ہزاروں لاکھوں برس سے انسان کے لیے چاندکبھی دیوی کبھی دیوتا بنا۔ چاند کا طلوع ہونا، اس کا ماہِ کامل بننا اور پھرگھٹتے گھٹے آسمان سے غائب ہوجانا۔ سمندرکا زیرو بم اس کے طلوع اور غروب ہونے سے جڑا ہوا، ذہنی مریضوں کی حالت زار پر اس کا سایہ، جادوگری کی کہانیاں اس سے وابستہ۔ فارسی اور اردو شاعری میں اس کے قصیدے۔ کسی نے محبوبہ کے چہرے کو چاند سے تشبیہہ دی اور مجاز ایسا رومان پرور، جب ترقی پسند ہوا تو اس نے لکھ دیا کہ "اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب، جیسے ملا کا عمامہ، جیسے بنیے کی کتاب" جاوید اختر کی نظم میں بھوکے کو آسمان کی وسعتوں میں چاند اک روٹی نظر آیا، یہ ہمارے تخیلات کا کرشمہ تھا۔
ادھر مغرب تھا جو سمندروں کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کو فتح کر رہا تھا، قدیم ستارہ شناس ہزاروں برس سے ستاروں کی چال دیکھ رہے تھے اور اسے سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادیبوں نے چاند پر جانے کے خواب دیکھے، کہانیاں لکھیں، ناول تخلیق کیے۔ کپلر سائنس دان تھا اور اس کے ساتھ ہی شاعرانہ مزاج رکھتا تھا۔ اس نے چاندگرہن کی ساعتوں میں انسان کو چاند پر پہنچا دیا۔
1865 میں جولز ورن نے "زمین سے چاند کا سفر" لکھا۔ اس سے بہت پہلے عظیم مصور اور خواب گر لیونارڈو ڈا ونچی 1484 سے 1514 کے درمیان خلا میں سفر کے لیے متعدد خلائی جہاز ڈیزائن کرچکا تھا۔ ان سب کی یہ وہ جہد مسلسل ہے جس نے انسان کو خلا میں سفر کا خواب دیکھنے پر اور پھر اسے حقیقت بنانے پر اکسایا۔
ہماری سیکڑوں نسلیں اس چاند عشق میں گرفتار رہیں۔ اس کی کرنوں نے ہمیں خوابوں کے ہنڈولے میں جھلایا۔ کیسی کیسی کہانیاں اس سے وابستہ رہیں۔ ہماری لوریوں، ہمارے قصوں میںچاند مرکز نگاہ رہا۔ وہ ہمارا ماموں تھا۔ ہمارے لیے دودھ ملیدہ لے کر آتا۔ اس میں بیٹھی ہوئی بڑھیا چرخا کاتتی تھی، اپنے اس چرخے پر وہ ہمارے لیے نت نئی کہانیاں کاتتی اور ہم مائوں، نانیوں اور دادیوں کے لبوں سے وہ کہانیاں سن کر نیند کی وادیوں میں اتر جاتے۔ ایک کہانی وہ بھی تھی جب چاند کھیلنے نکلا اور سمندر کی لہروں سے کھیلتے ہوئے اس کی گہرائیوں میں کھوگیا۔ زمین گہری تاریکی میں ڈوب گئی۔ ایک لڑکی اسے سمندرکی تہہ سے ڈھونڈ لانے اور آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے نکلی اور اس میں کامیاب ہوئی۔
انسان کے تخیل نے اس سے اڑن کھٹولوں اور اڑنے والے قالین کی کہانیاں لکھوائیں اور پھر انیسویں صدی میں اڑنے والی ایسی مشینیں ایجاد کیں جن میں بیٹھ کر خلا کے خیالی مسافر چاندکو چلے جاتے تھے اور پھر وہاں سے واپس آجاتے تھے۔ انسانی تخیل سے زیادہ تیز رفتار بھلا کون سا پرندہ، کون سی مشین ہوسکتی ہے۔ سوکیسی کیسی کہانیاں لکھی گئیں۔ پھر ان ہی کہانیوں کا دامن پکڑ کر انسان نے اڑنے کی اپنی ہزاروںبرس پرانی خواہش کو پورا کر لیا۔ اسی خواہش نے رائٹ برادران سے لڑکھڑاتی اور ڈولتی ہوئی مشینیں ایجاد کرائیں، جنھیں ابتدائی طیارے کہا گیا۔ پھر 1903 کے بعد ان اڑن مشینوں نے ایسی تیز رفتار ترقی کی کہ اس کے صرف ساٹھ پینسٹھ برس بعد اس نے چاند پرقدم رکھا۔
