1973 کے آئین کے بعد بھی ملک میں جمہوری عمل کو چلنے نہیں دیا گیا۔ جنرل ضیاالحق کے طویل مارشل لا کے بعد 58 ٹو بی والی جمہوریت بحال کی گئی اور منتخب وزیر اعظم کو صدر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ منتخب وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو طاقتور ہونے سے روکا جائے، جب بھی وزیر اعظم اپنی "حد" سے باہر نکلنے کی کوشش کرے، صدر کے ذریعے اسے راہ سے ہٹا دیا جائے۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اقتدار میں آنے کے لیے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوگئے اور ان دونوں میں سے کسی کی بھی حکومت اپنی معیاد پوری نہیں کرسکی۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بالآخر 58-2 (B) کا خاتمہ کردیا گیا۔ جب منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے کا راستہ باقی نہ رہا تو 1999 میں جنرل پرویز مشرف، نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگئے۔
ملک کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے تجربے سے کیا سیکھا، اس کا جائزہ لیتے ہوئے اس مقالے میں بیان کیا گیا ہے کہ "ملک فوجی حکمرانی کے چار ادوار سے گزر چکا تھا اور آئین اپنی مرضی سے منسوخ یا معطل کیے جاتے رہے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے اس حقیقت کو سمجھنے میں کچھ وقت لیا کہ ملک کا سیاسی نظام دیگر اسباب کے علاوہ خود ان کی اپنی کمزوریوں اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے بھی مستقل خطرے میں رہا ہے، جب نواز شریف کی دوسری حکومت کو 1999ء میں ختم کیا گیا تو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو یہ احساس ہوا کہ ملک کے سیاسی منظر نامے سے ان دونوں کو نہ صرف جسمانی طور پر بے دخل کیا گیا ہے اور حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔
دونوں کو اپنی جلاوطنی کے دوران یہ احساس ہوگیا کہ اگر انھوں نے 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو کمزور نہ کیا ہوتا تو جمہوری نظام کو استحکام حاصل ہوتا اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنا اتنا آسان ثابت نہ ہوتا، یہی وہ احساس تھا جو دونوں کو قریب لایا۔ جس کے بعد اب تک کی ایک دوسرے کی شدید مخالف جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادتیں بالاخر میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے لیے رضامند ہوگئیں۔
یہ امر بھی ایک سچ ہے کہ میثاق جمہوریت کاغذ کا ایک ٹکڑا ثابت نہیں ہوا بلکہ یہ اتفاق رائے اور مفاہمت کے اصول پر قائم ایک حقیقی اور بار آور سیاسی عمل کی بنیاد بن گیا۔ 2009ء کا ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) صرف اس لیے ممکن ہوسکا کہ اس کے پس پشت میثاق جمہوریت کاجذبہ کارفرما تھا۔ میثاق جمہوریت 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دوبارہ ایک قوت محرکہ ثابت ہوا۔ اس میثاق نے نہ صرف معاشی، مالیاتی اور آئینی معاہدوں کو بحال کیا بلکہ اس کا اظہار ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاسی برتاؤ اور رویوں میں بھی نظر آتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ 2008ء اور 2013ء کے درمیان پی پی کی وفاقی حکومت نے پی ایم ایل (این) کی پنجاب میں قائم حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح نہ ہی پنجاب حکومت اور نہ ہی پی ایم ایل (این) نے پی پی پی کی زیر قیادت قائم وفاقی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرز عمل کے باعث پی پی پی اور پی ایم ایل (این)کی حکومتوں نے اپنی اپنی پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کی۔
پاکستان جن اہم سماجی تبدیلیوں سے گزررہا تھا مقالے میں اس کی نشاندہی بھی بڑے مؤثر انداز میں کی گئی ہے۔ اس حوالے سے آبادیاتی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ امر اجاگر کیا گیا ہے کہ " ہر سال آبادی میں 40 لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح آبادی اور وسائل کے درمیان عدم توازن ملک کے لیے ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔
بچوں کی شرح اموات کی صورتحال یہ ہے کہ 1000 زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 74 بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب کہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے والے 1000 بچوں میں سے 89 بچے زندہ نہیں بچ پاتے، آبادی کی شرح میں تیز رفتار اضافے کا نتیجہ بے روزگاری اور غربت، غذائی تحفظ کے خطرے اور ماحولیاتی تنزلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ خواندگی، تعلیم اور صحت کے مسئلے کا جامع جائزہ بھی اس مقالے میں موجود ہے جس کے مطابق پاکستان میں بالغان کی خواندگی کی مجموعی شرح 60 فیصد ریکارڈکی گئی ہے۔ خواندگی کی یہ شرح پنجاب میں 62، سندھ میں 60، کے پی کے میں 52 اور بلوچستان میں 44 فیصد ہے۔
