Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bata Zaib Un Nisa Makhfi (2)

Bata Zaib Un Nisa Makhfi (2)

شہزادی زیب النساء باپ کے ساتھ ایک بار پھر عازم دکن ہوئی۔ 1652 سے 1657کا بیشتر عرصہ اس نے اپنے باپ کے ساتھ دکن میں گزرا۔

1657 میں شہزادی زیب النساء کو اس وقت تک کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب اس کی ماں دل رس بانو بیگم نے ستمبر 1657 میں انتقال کیا اور اپنی آخری نشانی شہزادہ اکبر سلطان کو دنیا میں چھوڑ گئی۔ زیب النساء کی عمر اس وقت صرف 19 برس تھی لیکن اس نے اپنے یسیر بھائی کو یوں سینے سے لگایا جیسے وہ اس کی اپنی اولاد ہو۔ ماں سے جدائی کا صدمہ اپنی جگہ تھا لیکن اس وقت زیب النساء کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ یہ 1657 کا سال ہے جس کا تاریک سایہ زندگی کی آخری سانس تک اس کے وجود پرپڑتا رہے گا۔

1657 میں ہی شاہ جہاں کی موت کی جھوٹی خبر کے ساتھ تختِ طائوس پر قبضے کی وہ خونی جنگ شرو ع ہوئی جس میں آخرکار اورنگزیب نے فتح پائی اور مئی 1658 میں وہ ہندوستان کے تخت پر متمکن ہوا۔ یہ عرصہ زیب النساء نے دولت آباد میں مضطرب اور ملول کیفیت میں گزارا۔ وہ اپنے باپ کی جان کی خیر مناتی رہی لیکن اسے اپنے تینوں چچا بھی عزیز تھے۔ دولت آباد میں زیب النساء کو پل پل کی خبر ملتی رہی۔

باپ بادشاہ ہوا تو اسے خوشی ہوئی لیکن یہ خبر اس کے لیے اندوہناک تھی کہ اس کا مہربان اور محترم دادا شاہ جہاں آگرہ کے ایک محل میں قید ہوا۔ اس کی ماں جیسی مہربان پھوپھی شہزادی جہاں آرا اپنے وظیفوں اور جاگیروں سے محروم کی گئی اور چہیتے باپ کے ساتھ زندانی ہوئی۔ اس کے وہ خونی رشتے جنھوں نے جاں نشینی کی جنگ میں شہزادہ داراشکوہ کا ساتھ دیا تھا وہ سب معتوب ہوئے۔

بادشاہ اورنگزیب نے اپنے بچوں کو دولت آباد سے دلی طلب کیا کہ وہ بھی اپنے باپ کے جشن فتح میں شامل ہوں۔ زیب النساء اپنے شیر خوار بھائی شہزادہ اکبر سلطان کو سینے سے لگائے ہوئے مارچ 1659 میں دلی میں داخل ہوئی۔ باپ نے اسے "پادشاہ بیگم" کا خطاب دیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب وہ مغل سلطنت کی خاتونِ اول ہے۔ اس سے پہلے یہ منصب اس کی پھوپھی شہزادی جہاں آرا کے پاس تھا اور وہ شاہی خاندان اور امراء کی توجہ کا مرکز تھی۔ اب یہ منصب شہزادی زیب النساء کے حصے میں آیا تھا۔

اکیس برس کی عمر میں کوئی لڑکی "پادشاہ بیگم" بنادی گئی ہو، جاہ وحشمت اس کے در دولت کی باندیاں ہوں تو اس کو ان بلندیوں پر ناز کیوں نہ ہو۔ لیکن شہزادی زیب النساء کے خمیر میں غرور اور جاہ طلبی نام کو نہ تھی۔ ابھی وہ اپنے دادا اور پھوپھی کی بدبختیوں پر دل زدہ تھی کہ خبر آئی کہ اس کا چچا دارا شکوہ اپنے بیٹے شہزادہ سپہر شکوہ کے ساتھ گرفتار ہوا اور دونوں قتل کردیے جائیں گے۔ یہ وہی سپہر شکوہ تھا جس سے جہاں آراء کی خواہش رہی تھی کہ شہزادی زیب النساء کی شادی کردی جائے۔

