بار بار کہا جا رہا ہے کہ سنبھل کر لکھو، پہلے کسی پر بھینس چوری کا پرچا کٹتا تھا اب کرائے دار سے کرایہ نامہ نہ ہونے پر آدھی رات کو دروازہ توڑ کر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لکھنا ایک سزا ہے، بولنا اس سے بڑا گناہ، فیضؔ نے کہا تھا۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول، زباں اب تک تیری ہے۔
کیسے معصوم تھے، کیا نہیں جانتے تھے کہ گئے زمانوں میں لکھنے والوں اور لکیریں کھینچنے والوں، ان میں رنگ بھرنے والوں کی انگلیاں کتر دی جاتی تھیں، بولنے والوں، تان اڑانے والوں کی زباں گدی سے کھینچ لی جاتی تھی، نہیں معلوم کہ گردن کی پشت سے آنکڑے سے زبان کھینچ لینے کا نسخہ کس نے ایجاد کیا۔
مجھے تو اتنی سی بات یاد ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے صرف ایک سو ساٹھ برس بعد ایک چینی سائی لیون نے کاغذ ایجاد کیا اور اسے نہایت احترام سے اپنے شہنشاہ کے حضور پیش کیا، انعام و اکرام سے نوازا گیا، کاغذ کا استعمال شروع ہوا اور اس کو بنانے کا نسخہ انتہائی صیغہ راز میں رکھا گیا۔ لیکن جیسا کہ شہنشاہوں کا وتیرہ ہوتا ہے، چند ہی برس بعد کسی بات پر شہنشاہ سائی لیون سے ناراض ہوا اور بھرے دربار میں اسے ذلیل کردیا۔ وہ باعزت شخص دربار سے گھر پہنچا، غسل کیا، قیمتی لباس زیب تن کیا اور سریع الاثر زہر کا گھونٹ پی لیا۔ اس زمانے کے فہم و فراست والے اپنے ساتھ زہر رکھتے تھے تا کہ ذلت کا سلسلہ دراز نہ ہو۔ چین سے کاغذ کی تیاری کا نسخہ صدیوں بعد اس وقت دنیا کو معلوم ہوا جب کچھ چینی، عرب فاتحین کے ہاتھ لگے اور مجبور کیے گئے کہ عربوں کو اس کی تیاری سے آگاہ کیا جائے۔
سائی لیون کا قصہ تمام ہوا لیکن انسان کے مقدر میں ذلت و رسوائی لکھی تھی۔ اسی لیے جرمنی میں بھائی گوٹن برگ پیدا ہوگئے۔ ان سے پہلے بھی چینی لکڑی کے ٹھپوں سے کتابیں چھاپتے تھے۔ لیکن ان کا چھاپنا مشکل تھا۔ گٹن برگ نے متحرک چھاپہ خانہ ایجاد کر لیا اوردنیا میں ایک ایسا ذہنی انقلاب برپا ہوگیا جس کی لہریں پھیلتی چلی گئیں اور آج دنیا میں ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں اخبار، رسالے اور کتابیں شایع ہو رہی ہیں۔ حکمران اپنے خلاف چھپنے والے خیالات کو روکنے، تھامنے کی کوشش کرتے ہیں، تیسری دنیا میں ان کی سنسر شپ کامیاب رہتی ہے۔ لیکن مغربی دنیا ان پابندیوں سے بچ نکلنے میں 90 تا 95 فیصد کامیاب رہتی ہے۔
سنسر شپ اور آزاد خیالات کی عوام تک رسائی کے معاملات جن مرحلوں سے گزرے ہیں، ان کی تفصیلات آج ہمارے لیے ناقابل یقین ہیں۔ یہ پندرہویں صدی تھی جب گٹن برگ کا ایجاد کردہ چھاپہ خانہ ملکوں ملکوں پھیلا۔ پرتگیزی اسے ہمارے یہاں بھی لے کر آئے اور ہمارے شہنشاہ کے حضور پیش کیا۔ ان کی نگاہوں میں مغل اور ایرانی خطاط کی دل کش اور دل ربا تحریریں بسی ہوئی تھیں۔ انھیں بھلا ٹائپ کے بھدے لفظ کیوں بھاتے۔ انھوں نے اسے کسی گودام میں ڈلوا دیا جہاں وہ زنگ کھاتا رہا۔ ہم ہندوستانی گٹن برگ کی اس ایجاد سے محروم رہے۔ اور اسی لیے اب تک دنیا کے متعدد ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔
ستر بہتر برس سے "غداری" کا لفظ ہمارے حکمرانوں کو بہت محبوب رہا ہے۔ انھیں ہر اختلافی بات اور اختلافی رائے سے غداری کی بو آتی ہے۔ کبھی انھیں سزا دینے کے لیے پنڈی سازش کیس تیار ہوتا ہے، کبھی حسن ناصر کی ہڈیاں شاہی قلعہ لاہور میں توڑی جاتی ہیں۔ کبھی نذیر عباسی اور دوسرے متعدد وہ نوجوان سرکار والا تبار کی سختیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جو اپنے لوگوں کے لیے بہتر سماج کے خواب دیکھتے تھے۔ ہماری مختلف آمرانہ حکومتوں میں غدار بنانے کی فیکٹریاں شب و روز کام کرتی رہیں۔ سابق مشرقی پاکستان میں جس نے اپنے حق کی بات کی وہ "غدار" ٹھہرا، یہی احوال سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کا رہا۔ شیخ مجیب الرحمان کال کوٹھری میں اپنی زندگی کے دل گنتے تھے۔ لیکن آخرکار بنگلہ دیش کے محترم لیڈر کی حیثیت سے واپس گئے۔ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان میں اسلامی سربراہان مملکت کی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
غداروں کی ہمارے یہاں ایک لمبی فہرست رہی ہے، باچا خان، جی ایم سید، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ خان مینگل، سردار بگٹی، ایم آرڈی تحریک میں گرفتار ہونے اور سزا سہنے والے متعدد سیاسی رہنما اور کارکن بیگم نصرت بھٹو، بیگم ولی خان، بینظیر بھٹو، نام زیادہ ہیں اور جگہ کم۔
ان دنوں ٹیلی ویژن چینل ہوں یا اخبارات ہر جگہ لکھنے والے اور بولنے والے زیر بحث آرہے ہیں۔ وہ یہ بات اصرار سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری بے ضرر تحریروں سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ بات تو نہیں کہی جا سکتی کہ ان کی "معصومانہ" تحریروں سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس موقع پر یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ ساری خطا جرمن نژاد بھائی گٹن برگ کی ہے۔ نہ انھوں نے متحرک چھاپہ خانہ ایجاد کیا ہوتا، نہ لکھنے والوں پر یہ افتاد پڑتی۔
سترہویں صدی میں سنسر شپ کا یہ عالم تھا کہ صرف لکھنے والے ہی نہیں، ان کی تحریروں کو شایع کرنے والے بھی "غدار" ٹھہرتے تھے اور ایک عذاب مسلسل میں گرفتار تھے۔ ان ہی میں سے ایک برطانوی شہری جون ٹوین تھا۔ پیشے کے اعتبا رسے پبلشر۔ اس نے ایک نامعلوم مصنف کی لکھی ہوئی کتاب A Treatise of Execution of Justice شایع کردی۔ اس کے کچھ دوستوں کا کہنا تھا کہ اس نے کتاب کی عبارت کو توجہ سے نہیں پڑھا تھا۔ حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن اس کتاب کی تحریر نے برطانوی بادشاہ اور اس کے مشیروں کو بہت برافروختہ کیا۔ وہ بادشاہ سے غداری کا مرتکب ٹھہرا، گرفتار ہوا، اس پر مقدمہ چلا۔ بادشاہ وقت ہو یا حکمران کسی کے لیے بھی "ملزم" کو "مجرم" ٹھہرانے میں کتنی دیر لگتی ہے۔
