کسی بھی لکھنے والے کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے کہ اس کی تحریر پر اس کے پڑھنے والے اعتراض کریں یا اس کی تعریف و توصیف کریں۔
اتوارکی صبح ایک عزیز دوست جناب مظاہر نقوی کا فون آیا۔ انھیں اس بات پر اعتراض تھا کہ میں نے عظیم امریکی دانشور نوم چومسکی کے ان لیکچروں کا کوئی ذکر نہیں کیا جو اس نے لاہور اورکراچی میں دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نے لاہورکے لیکچر میں یہ بات کھل کرکہی تھی کہ اس کا ملک ایک دہشت گرد ملک ہے۔
میں نے مظاہر صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض کیا کہ پندرہ یا سولہ سو الفاظ پر مشتمل کالم میں ایک ایسے دانشورکی باتیں کیسے سمیٹی جاسکتی ہیں جس نے ایک ہزار سے زیادہ لیکچر دیے ہوں اور جس کی کتابوں کی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہو، چومسکی کے خیالات کے بارے میں مزید باتیں مظاہر صاحب کی فرمائش پر ہی لکھی جا رہی ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ آج کے امریکی صدر ٹرمپ کی شعلہ بیانی ان امریکیوں کو بہت لبھاتی ہے جو امریکی سماج کی بدلتی ہوئی صورتحال سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اسے یوں کہہ لیجیے کہ ان کے خواب وخیال کا سفید فام امریکا ان کی نگاہوں کے سامنے بدل رہا ہے۔
چومسکی امریکی آئین کے بارے میں بنیادی سوال اٹھاتا ہے۔ وہ مقامی امریکیوں (ریڈ ایڈینز) کے بارے میں ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امریکی میثاق آزادی میں ان لوگوں کو "سفاک ہندی وحشیوں " کے طور پر یاد کیا گیا تھا۔
وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ " ایمگرینٹس" دراصل وہ سفید فارم تارکین وطن تھے جو بنیادی طور پر اینگلو سیکسن تھے۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ ہمارا ملک بہت بہترہوگا اگر اس میں غیرسفید فام کے بجائے سفید فام باشندوں کا تناسب کہیں زیادہ ہو۔
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکا عالمی اقتصادی طاقت اوراس اقتصادی جنگ کا حمایتی رہا ہے۔ جس میں غیر قانونی پابندیوں سے لے کر آئی ایم ایف کے قواعدکا نفاذ (صرف کمزوروں کے لیے) شامل ہے۔ تاہم پچھلے بیس سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصے سے امریکا میں جاپان اور جرمن قیادت میں یورپ کے مقابلے میں کسی قدر زوال آیا ہے۔
(اس کا ایک سبب ریگن کی اقتصادی بد انتظامی بھی ہے۔ جس نے عوام کی اکثریت اورآیندہ نسلوں کے مفادات کو امیروں کے لیے قربان کردیا) اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی فوجی قوت میں بھی اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ وہ قطعی طور پر سربرآوردہ بن چکی ہے۔
اس کھیل میں سوویت یونین کی موجودگی تک تو ایک مقررہ حد تک یہ بات معلوم تھی کہ امریکا کتنی طاقت استعمال کرسکتا ہے۔ بالخصوص ان علاقوں میں جہاں ہماری روایتی فوجی حیثیت مستحکم نہیں رہی چوں کہ سوویت یونین ایسی حکومتوں اور سیاسی تحریکوں کی پشت پناہی کر رہا تھا جنھیں امریکا تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے یہ خطرہ موجود تھا کہ تیسری دنیا میں امریکی مداخلت ایٹمی جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔ سوویت یونین کا خطرہ ختم ہونے کے بعد امریکا دنیا میں تشدد کے استعمال کے لیے نسبتاً آزاد ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو پچھلے چند برسوں کے دوران امریکی تجزیہ نگاروں نے اطمینان کے ساتھ قبول کرلیا ہے۔
کسی بھی تنازعے میں ہر فریق جنگ کا رخ اس میدان کی جانب کرتا ہے، جس میں اس کی فتح کے زیادہ امکانات ہوں۔ آپ اپنی طاقت کے ساتھ پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے مضبوط پتے ظاہر کرنے ہوں گے۔ امریکاکا مضبوط پتہ طاقت ہے، اس لیے ہم اگرکوئی اصول قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں جودنیا پر حکمرانی کرے تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ دوسری جانب پر امن طریقے سے قائم ہونے والا امن ہمارے لیے فائدے کا حامل ہے، کیونکہ اس میدان میں ہمارے حریف ہمارے جیسے یا ہم سے بہتر ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ سفارت کاری خاصا ناپسندیدہ متبادل ہے۔ جب تک وہ بندوق کے تابع نہیں۔ تیسری دنیا میں امریکا کو اپنے مقاصد کے لیے عوامی حمایت حاصل نہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ امریکا غلبے اور استحصال کے ڈھانچے ہی کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ سفارتی حل میں دوسرے فریق کو کسی حد تک کچھ رعایت دینی ہی پڑتی ہے اور امریکاکے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو برابری کی حیثیت دے یا انھیں رعایت دے۔
