ہمارا یہ ایک عمومی رویہ ہے کہ ہم بڑے عہدوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہاں یہ عرض کرتی چلوں کہ بزنجو صاحب 45 سال تک مکران کے گورنر رہنے والے کے پوتے تھے، باپ کی ناوقت موت کے سبب ان کی ریاست کورٹ آف وارڈز میں گئی، انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کے اصرار پر غیرمنقسم برصغیر میں علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔
وہ ایک وسیع النظر اور روشن فکر انسان تھے اور انسانوں کو رنگ، نسل، علاقے، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر منقسم کرکے سیاست کرنے کے قائل نہ تھے۔ میر غوث بخش بزنجو نے اپنی سیاست کا آغاز 1938سے کیا، برطانوی استعمار سے لڑنا کچھ آسان کام نہ تھا، اس راستے میں جیل کی صعوبتیں تھیں اور زندگی کی روزمرہ آسائشوں سے محرومی ان کا مقدر بنی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزرا۔ جیل جانے کے حوالے سے بزنجو صاحب نے بعض دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
"1940میں (بلوچستان کی) ریاستی حکومت نے ہمیں گرفتار کیا اور ریاستی جیلوں میں رکھا۔ ظاہر ہے ریاستی جیل عام جیلوں سے مختلف ہوتی ہے، مشکلات زیادہ ہوتی ہیں، چھ مہینے ہم قید میں رہے مگر اذیت کے لحاظ سے وہ ایک بھیانک عرصہ ثابت ہوا۔ ظاہر ہے پہلی دفعہ جیل جاکر انسان آزادیوں سے محروم ہو جاتا ہے اور مختصر دائرے میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے۔ اس سے انسان کی طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے، کچھ چڑچڑاپن بھی آجاتا ہے۔
اس طرح کے عام اثرات ہم پر بھی پڑے لیکن انسانی فطرت کے مطابق ہم نے بھی اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا، اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس لیے جیل جانا کوئی مشکل نہیں لگتا تھا۔ ظاہر ہے تکلیف دہ تو ضرور ہوتا ہے حالانکہ بعد میں جب انگریز سرکارکی جیلوں میں گئے تو وہاں کا نظام ریاستی جیلوں کی نسبت بہتر تھا مگر جیل تو جیل ہے، اصل جیل تو ذہنی ہوتی ہے۔ جسمانی طور پر آدمی اپنے کو ایڈجسٹ کرلیتا ہے مگر ذہنی طور پر بہت زیادہ مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ "
اس قید وبند نے بزنجو صاحب کے سیاسی شعور اور استقامت کو صیقل کیا اور وہ آزادی کے بعد پاکستانی سیاست کے افق پر ایک وسیع النظر اور روشن فکر سیاستدان کے طور پر ابھرے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان کی حقیقی آزادی اسی وقت ممکن ہے جب یہاں کی سیاست میں مغربی ملکوں کی دخل اندازی نہ ہو اور پاکستان کے مفادات کو حکمرانوں کے ذاتی مفادات پر اولیت دی جائے۔
انھیں بھی دوسرے بلوچ سیاستدانوں کی طرح پاکستان سے شکایات تھیں۔ وہ دو قومی نظریے کو تسلیم نہیں کرتے تھے، اس کے باوجود پاکستان جب وجود میں آگیا تو مرکزی حکومت کی زیادتیوں کے باوجود انھوں نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی اور اس کی خوشحالی کے لیے کام کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی منتخب حکومت برطرف کی، تب بھی انھوں نے پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم نہیں چلائی۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستانی آئین کے مرتب کرنے والوں اور اسے متفقہ طور پر منظورکرانے والوں میں سے تھے۔
اتفاق اور مفاہمت کی اس سیاست کے صلے میں ان پر، عطاء اللہ مینگل، ولی خان اور دوسرے رہنماؤں پر "غداری" کا مقدمہ بنایا گیا۔ انھوں نے برٹش راج اور پاکستانی حکومتوں کی عنایتوں سے اپنی زندگی کا چوتھائی حصہ جیل میں گزارا۔ ریاستی ذرایع ابلاغ کے ذریعے اور سرکاری اشتہارات پر پلنے والے اخبارات کے صفحوں پر انھیں "تخریب کار، غدار اور وطن فروش" ثابت کیا گیا۔ بلوچستان کے نہتے اور بے گناہ شہریوں پر بمباری کی گئی۔ بہت سے بلوچ سردار ملک چھوڑ گئے لیکن میر غوث بخش بزنجو پاکستان میں رہے اور آخری سانس تک مختلف سیاسی جماعتوں اورگروہوں کو جوڑکر پاکستان میں بہتر تبدیلیوں کی کوشش کرتے رہے۔ وہ مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے سیاست کے اس حد تک قائل تھے کہ بہت سے لوگ آج بھی انھیں "بابائے مذاکرات" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
مرحوم غوث بخش بزنجو کا ایمان تھا کہ جمہوریت کا استحکام جمہوری قوتوں کے اتحاد میں مضمر ہے۔ ہمارے ملک کی مقبول سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی عام انتخابات کے انعقاد کے بعد یہ فرض کرلیتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہوچکی ہے جب کہ جمہوری عمل کی بحالی اور جمہوریت کے استحکام کی طرف یہ محض پہلا قدم ہوتا ہے۔ اصل امتحان جمہوری جدوجہد کے ثمرات کو بچانا اور مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جمہوری قوتیں اس امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اسی نفاق کی بناء پر غوث بخش بزنجو تمام جمہوری قوتوں سے آخری سانس تک یہی کہتے رہے کہ انھیں پاکستان میں فوجی آمریتوں کے خلاف اور صرف جمہوریت کی بحالی کے لیے ہی جدوجہد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے بعد بھی آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خود مختاری اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی متحد اور منظم رہنا چاہیے، تب ہی پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال ہوسکے گی۔