آج کی نسل ان دنوں کا تصور نہیں کرسکتی جب 1957 اور پھر 1969 میں سوویت یونین اور امریکا کے درمیان خلاء میں جھنڈے گاڑنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ روسی کتیا لائیکا، یوری گگارین اور ولنتینا ترشکووا ان ہی دنوںکے یادگار نام ہیں۔ ہم آزادی کے فوراً بعد امریکی معاملات سے بہت قریب رہے۔ وہ کوریا کی جنگ ہو یا سیٹو، سینٹو کے دفاعی معاہدوں کے حوالے سے امریکا کی برابری کی دعویداری ہو، اصل جشن تو جولائی 1969 میں اس وقت منایا گیا جب امریکا سے ہزاروں میل کی دوری پر ہونے کے باوجود ہم چاندکی تسخیر پر پھولے نہیں سمائے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا۔ جیسے نیل آرمسٹرانگ نے چاند کی خاک پر جو قدم رکھا تھا اور جسے اس نے چھوٹا سا قدم اور انسانیت کی ایک بڑی زقند قرار دیا تھا، وہ دراصل ہمارا ہی نقش قدم تھا پھر جب چاند کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہمارے شہر میں بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا تو ہم سب اسے کس قدر ذوق شوق سے دیکھنے گئے تھے۔
چاند کے ٹکڑے کو دیکھ کر اداسی ضرور ہوئی تھی کیوں ہمارے یہاں ادب میں حسینوں کو " چاند کا ٹکڑا" کہا جاتا تھا اور کسی کے حسن کو خراج ’چندے آفتاب، چندے ماہتاب، کہہ کر ادا کیا جاتا۔ میرؔ صاحب کو چاند میں محبوبہ کا چہرہ نظر آتا اور غالبؔ اپنے جگر کے ٹکڑے کا مرثیہ لکھتے تو کہتے کہ ’ تم ماہِ شب چاردہم تھے مرے گھرکے،۔
امریکی چاند کا جو ٹکڑا زمین پر لائے تھے اور ساری دنیا میں اس کی نمائش کرتے پھر رہے تھے، اس سے شاعرانہ حسن کا دور دور تک تعلق نہ تھا جس پر ہماری حسینائیں نازکرتی تھیں، لیکن یہ احساس ضرور تھا کہ یہ امریکی طاقت و جبروت کا ایک مظہر ہے۔
چاند پر انسان کے پہلے نقش قدم پر نصف صدی گزر چکی ہے، اس دوران امریکا نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کتنی عظیم سائنسی اور اختراعی طاقت ہے۔ سوویت یونین سابق ہوا، اپنے معاشی زوال کے سبب خلا کی تسخیر میں بھی وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ لیکن روس کے جھنڈے تلے وہ ایک بار پھر اس سفر میں آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا نے دس لاکھ میل کی دوری پر چاند تک پہنچ جانے کو ایک عظیم کارنامہ سمجھا تھا۔ یہ امریکا کی نہیں انسان کی اجتماعی فتح تھی اور اب پچاس برس کے اندر انسان کے بھیجے ہوئے خلائی جہاز کروڑوں میل کا سفرکرکے مریخ کی سطح پر اتر رہے ہیں اور وہاں کے بارے میں سائنس دانوں کو پل پل کی خبر دے رہے ہیں۔
یہ محض انسان کا شوقِ سفر اور تسخیر کائنات کا ولولہ نہیں، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بیسویں صدی کے ایک عظیم سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ نسل انسانی کو اپنی بقاء کے لیے دوسرے سیاروں کی طرف نگاہ کرنی چاہیے جہاں وہ نئی بستیاں آباد کرسکے، اس لیے کہ ہماری زمین اس تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ نہیں سہار سکتی۔