آزادی کے لیے جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو ہمارے ہمدردانہ ادراک کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ انھیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم امریکا میں تھوڑا سا شور شرابا کرکے انھیں بقا کا پروانہ فراہم کرسکتے ہیں۔ کیا وہ اس زیادتی پر غالب آسکتے ہیں جو ہم نے ان پر مسلط کررکھی ہے۔ اس کا زیادہ تر دارو مدار اس پر ہے کہ یہاں امریکا میں کیا ہوتا ہے۔
تیسری دنیا کے لوگوں کی بہادری حیران کن ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا اور فلسطین میں مغربی کنارے پر میں نے ان کی بہادری دیکھی۔ یہ ایک لازوال اور جینے کی امنگ بخشنے والا تجربہ تھا۔ جو مجھے یورپ کے باشندوں کے لیے روسو کی بات یاد دلاتا ہے جنہوں نے پرتعیش زندگی کے لیے آزادی اور انصاف سے دست بردار ہوکر خود کو دوبارہ زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ روسو کہتا ہے:
" جب میں مکمل طور پر برہنہ وحشیوں کے غول دیکھتا ہوں جوکہ یورپ کی عیش و عشرت کی زندگی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے بھوک، آگ، تلوار اور موت کو برداشت کرتے ہیں تو محسوس کرتا ہوں کہ غلاموں کو اپنی آزادی کے لیے دلائل دینا راس نہیں آتا۔ آزادی کے بارے میں غلاموں کا منطق بھگارنا مناسب نہیں لگتا۔ "
جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ محض الفاظ ہیں وہ دنیا سے متعلق ناقص معلومات رکھتے ہیں۔
اور یہ اس ذمے داری کا ایک حصہ ہے جو ہمیں در پیش ہے۔ خود امریکا میں تیسری دنیا ابھر رہی ہے۔ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں ناجائز اتھارٹی نظام موجود ہے۔ تاریخ انسانی میں پہلی دفعہ ہمیں ماحول کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہے۔ جو انسانی وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ ایمان دارانہ اور اپنے آپ کو وقف کرنے والی کوشش مسائل کو حل کرے گی یا اسے مزید بگاڑ دے گی تاہم ایک بات ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کوششوں کی عدم موجودگی آفتوں کا پیش خیمہ ہوگی۔
وہ ہمیں ایاز ملک کے ایک انٹرویو میں کہتا سنائی دیتا ہے کہ اب یہ کھلا ہوا راز ہے کہ طالبان کا وجود سی آئی اے اور آئی ایس آئی کا مشترک کام تھا۔ جو 1980ء کی دہائی میں سوویت مخالف جنگ میں استعمال ہوا۔ لیکن اب 2000ء کی پہلی دہائی میں طالبان کا رخ بدل گیا۔ امریکی حکومت کی پالیسیاں دہشتگردی کو جنم دے رہی ہیں۔
وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ڈرون دراصل دہشت گردی کا ہتھیار ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے نشانے پر پہنچ کر لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں بلکہ عام لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اپنے اسی انٹرویو میں اس نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا مسئلہ بھی اٹھایا اور یہ کہا کہ پولیو کے جراثیم پاکستان سے ختم ہونے والے تھے لیکن اسامہ بن لادن کی ہلاکت نے اس مہم کو بہت سنگین خطرے سے دوچار کر دیا۔ اب کچھ دن جاتے ہیں جب پاکستان میں بہت سے بچے بیساکھیوں یا وہیل چیئر پر نظر آئیں گے جنھیں دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ یہ سب امریکا کا کیا دھرا ہے۔
ایک دانشور جو اب 90 برس کا ہوچکا ہے، جس نے 50 برس پر پھیلی ہوئی اپنی رفیق حیات کی جدائی برداشت کی ہے۔ وہ امریکا میں ہو یا پاکستان میں یا دوسرے ملک، ان کے بارے میں تنقید سے نہیں چوکتا اور تیسری دنیا ہو یا پہلی دنیا، ان کے حکمرانوں پر کڑی تنقید سے باز نہیں آتا۔ ایک ایسے شخص کے لیے کلمات تحسین و آفرین کس طور اداکیے جائیں۔
اسے پاکستان میں کس قدر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2018ء میں پاکستان کی4 یونیورسٹیوں میں یکے بعد دیگرے جس طرح 4 پروگرام چند گھنٹوں کے نوٹس پر منسوخ کیے گئے، اس کی داد فریاد پروفیسروں اور طالب علموں نے ایک کھلے خط کے ذریعے پروفیسر نوم چومسکی سے کی۔