سو جون ٹوین بھی مجرم ٹھہرا۔ اس سے کہا گیا کہ وہ کتاب کو تحریر کرنے والے فسادی کا نام بتا دے لیکن صاحبو کیا جری اور جی دار تھا اس نے مصنف کا نام بتانے سے آخری وقت تک انکار کیا۔ چنانچہ اسے موت کی سزا سنا دی گئی اور آخر کار آج سے 355 برس پہلے اسے ایک ایسے گناہ کی سزا دی گئی جس کا اس نے ارتکاب نہیں کیا تھا۔ خیال آتا ہے کہ اس کتاب کے اصل مصنف نے یہ ہمت کیوں نہ دکھائی کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوجاتا اور اعتراف کرتا کہ یہ شخص تو محض اس کی تحریر کو چھاپنے کا مرتکب ہوا ہے، اصل مصنف تو وہ ہے۔ اس گمنام شخص نے یہ ہمت نہیں کی اور تاریخ میں جون ٹوئن ایک "شہید" ٹھہرا۔ دیکھا جائے تو وہ چھاپہ خانہ کی راہ میں جان دینے والا پہلا شخص ہے۔
تاریخ ہمیں اس مقدمے کی حرف بہ حرف روداد بھی سناتی ہے جس میں پبلشر جون ٹوئن کے علاوہ کتاب کو فروخت کرنے والے، اس کی جزبندی کرنے والے اور اس کی ٹائپ سٹنگ کرنے والے اور مشین مین ہی صف اول کے "غدار" ٹہرائے گئے تھے۔ ان لوگوں نے بادشاہ سلامت کی ہلاکت کی ترغیب دی تھی۔ عدالت میں وہ پیرا گراف بھی پڑھ کر سنائے گئے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ سپریم مجسٹریٹ (اپنے فیصلوں کے لیے) عوام کو جواب دہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ لوگوں کو حکومتی معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لینے چاہئیں۔ تحریر میں لوگوں سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ بادشاہ سلامت اور ان کے خاندان کے خلاف ہتھیار اٹھالیں۔ لوگوں سے شہر اورملک میں انقلاب برپا کرنے کے لیے کہا گیا تھا اور یہ کہ عوام کو بادشاہ سے وفاداری ترک کرکے اسے قتل کردینا چاہیے۔
جون ٹوین نے جان دے دی مگر اصل مصنف کا نام اس کے لبوں پر نہ آیا۔ اس کے کچھ دوستوں کا کہنا تھا کہ اس نے تحریر کو سرسری طور پر دیکھا تھا اس لیے ایک نامعلوم مصنف کی تحریر کی پاداش میں اس کی جان لے لینے کا فیصلہ بہت سخت ہے۔ جب کہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شواہد اس کے برعکس ہیں کتاب کے صفحوں پر ٹوین کے ہاتھوں سے بنائی گئی اغلاط موجود ہیں۔ اس کے ادارے میں کام کرنے والے ملازمین اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے کتاب کی پروف ریڈنگ کی تھی اور پھر اسے چھاپنے کے بعد مختلف شہروں میں پھیلایا تھا۔ ان تمام شواہد کی موجودگی میں وہ بادشاہ سلامت کے خلاف غداری کا مرتکب ٹھہرتا ہے چنانچہ اسے سزائے موت ہی دی جانی چاہیے۔
جون ٹوین کو مفسد، شرپسند، شیطان کا چیلا ٹھہرایا گیا۔ ٹوین نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ وہ "معصوم" ہے۔ پھر اس نے ججوں سے اپیل کی کہ وہ ایک غریب آدمی ہے، اس کے تین بچے ہیں اور اسے وکیل فراہم کیا جائے جو اس کی طرف سے مقدمہ لڑ سکے۔ لیکن ججوں نے اس کی یہ درخواست رد کردی اور کہا کہ وہ خود اس کے وکیل ہیں۔ اسے کوئی وکیل فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے انصاف کیا جارہا ہے۔ جلاد کو حکم دیا گیا، جون ٹوین نے اپنی مغفرت کے لیے دعا کی اور پھر جلاد کو اشارہ کیا کہ وہ حکم کی تعمیل کرے، جلاد آگے آیا، اس نے چمکتی ہوئی تلوار سے اس کا سر اڑا دیا۔ اس شہید وفا کا سر شہر میں عبرت کے لیے لٹکا دیا گیا اور بدن کے چار ٹکڑے کرکے شہر کے چار دروازوںپر کھ دیے گئے۔
یہ ہے اس شخص کا قصہ جسے ایک گم نام مصنف کی کتاب چھاپنے کے جرم میں سزا دی گئی۔ کیا خیال ہے آپ کا اصل غلطی بھائی گٹن برگ کی نہیںتھی۔