بلوچستان کی حالیہ تاریخ میں غوث بخش بزنجو مرحوم سب سے بڑا نام ہیں۔ بلوچ نوجوان ان کی پرستش کی حد تک عزت اور محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے باہمی مفاہمت کی جو پالیسی وضع کی تھی آج بھی بلوچ قوم پرستوں کی بڑی تعداد اسی پر کار بند ہے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئے تھے جہاں آج بھی قبائلی روایات رائج ہیں۔
ان روایات سے آگاہ ہونے کے باوجود بزنجو صاحب یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قبائلی بنیادوں پر جنگ کا زمانہ گزر چکا۔ اب بلوچوں کے حقوق کی لڑائی سیاسی میدان میں لڑی جائے گی۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے بلوچستان کے ایک دانشور طاہر بزنجو نے لکھا کہ " بلوچ جیسی بے پناہ وسائل اور جغرافیائی اعتبار سے پُر کشش محل وقوع رکھنے والی قوم کو ایسے سیاست دانوں کی ضرورت ہے جو سرتا پا مکمل طور پر سیاست کار ہوں اور جو نہ صرف وسیع النظری کے ہتھیار سے مسلح ہوں بلکہ اُن کے دل ودماغ پر عقل و دانش کی بالادستی قائم ہو اورجو سیاست پر اپنی ذاتی خواہشات اور جذبات کو مسلط کرنے کے بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں اپنے فوری اور طویل المعیاد درست سیاسی ترجیحات کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
مختصر یہ کہ اپنی درست سیاسی ذمے داریوں کا تعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بلوچستان کی معیشت اور اس کے بدلتے ہوئے سماجی اور زرعی ڈھانچے اور فروغ حاصل کرنے والے طبقات کی شکل وصورت اور اپنی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے خوشبو دار اور بد بودار واقعات اور المیوں کا اس طرح باریک بینی سے بغور تجزیہ اور مشاہدہ کریں جس طرح کہ ایک فطرت پسند کیڑے مکوڑوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتا ہے۔
اِسی طرح ہمیں اسلام آباد کے سامراج نواز اور جمہوریت دشمن حکمرانوں اور اسلام آباد کی فضاؤں سے پرواز کرنے والے فرشتوں اور ہر صوبے میں اُن کے منظور نظر اقتدار پرست سیاست دانوں اور دانشور حضرات کی حرکات و سکنات اور سب سے بڑھ کر علاقائی اور بین الاقوامی سیاست و تعلقات میں رونما ہونے والے اُتار چڑھاؤ اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات اور ان کے درمیان باہمی کشمکش اور تضادات کا بخوبی ادراک کرنا چاہیے۔ سیاست میں چونکہ فزکس اور کیمسٹری کی طرح فارمولے نہیں ہوتے لیکن اس قسم کی تحقیق اور جستجو درست سیاسی حکمت عملی اور درست سیاسی ترجیحات کا تعین کرنے میں زبردست معاون و مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔ "
بلوچ قوم پرست بزنجو صاحب کو ہر مرحلے پر یاد کرتے ہیں اور خراج عقیدت ادا کرتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ بزنجو صاحب کی شخصیت اور ان کے سیاسی اصولوں کو نظر میں رکھتے ہوئے سیاست کرنا اور موجودہ ملکی اور عالمی تناظر میں بلوچ عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی بلوچستان کی خدمت کرنا اور بزنجو صاحب کے نظریات کی تحسین کرناہے۔
وہ ان کے بیٹے حاصل بزنجو سے بھی گہری رفاقت رکھتے ہیں۔ حاصل بزنجو نے اوائل عمر سے جمہوری جدوجہد میں حصہ ڈالا، قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، حاصل بزنجو اپنے بے مثال باپ کے نقش قدم پر چلے۔ وہ میاں نواز شریف کے گہرے ساتھی اور لوگوں کے حقوق کی جدوجہدکرتے رہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حاصل موت و زیست کی کشمش میں گرفتار تھے، وہ سینیٹ کی چیئر پرسن شپ کے انتخابات کے لیے کھڑے ہوئے، اس موقع پربلوچستان کو اس کے جائز جمہوری، آئینی اور قانونی حقوق دینا تو دور کی بات ہے جمہوریت کے دعویداروں نے مرحوم بزنجو صاحب کے بیٹے حاصل بزنجو کو شرم ناک انداز سے سینیٹ کی سربراہی سے محروم کیا۔ حاصل بزنجوکی جمہوریت کے لیے کاوشیں اور قربانیاں ہم سب کو یاد ہیں۔
حاصل کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا کہ انھیں زیادہ ووٹ رکھنے کے باوجود ہرا دیا جائے گا۔ ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ آپ نے حاصل بزنجو سے اس کا حق چھین لیا اور دوسروں کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں۔ واقعی آپ سے زیادہ کس پر یہ بات سجتی ہے، لیکن ایسی حق تلفی کی قیمت تو آخر ادا کرنی پڑتی ہے اور وہ وقت جلد ہی آجائے گا۔