ہم چاند یا آس پاس کے دوسرے سیاروں پر انسانی بستیاں آباد کرسکیں گے یا نہیں اور یہ بھی کہ اس میں کتنا عرصہ لگے گا، اس بارے میں آج حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان کا چاند پر قدم رکھنا یا اس کے خلائی جہازوں کا مریخ کے ماحول کی خبر لانا ممکن نہ تھا اگر انسان نے رات کے اندھیروں میں اور چاندنی کے غبار میں لپٹی ہوئی فضائے بسیط کو دیکھ کرکہانیاں نہ سوچی ہوتیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم آتش بازی بناتے بناتے اور اس میں اڑن ہوائیاں چلاتے چلاتے، راکٹ بنانے لگتے، دنیا ان تین سنکی سائنسدانوں کو کیسے بھول سکتی ہے جنہوں کے کشش ثقل کو توڑ کر خلا کی لا نہایت بیکرانیوں میں سفر کرنے والے میزائل ایجاد کیے ان میں دیوانگی کی سرحدوں پر کھڑا ہوا میزائل ٹیکنالوجی کا ماہر روسی سائنسدان کونسٹینٹن تیولکووسکی، دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا جرمن قوم پرست ہرماں اوبرتھ اور نیم دیوانہ امریکی سائنس دان رابرٹ گوڈاڈ کی ذہانتیں باہم نہ ہوتیں تو یہ سب کچھ ممکن نہ تھا۔
یہ تیولکووسکی تھا جو میزائل سائنس کا ماہر ہونے کے ساتھ ہی سائنسی کہانیاں بھی لکھتا تھا۔ وہ ماسکو سے 100 میل کے فاصلے پر انتہائی عسرت میں زندگی گزارتا اور تسخیر خلا کے خواب دیکھتا۔ یہ وہی تھا جس نے لکھا تھا کہ "زمین ذہانت کا گہوارہ ہے لیکن انسانیت ہمیشہ اس گہوارے میں نہیں رہ سکتی۔ " یہ وہ بات تھی جو ستر، اسی برس بعد اسٹیفن ہاکنگ کہنے والا تھا۔
یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ہٹلرکے اقتدار میں آنے سے پہلے جب چند جرمن سائنسدانوں نے اپنی فوج کو یقین دلایا کہ ان کے بنائے ہوئے میزائل فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ان ہی دنوں ایک فلم "چاند پر عورت" بنائی گئی۔ اس فلم کے بارے میں ہٹلر اور اس کے بعض ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ بہت سے حقائق کو آشکار کرتی ہے۔ اسی لیے اس فلم پر پابندی لگادی گئی اور وہ گمنامی کے غبار میں غائب ہوگئی۔
چاند پر جانے والے اپالو II کے تینوں مسافر اپنے پیچھے اپنے نقش قدم ہی نہیں چھوڑ آئے۔ وہاں ایک مہر بند صندوق ہے جس میں دنیا کے بیشتر ملکوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے اور چند عظیم دانشوروں کے قول ہیں۔ ایک خلانورد چپکے سے اپنی بیٹی کی کلائی کاکڑا چھوڑ آیا ہے۔ اس کے علاوہ چاند گاڑی جس میں بیٹھ کر ان خلانوردوں نے چاند کے ایک محدود علاقے کا چکر لگایا تھا۔ اس کے ٹکڑے اور وہ کوڑا کرکٹ جو نیل آرمسٹرانگ اور اس کے ساتھیوں نے چھوڑا۔ اب سے بہت دنوں بعد جب چاند پر چند تحقیق کرنے والے اتریں گے تو وہ اس کوڑے کرکٹ کو "دریافت" کریں گے اور اس کی کہانیاں لکھی جائیں گی۔ اس گھڑی کا بھی ذکر ہوگا جو چاند کی سطح پر پہنچنے والی پہلی گھڑی تھی اور جس کے ان دنوں دنیا کے بڑے بڑے اخباروں میں اشتہار چھپ رہے ہیں۔ انسان نے خلا کی تسخیر کے ساتھ ہی اپنے پیچھے بہت سے نشانات چھوڑے ہیں جو اس کے بعد آنے والے دریافت کریں گے اور نئی کہانیاں لکھی جائیں گی۔ نئی کہانیاں جو انسانوں کو نئے سفر پر لائے جائیں گی۔ سو یوں ہے کہ کہانیوں کوکسی طور پرکم تر نہ سمجھئے کہ وہی انسان کو آگے لے جاتی ہیں۔