سال ختم ہونے کو آیا۔ آرٹس کونسل کراچی کی سالانہ عالمی کانفرنس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ اس مرتبہ یہ منعقد نہ ہوسکے گی۔
ساری دنیا میں ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کورونا، آنکھ سے نظر نہ آنے والا جرثومہ بالشت بھرکے بچے کو خاک میں ملا رہا ہے اور چھ فٹ کے کڑیل جوان اس کا شکار ہورہے ہیں، ایسے میں کیسی کانفرنس اورکہاں کی کانفرنس۔ لیکن رفتہ رفتہ بات آشکار ہونے لگی کہ دسمبرکے پہلے ہفتے میں کانفرنس ہوگی اوربیچ کھیت ہوگی۔
یہ کانفرنس شروع ہوچکی اور جب آپ کی نظر سے یہ سطریں گزریں گی تو وہ اختتام کو پہنچ رہی ہوگی۔ اس کے انعقاد کی داد جہاں احمد شاہ اور ان کے ساتھی کارکنوں کو دینی چاہیے، اس سے کہیں زیادہ تحسین ان ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کی ہونی چاہیے جنھوں نے کورونا کے خوفناک حملے کے باوجود اسے نظر انداز کیا، آرٹس کونسل پہنچے اور مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ ان حاضرین کوکیسے نہ شاباش کہیے کہ وہ اس باربھی کانفرنس میں شریک ہوئے اورکورونا کے خطرے کو خاطر میں نہ لائے۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں زہرا نگاہ صدرالصدور تھیں جو اپنی تین مختصر نظموں سے لوگوں کے دل دہلا گئیں۔ یوسف خشک جو ان دنوں اکیڈمی ادبیات کے سربراہ ہیں، سندھی کی بے بدل ادیب اور دانشور نور الہدیٰ شاہ، پیرزادہ قاسم، حسینہ معین، شاہ محمد مری اور مجھ ایسے کئی دوسرے اس افتتاحی سیشن میں شریک تھے۔
ہم سب کو اس بات کا قلق تھا کہ ایک طرف کورونا نے اپنی چھائونی چھائی ہے اور دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کی سرکارکے درمیان ایسی تنا تنی ہے کہ سرحد عبورکرنے کے لیے سکھ ہونا ضروری ہے، ایسے میں شمیم حنفی صاحب کا کیا ہو گا جو اس کانفرنس کے ابتدا سے "اسٹار" رہے ہیں اور ان کے بغیر ہم نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی کسی ادبی محفل کا تصور نہیں کیا ہے، لیکن سائنس یہاں ادب کا ہاتھ تھامنے آئی اور زوم پر وہ نمودارہوئے۔ ان سے پہلے گوپی چند نارنگ نے اپنی باتوں سے اس کانفرنس کا افتتاح کیا۔ ان کی باتیں سنتے ہوئے مجھے اپنا وہ کالم یاد آیا جو میں نے کئی برس پہلے لکھا تھا اورجس میں لوگوں کو بتایا تھا کہ وہ بلوچستان میں پیدا ہوئے، سرائیکی ان کی مادری زبان ہے لیکن انھوں نے ترک وطن کے بعد اردو کو اس طرح اپنایا کہ وہ ہندوستان میں اس کے سب سے بڑے وکیل اور جنبہ دار بن گئے۔
کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ "اردو والے" نہیں ہیں۔ کل جب وہ دلی سے گفتگوکر رہے تھے تو انھوں نے اردو کو ایک پہیلی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خطے میں 300 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کا علاقہ شمالی ہند سے دکن، بنگلور اورمیسور تک پھیلا ہوا ہے لیکن اردو، بولی ووڈکی فلموں، مقبول ٹیلی ویژن سیریلز میں بولی جاتی اور سمجھی جاتی ہے۔ انھوں نے ہندوستانی ویب سائٹ ریختہ کی مثال دی جس میں اردو زبان وادب کا ایک خزانہ ہے اور جس کے ممبروں کی تعداد 30 سے 35 کروڑ تک پہنچتی ہے۔ اپنی بات انھوں نے اقبال اشعار کے ایک شعر سے شروع کی جو کچھ یوں ہے کہ:
اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی پہیلی
میں میرؔکی ہم راز ہوں، غالبؔ کی سہیلی
افتتاحی اجلاس میں دہلی سے نارنگ صاحب، حنفی صاحب کے علاوہ لاہور سے افتخارعارف اور یاسمین حمید بھی شریک ہوئے۔ بات شمیم حنفی صاحب سے شروع ہوئی تھی انھوں نے بھی پرمغزگفتگوکی۔ اس وقت مجھے آرٹس کونسل کی بارہویں کانفرنس یاد آرہی ہے جس میں حنفی صاحب بہ نفس نفیس موجود تھے، وہ غالبؔ کے عاشق ہیں۔ کل بھی وہ اس کی باتیں کرتے رہے اور مجھے ان کی وہ باتیں یاد آتی رہیں جو انھوں نے بارہویں کانفرنس میں کرتے ہوئے کہیں تھیں کہ:
غالبؔ نے سرسید کی آئینہ اکبری کی جو تفریظ لکھی، وہ سرسید کو نہیں اچھی لگی تھی۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ہر زمانہ اپنے لیے ایک آئین وضع کرتا ہے بقیہ آئین اس کے سامنے بالکل بے معنی بن جاتے ہیں تو غالبؔ کا ایک عجیب وغریب معاملہ ہے۔ کسی زبان میں اس کا ترجمہ آپ سوچیں اقبال کے ترجمے بھی ہوئے ہیں اور شعرا کے منتخب اشعارکے بھی ترجمے ہوئے ہیں، لیکن غالبؔ کا معاملہ یہ ہے کہ کیا آپ اس پر یقین کریں گے کہ سنسکرت میں ان کے پورے دیوان کا ترجمہ ایک سال میں کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ جنوبی ہندوستان کی زبانیں جو بالکل دوسری روایت کی زبانیں ہیں یعنی تمل، تیلگو ہے، ملیا لم ہے۔
ان میں غالبؔ کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ تمل میں جو ترجمہ ہوا ان کا، اس کے بارے میں تو یہ ہے کہ اس کے مصنف جنھوں نے ترجمہ کیا، انھوں نے خود مجھے بتایا کہ ایک سال میں ان کی ساری کتابیں فروخت ہو گئیں۔ بنگالی میں ان کے اشعارکا ترجمہ جدید شعرا میں بہت معروف شاعر تھے۔ شکتی چترپادھیائے انھوں نے ہمارے ایک شاعر عین رشید کے ساتھ مل کر ترجمہ کیا تھا اور اس کی ایک لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ تو غالبؔ کا معاملہ یہ ہے کہ زبان، عقیدہ، مکتب خیال، نظریہ کوئی رکاوٹ بنتی ہی نہیں۔ کہیں کوئی دیوار وہ کھڑی ہی نہیں کرتا۔ وہ ایسا مرد آزاد اردو میں پہلی بار پیدا ہوا جس کے لیے کوئی دائرہ نہیں تھا۔ ہر دائرے سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے اور اس طریقے سے اس کی آواز اسی لیے پوری انسانیت کی آواز بن جاتی ہے۔
وہ عجب و غریب شخص تھا ایک ایسا ذہن جو نچلا بیٹھ نہیں سکتا تھا کبھی۔ صلاح الدین محمود میرے دوست تھے لاہور میں، انتقال ہوگیا۔ ان کا ایک بہت مشہور جملہ ہے کہ اردو کی سب سے اچھی نثر اور سب سے اچھی نظم لکھنے کی ذمے داری ایک ہی دکھیاری روح کے سر آئی تھی اور وہ دکھیاری روح غالبؔ کی تھی۔ غالبؔ نے گویا ایک متوازی دنیا بھی ہمارے لیے خلق کی ہے اور ایک طریقے سے آپ دیکھیں تو وہ آنے والے دورکا شاعر بن جاتا ہے۔ جس طرح میں نے عرض کیا کہ مجھے غالبؔ کی شاعری نے بہت سہارا دیا۔ میرے ایک بزرگ دوست تھے۔
دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ جب پہلی بار وہ انگلستان گئے تو وہاں گھر بہت یاد آتا تھا۔ ان کے ایک دوست کا ایک دن فون آیا ان کے پاس کہ بھئی کل تمہارے گھر آیا تھا، باقی باتیں آکے بتائوں گا۔ کہہ رہے تھے کہ وہ رات میری چین سے گزر ہی نہیں سکی اور میں سوچتا رہا کہ کیا بات گھر میں ہوگئی اور عجیب سی کیفیت تھی۔ اس وقت میرے سرہانے دیوان غالبؔ رکھا ہوا تھا۔ اس سے میں نے ایک شعرنکالا کہ:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پرکل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
اور ظاہر ہے اس شعر نے ان کو سہارا دیا۔ ایسی کیفیت عجیب وغریب ہے اور پتا نہیں کتنوں کی زندگی کا سہارا اس طریقے سے بن جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کو تمل، تیلگو، سنسکرت، ہندی کسی زبان میں آکر، مغرب کی ہر زبان میں آپ دیکھیے کہ غالبؔ کے مداح آپ کو ملیں گے اور یہ بھی سوچیے کہ اردو کے کسی شاعر نے اتنے کم شعروں کا دیوان، یعنی اٹھارہ سو، انیس سو، زیادہ سے زیادہ دو ہزار یعنی اشعارکی بنیاد پر ایسی زندگی کسی کو نہیں ملی، تو غالبؔ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اتنے کم شعر اس نے کہے۔
لیکن ہمارے ایک دوست خلیل الرحمان اعظمی کہا کرتے تھے کہ غالبؔ اردو کا اکیلا خوش قسمت شاعر ہے جس کی دھوبی کی ڈائری بھی کبھی نہ کبھی ضرور مل جائے گی۔ اس کے خط بھی مل جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں اس کی زندگی کی کہانی، عشق بہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن اس کے عشق پر آپ دیکھئے کہ غالبؔ اکیڈمی کے ذریعے ایک کتاب مرتب ہوگئی۔ وہ تو ایک ایسا خوش قسمت شاعر ہے جس نے بہت دکھ اٹھائے اور ہمیں دکھ اٹھانے کی طاقت دی اور اس کے بعد دنیا سے رخصت ہوگیا اور آج بھی وہ ہمیں ہمارا ہم عصر معلوم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں آنے والے زمانوں میں بھی غالبؔ جو ہے ایک ہم عصر شاعر کے طور پر زندہ رہے گا۔
شمیم حنفی صاحب کا کہنا ہے کہ غالبؔ کی شاعری نے انھیں بہت سہارا دیا تو یہی حال ہمارا بھی ہے۔ دل کی کیسی ہی کیفیت ہو، غالبؔ کاکوئی شعر دست گیری کے لیے آجاتا ہے۔ غالبؔ کی سہیلی ہماری بھی ہمرازودم ساز بن جاتی ہے۔