شہزادی نے "پادشاہ بیگم" ہوتے ہی اپنے نانا شاہ نواز خان صفوی کے قتل کا حکم منسوخ کرانے کے لیے تین دن تک مسلسل فاقہ کیا تھا اور قتل کی سزا منسوخ کرائی تھی لیکن وہ اپنے چچا شہزادہ داراشکوہ کے قتل کی سزا منسوخ کرانے کے لیے اُف تک نہ کرسکی، وہ جانتی تھی کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ لوگ شہزادہ داراشکوہ کو شاہ جہاں کا جائز وارث خیال کرتے تھے۔ اس کے زندہ رہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس کے باپ اورنگزیب کے سر پر ہمیشہ بغاوت کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

وہ اپنے باپ کی بے مہری اور داراشکوہ سے اس کی گہری نفرت سے بہ خوبی آگاہ تھی۔ پھر اسے خبر ملی کہ اس کے دانش جُو اور فراخ دل چچا کا سر تحفے کے طور پر اس کے دادا کے سامنے خوان میں سجا کر بھیجا گیا جسے دیکھ کر شاہ جہاں بے ہوش ہوا اور جہاں آراء اپنے چہیتے بھائی کے لیے آہ وبکاہ کرتی رہی۔ اس نے یہ بھی سنا کہ پھر وہ سر آگرہ بھیجا گیا جہاں اس کی دادی ممتاز محل کی قبر کھولی گئی اور اس کے چہیتے بیٹے کا خون آلود سر اس میں رکھ دیا گیا۔

اکیس برس کی شہزادی زیب النساء جیسی ذہین اور حساس لڑکی کے لیے یہ واقعات جاں کاہ تھے۔ اب تک وہ اپنے باپ سے غیر مشروط محبت کرتی رہی تھی اور اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ اس کا باپ بھی اس سے گہری وابستگی رکھتا ہے لیکن تخت طائوس کی خاطر اورنگزیب نے اپنے باپ، بھائیوں اور بہن کے ساتھ جس سنگ دلی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا تھا، اس نے زیب النساء کے ذہن میں اپنے باپ کی پہلے سے مختلف ایک شبیہ ضرور بنائی ہوگی۔ یہ اقتدار کی خواہش میں گرفتار ایک منتقم المزاج بیٹے اور بھائی کی تصویر تھی جو شومئی قسمت سے اس کا باپ تھا۔

زیب النساء کے لیے یہ بھی ایک بڑا صدمہ تھا کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے شہنشاہ اکبر کے اپنی ہندو رعایا کے ساتھ فراخ دلی اور حسن سلوک دونوں پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے ان پر جزیہ عائد کردیا۔ دربار میں شاعروں کی پذیرائی ختم ہوئی۔ روشن خیال عالمانہ اور صوفیانہ بحثیں موقوف ہوئیں۔ موسیقی اور موسیقاروں پر قدغن لگی اور مغل دربار جو اپنی وسیع القلبی اور مختلف علوم وفنون کی سرپرستی کے لیے مشرق ومغرب میں مشہور تھا، وہاں سے یہ خوبیاں رخصت ہوئیں۔

مغل دربارپر شیعیت اوراعزا داری کے گہرے اثرات تھے۔ زیب النساء محرم میں سیاہ پوش ہوتی اور ماتم داری میں حصہ لیتی لیکن اورنگزیب کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا کہ اس کی بیٹی ان رسوم میں حصہ لے جو اس کے خیال میں بدعت تھیں۔ چنانچہ زیب النساء کو عزاداری سے بھی کنارہ کرنا پڑا۔

