قوموں کی زندگی میں کچھ ایسے سانحے پیش آتے ہیں جنھیں "عظیم" کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ برصغیر ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی ہی ابتلا 1857 کی جنگ آزادی تھی جس نے ہماری تاریخ کو سر کے بل کھڑا کردیا۔ پاکستان کے قیام کے صرف 25 برس بعد یہ ملک دو لخت ہوا۔ بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ یوں صرف 25 برس بعد پاکستان اپنی بنیاد سے ہل کر رہ گیا۔
اس سانحے پر لگ بھگ نصف صدی گزر گئی ہے لیکن ابھی تک ایسی تحریریں سامنے نہیں آئیں جن سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ وہ کون سے عوامل تھے جس کی وجہ سے اکثریت نے اقلیت سے دامن چھڑانے میں ہی عافیت سمجھی اور اس راستے میں لاکھوں بے گناہ انسان جان سے گزر گئے۔
اس حوالے سے دیکھیے تو 1857کی جنگ آزادی کے بارے میں بلاشبہ سیکڑوں کتابیں اور جرائد و رسائل کے خاص نمبر سامنے آئے جن سے اس محاربۂ عظیم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اب سے 62 برس پہلے لاہور سے مجلس ترقی ادب کا خصوصی شمارہ "جنگ آزادی 1857"شایع ہوا تھا جس کی اہمیت اور وقعت میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ چند دنوں پہلے یہ خصوصی شمارہ ایک بار پھر نظر سے گزرا اور جی چاہا کہ ہماری نئی نسل جو ان نادر و نایاب تحریروں سے ناواقف ہے، وہ ان کی کچھ جھلکیاں دیکھ کر اپنی تاریخ کو سینے میں محفوظ کرلے۔
وقت ہمیں بتاتاہے کہ وہ برطانوی تاجر جو مغل شہنشاہ کے دربار میں تین سال تک ایڑیاںر گڑنے کے بعد تجارت کے لیے شاہی فرمانی حاصل کرنے میںکامیاب ہوئے۔ ایک سو چالیس سال بعد ان کے ورثا نے مغلوں کو اس احسان کا یہ صلہ دیا کہ مغلوں کی بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرلیا، برعظیم پاک و ہند کے تمام وسائل پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔
بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلا وطن کردیا گیا۔ اس کے تین بیٹوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ انگریزوں نے ان نوجوان شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے سامنے لٹکا دیں جہاں ان بدقسمت شہزادوں کی بوٹیاں گدھ اور کتے کئی دن تک نوچتے رہے۔ اس عہد کے ممتاز اہل علم و دانش بھی برطانوی استبداد کی بے رحمانہ کارروائیوں کی زد میں آگئے۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بے گناہ مقتولین میں ممتاز عالم امام بخش صہبائی اور ان کے خاندان کے اکیس افراد بھی شامل تھے۔ 7نومبر 1862 کو رنگون کے ایک قید خانے میں بہادر شاہ ظفر نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اس کے ساتھ ہی مغل شہنشاہیت کی آخری نشانی پیوند خاک ہوگئی۔
ہندوستانی تاریخ کا یہ ایک ایسا سانحہ تھا۔ جس نے فکرو نظر کی کایا پلٹ دی۔ ہر شخص یہ سمجھنے لگا کہ اب وہ غاصب برطانوی استعمار کی غلامی میں چلا گیا ہے۔ آزادی، خود مختاری اور عزت نفس کا خیال اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب اظہار پر تالے لگادیے گئے ہیں اور باد سموم نے شگفتہ کلیوں کو جھلسا دیا ہے۔ غلامی کا تصور ہی انسان کے رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ 1857 کے المناک حالات کے بعدبرعظیم پاک و ہند کے باشندوں میں آزادی کے بارے میں جو تڑپ پیدا ہوئی اس سے ذہن اور شعور کو نئی جہت اور افکارتازہ کے وسیلے سے جہان تازہ کی نمود کے امکان پیدا ہوئے۔
تاریخ سے سبق حاصل کرنا زندہ اقوام کا بنیادی وصف ہے۔ ہیگل نے کہا تھا:
چوں کہ انسانی آزادی اور احساس آزادی ایک چیز ہے لہٰذا آزادی کا ارتقا شعور و ذہن کا ارتقا ہے۔ اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں۔ اس لیے فلسفہ تاریخ صرف انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا۔ بلکہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔
غالب نے اس عہد کے حالات کو اس طرح دیکھا کہ ان کے افکار ایک تہذیبی اور معاشرتی ترجمان کے افکار سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ہر شخص کو حالات کی سنگینی کا شدت سے احساس تھا۔ اس عہد کی اجتماعی سوچ کچھ اس قسم کی تھی جسے غالب نے یوںپیرایہ اظہار عطا کیا کہ۔
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس…یوں کہا: آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب؟
بال و پر دو چار دکھلاکر کہا صیاد نے…یہ نشانی رہ گئی ہے اب، بجائے عندلیب