اس وقت حکومت 2 فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کررہی ہے جو یونیسیف کی سفارش کردہ رقم کا نصف بھی نہیں ہے۔ قومی سطح پر 5سے 9 سال کی عمر کے 36.3% فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ چونکہ دیہی علاقے پرائمری سطح کے نجی اسکولوں تک زیادہ رسائی نہیں رکھتے، لہٰذا شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان شرح خواندگی میں بھاری تفاوت پایا جاتاہے۔ دیہی اسکولوں میں عمارت، پینے کے پانی، باؤنڈری وال، بیت الخلاء اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں کی کمیابی ہے۔ دیہاتوں میں بچوں کا اسکولوں میں نہ جانا یا تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھنے کی اہم وجوہ میں تعلیم کی ناقابل برداشت لاگت، اسکولوں کا دور واقع ہونا، اساتذہ کی کمی، تعلیم کو کارآمد نہ سمجھنے کا تصور، والدین کی جانب سے بچوں کو اسکول جانے کی اجازت نہ دینے جیسی وجوہ شامل ہیں۔ کارکنوں کی منڈی میں بچوں کی تعداد 18 لاکھ ہے۔
مقالے کے آخر میں عمرانی معاہدے کی گنجائش کو وسعت دینے کے لیے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ جن میں درج ذیل کافی اہم ہیں۔ ٭پارلیمنٹ کو بااختیار اور سماج کے محروم حصوں کے لیے توسیع شدہ کردار کو یقینی بناکر اسے ایک زیادہ نمایندہ ادارہ بناکر سول، فوجی عدم توازن کو درست کیاجاسکتا ہے۔ ٭دفاعی بجٹ پر پارلیمنٹ کا کنٹرول ہو۔ ٭ سینیٹ کو مالیاتی بل پر اختیار رکھنے والا ایک براہ راست منتخب ادارہ بناکر ایک وفاقی ادارے کے طور پر پارلیمنٹ کی حیثیت کو بڑھایا جائے۔ ٭ وفاق اور صوبوں کی متعلقہ آئینی عمل داریوں کو تسلیم کرتے ہوئے وفاق کو اور زیادہ معاون بنایا جائے۔ ٭ وقت گزرنے کے ساتھ ملک کی عدلیہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے جس کی عکاسی جرائم میں اضافے سے ہوتی ہے۔
گزشتہ چندسالوں میں عدالتی فعالیت صرف عدلیہ کی اعلیٰ ترین سطح تک محدود رہی ہے اور نچلی سطح تک عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچا سکی ہے۔ ٭ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کو کافی اہمیت دی جائے اور بے توجہی ولاپرواہی کے موجودہ رویے کو زیادہ فعال اور کار گزار رویے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭ ایسے کارکنوں کو مزدور حقوق کے باضابطہ دائرے میں لایا جائے جن کا بہی کھاتوں میں کوئی اندراج نہیں کیا جاتا ہے۔ ٭ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری یقینی بنائی جائے۔ ٭ پاکستانی سماج کو اسلحہ سے پاک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
٭صوبوں میں داخلی نقل مکانی منصوبہ بند اور منظم انداز میں ہونی چاہیے تاکہ اس سے سماجی اور سیاسی مسائل پیدا نہ ہو سکیں۔ ٭طالب علموں کو پڑھائے جانے والے نصابوں اورکورس کی کتابوں کو عقلیت پسند، معروضی، پیشہ ورانہ اور نظریاتی، مذہبی، علاقائی، نسلی اور صنفی تعصبات سے پاک بنانا چاہیے۔ ٭ عصر حاضر اور جدید طرزِ بودوباش میں میڈیا کی اہمیت کے باعث میڈیا کی سماجی ذمے داری توجہ کا مرکز ہونی چاہیے۔
٭عورتوں کی سماجی بندش سے آزادی اور زندگی کے ہر میدان میں شرکت کو مستقبل کے عمرانی معاہدے کا مرکزی نکتہ بنایا جانا چاہیے۔ ٭ مخصوص ملازمتوں سے عورتوں کی بندش ختم کر دینی چاہیے۔ ٭ بچوں کے حقوق کو تسلیم کیے جانے اور قوانین کے ذریعے ان کو تحفظ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ ٭ مختلف مذہبی برادریوں کو اظہار کی آزادی اور اپنے عقائد پر عمل کی مکمل آزادی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ان برادریوں کو اکثریتی یا اقلیتی کہنے کے بجائے مسلم، عیسائی، ہندو وغیرہ کے طور پر شناخت کیا جاسکتا ہے۔ ٭ ماحول کے حوالے سے موجودہ سماجی رویے بھی باعث تشویش ہونے چاہیے اور ایک ماحول دوست سماج کی تخلیق مستقبل کے عمرانی معاہدے کا ایک جز ہونا چاہیے۔
امید کی جانی چاہیے کہ وہ وقت بھی ضرور آئے گا جب ہمارے پالیسی ساز ادارے اس مقالے کی پیش کردہ سفارشات پر عمل درآمد کرکے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک فلاحی جمہوری ریاست میں تبدیل کردیں گے۔