افراد اس ’حق، سے محروم تھے۔
(جاری ہے)