"قبضہ" ہمیشہ غاصبانہ ہوتا ہے۔ انگریزوں نے بھی آزاد ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ غلام شبیر رانا لکھتے ہیں:
1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد برعظیم پاک و ہند کے دانش وروں نے عصری آگہی کے بارے میں مثبت شعور پیدا کیا۔ تخلیق کار یہ سمجھتے تھے کہ تخلیقی فن کے لمحوں میں اس طور محفوظ رکھا جائے کہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہر ظالم پر لعنت بھیجنا اپنا شعاربنایا جائے۔ ظلم کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارنا عظمت فکر کی دلیل ہے۔ غالب نے کہا تھا
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجیے…کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پر آلگا غالب!…خدا سے کیا، ستم و جورِ ناخدا کہیے
امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں 13 اپریل 1919 کو جنرل ڈائر کے حکم پر 1516 بے گناہ قتل ہوئے۔ ان ہی بے گناہوں کے خون سے بھگت سنگھ شہید اور اس کے ساتھیوں نے جنم لیا اور گرفتاری کے بعد بہ بانگ دہل یہ کہا کہ "سامراجی، افراد کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن جن خیالات کے ہم ترجمان ہیں انھیں روکنا اور دبانا ممکن نہیں۔ "
’صحیفہ، کے اس شمارے میں مولانا محمد حسین آزاد اور 1857، کیدارناتھ کی یادداشتیں، کنہیا لال صاحب کی محاربۂ عظیم، 1857کی جنگ آزادی اور اردو ادب، ہمارے مشہور ادیب ڈاکٹر اخترحسین رائے پوری کا ایک تحقیقی مضمون "رنگون میں آخری مغل بادشاہ" خاصے کی چیز ہیں۔ وہ مغل شہنشاہ کی آخری رہائشگاہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
بہادر شاہ ظفر کو جہاز سے اتار کر گوروں کی سخت نگرانی میں رنگون کے صدر بازار کے ایک دو منزلہ بنگلے میں لایا گیا۔ یہ بنگلہ پرانے گھڑ دوڑ کے میدانوںکے نزدیک موجود "وائل روڈ" کے کنارے واقع تھا۔ اب تو اس کا کہیں نشان بھی نہیں ہے۔ وہاں اب کچہری اور پولیس چوکی ہے۔ یہ کل احاطہ مسٹرڈاسن نامی انگریز کی ملکیت ہے۔ اسی احاطے میں آخری مغل شہنشاہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ابدی نیند سویا ہوا ہے۔ ظفر کی زندگی میں اس بنگلے کے ارد گرد پہرے دار چیلوں کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔
کسی بادشاہ کی آتما کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کی شاہی توقیر کا خاتمہ کردو۔ پھر دیکھو وہ کس طرح تڑپتا ہے۔ اس کی ہر سانس ایک آہ ہے۔ اس کا ہر بول ایک کراہ ہے۔ اس کی مسکراہٹ موت کی ہنسی ہے۔ انیسویں صدی کے اسی سالہ برائے نام مغل بادشاہ کی حالت زار کی عکاسی اپنے بس کی بات نہیں۔ جس نے 350 سالہ اقبال اور وقار کو وقت کی ایک ٹھوکر سے خاک میں ملتے ہوئے دیکھاہو۔ جس کے کانوں نے اپنے بیٹوں کی چیخ پکار اور ننھے بچوں کی فریاد سنی ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے دنیا سے الگ کردیا گیا ہو۔ اس کے دکھوں کا اندازہ لگانا بہت کٹھن ہے۔
ظفر اپنے تنگ و تاریک کمرے سے کبھی باہر نہ نکلتے تھے۔ چار پائی پر پڑے پڑے حقہ گڑگڑاتے، اپنے پرُدرد اشعار گنگناتے اور نماز پڑھتے ہوئے شب وروز گزار رہے تھے۔ کبھی کبھی جواں بخت کو اس فانی دنیا کے دکھ اور ماضی کی کہانی سنانے لگتے تھے۔ بیتے دنوں کی یاد جلے پر نمک کا کام کرتی تھی۔
وہ بہادر شاہ ظفر کی قید تنہائی سے لکھے جانے والے ایک مغل شہزادی شاہ زمانی کے ایک خط کو نقل کرتے ہیں جس کے لیے وہ خواجہ حسن نظامی کے ممنون ہیں۔
"میں آپ کی بیٹی کالے پانی میں ہوں۔ اپنے وطن دلی سے ہزاروں میل دور، میکے سے دور اور جدا اور ایسی جدا کہ اب جیتے جی کبھی کسی میکے والے سے ملنے کی امید نہیں ہے۔ اب کا خط سائیں سبیل شاہ صاحب لے کر آئے تھے۔ جب وہ حضور (بہادرشاہ) سے باتیں کررہے تھے تو میں نے چلمن سے دیکھا وہ زارو قطار رو رہے تھے اور حضور کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ "
یہ خط ستمبر 1932 میں ہندی ماہ نامہ وشال بھارت میں کلکتہ سے شایع ہوا تھا۔ یہ خط اور ایسی کئی تحریریں ہیں جنھیں پڑھیے تو کلیجہ شق ہوتا ہے۔ 400 صفحوں میں شایع ہونے والے مضامین کا کیا بیان ہو۔ بس یہ کہیے کہ یہ ہماری تاریخ کا نچوڑ ہے۔ اسے پڑھیے تو یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ دل ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم۔ یہ زوال کی ایک ایسی تصویر ہے جسے بہ چشم نم دیکھیے۔ اپنی تاریخ سے اگر دلچسپی ہوتو 62 برس پرانے اس صحیفے کو پڑھیے اور آج کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