زیب النساء کے سامنے "پادشاہ بیگم" ہونے کے بعد دو ہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ دربار کی سیاست میں حصہ لیتی اور اپنے شہنشاہ باپ کو اس کی پسند کے سیاسی مشورے دیتی اور بعض حالت میں اس کی جنگی مہموں میں اس کے ساتھ رہتی لیکن یہ اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ وہ دکن کی شیعہ ریاستوں، مرہٹوں اور راجپوتوں پر لشکر کشی کی بجائے مفاہمت کے عمل کو فوقیت دیتی تھی۔

اس کا خیال تھا کہ ہندوستان جیسی عظیم سلطنت پر حکومت کے لیے تعصب اور جنگ جوئی کی راہ جانا مناسب نہیں۔ اپنے ان خیالات کے باوجود وہ جانتی تھی کہ اپنے سخت گیر اور سفاک باپ کے فیصلوں پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہوسکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے علم وادب اور شاعری سے دل لگایا۔ وہ لاہور اور کشمیر کے اسفار میں اپنے باپ کی ہم رکاب رہی جو اس کے منصب "پادشاہ بیگم" ہونے کے لیے لازمی تھا۔

زیب النساء کی زندگی کسی چیستاں سے کم نہیں۔"پادشاہ بیگم" کا منصب ملنے کے ساتھ ہی اسے وسیع جاگیر عطا ہوئی جس کی آمدنی کی وہ مالک ومختار تھی۔ اس کے علاوہ اسے چار لاکھ روپے سال کا وظیفہ بھی ملتا تھا۔ وقتاً فوقتاً ہونے والی شاہی تقریبات میں اسے اپنے باپ کی طرف سے خطیررقم تحفے کے طور پر بھی دی جاتی تھی۔ زیب النساء کے مزاج میں درویشی اور سادگی ابتداء سے تھی۔

ماں کی ناوقت موت، تخت نشینی کی جنگ کے نتیجے میں اپنے خونی رشتوں کی قید اور سفاکانہ قتل کے علاوہ ذکر، مراقبے اور صوفی تعلیمات نے دنیا کے بارے میں اس کے اندر ایک خاص انداز کی بے اعتنائی پیدا کردی تھی، ذاتی زندگی کی تنہائی اور مرگِ محبت کے اندوہ نے بھی شاید اس کے حزن وملال میں اضافہ کیا۔ وہ اپنے خاندان کی دوسری شہزادیوں کی طرح قیمتی لباس، زیورات اور بے جا نمود ونمائش میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی تھی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ شاعری اور دیگر فنون لطیفہ کے بارے میں اس کے باپ کی ناپسندیدگی نے مغل دربارکو علمی اور ادبی اعتبار سے ویران اور بے شمار شاعروں، عالموں، مصوروں اور موسیقاروں کو بے آسرا کردیا ہے۔

باپ کا یہ رویہ اس کے لیے دلی تکلیف کا سبب تھا۔ اس نے علمی اور ادبی محفلیں اپنے محل میں آراستہ کرنی شروع کیں۔ اورنگ زیب کو اپنی جنگی مہمات سے فرصت نہ تھی اور اس کا زیادہ وقت مختلف جنگی محاذوں پر گزرتا۔ اس صورتحال نے بھی شہزادی زیب النساء کے لیے علمی اور ادبی محفلوں کی میزبانی کو نسبتاً آسان بنادیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اورنگزیب جیسے بادشاہ کو اس کی خبر نہ تھی کہ اس کی بیٹی کے دربار میں کون لوگ بار پاتے ہیں۔ اس کا جاسوسی کا نظام اتنا وسیع تھا کہ امراء، عوام اور اس کے دشمن تو ایک طرف رہے، اس کی اولاد اور اس کے خاندان کے دوسرے افراد بھی اس دائرے سے باہر نہ تھے۔

(جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.