Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hamari Nafsiat Kab Badle Gi?

Hamari Nafsiat Kab Badle Gi?

2020 کے اختتامی مہینے ہیں۔ یہ سال دنیا پر بڑا بھاری گزراہے۔ کورونا کی عالمی وبا اب تک قابو میں نہیں آئی ہے۔ لاکھوں ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ کروڑوں لوگ اس بیماری کی اذیتیں جھیل چکے ہیں۔ نہیں معلوم کہ اس سال کے آخر تک اس بیماری پر قابو پایا جاسکے گا یا نہیں۔ تاہم، امکانات اس کے بہت زیادہ ہیں کہ رواں سال کے خاتمے یا نئے سال کی پہلی سہ ماہی میں اس کی ویکسین دستیاب ہوجائے گی۔

اس کے بعد ہی دنیا کے حالات معمول پر آنا شروع ہوں گے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ملک یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس عالمی وبا نے ان کو کتنا معاشی نقصان پہنچایا ہے اور انھیں اس کی تلافی کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوگا۔

یہ حقیقت اب پوری طرح عیاں ہوچکی ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے معاشی طور پر ترقی یافتہ ہونا کیوں ضروری ہے۔ امریکا اور یورپ اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے باوجود آج اس لیے دیوالیہ نہیں ہوئے کہ ان کی معیشتیں مضبوط تھیں۔ یہ ملک جلد یا بہ دیر مشکل حالات سے باہر نکل آئیں گے لیکن وہ ملک جو اس وبا کے نمودار ہونے سے پہلے ہی معاشی بحران یا مشکلات کا شکار تھے ان کے لیے آنے والے سال میں بھی حالات زیادہ بہتر نہیں ہوں گے۔ اس تناظر میں زیادہ حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کیا جائے تو یہ ماننا ہوگا کہ پاکستان کو آنے و الے سال میں بھی کافی مشکل مسائل کا سامنا ہوگا۔

اس کی بنیادی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم ترقی کی دوڑ میں اپنے خطے کے ملکوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ لہٰذا معاشی طور پر بحال ہونے میں ہمیں ان کے مقابلے میں زیادہ وقت درکار ہوگا اور یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا، جب ہمارے حکمران اور پالیسی سازی پر بالادستی رکھنے والے ادارے اور عناصر مضبوط عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرات مندانہ فیصلوں کا بلاتاخیر آغاز کردیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ محدود مفادات سے بالاترہوکر حالات کا تجزیہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ موجودہ سنگین معاشی مسائل اور امکانی طور پر آنے والے ایک بڑے معاشی بحران سے کس طرح بچا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے پہلے بعض تلخ حقائق کو قبول کرنے اور بعد ازاں ان کے بھیانک نتائج سے بچنے کی قابل عمل حکمت عملی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی کا حصول ناممکن ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت کو طاقت کے زور پر چلایا جاسکتا ہے وہ شدید حماقت کا شکار ہیں۔ جبر اور طاقت کے زور پر لوگوں کو احتجاج، مزاحمت اور اختلاف کرنے سے تو عارضی طور پر روکا جاسکتا ہے لیکن طاقت کے ذریعے سرمائے کو اپنا مطیع بنانا ممکن نہیں۔ امریکا، چین، روس اور عرب ملکوں کی طاقتور ترین حکومتیں بھی سرمائے کے سامنے بے بس ہیں۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے۔

اس نے دنیا میں جو چاہا وہ کیا، اب بھی بہت سے ملک اور ان کے "بہادر" حکمران اس کے حکم سے سرتابی کی ہمت نہیں کرتے۔ امریکا جب چاہے کسی بھی ملک پر حملہ آور ہوکر اسے تباہ و برباد کرسکتا ہے، دنیا کے سمندروں اور فضاؤ پر اس کا راج ہے۔ اس قدر طاقت رکھنے کے باوجود امریکا کئی برسوں سے معاشی بحران میں مبتلا ہے۔

سرمائے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔ اس لیے وہ امریکا آنے اور وہاں گردش کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکا کی فوجی طاقت سرمائے کے سامنے بے بس ہے۔ حالات اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ ٹرمپ کی شکل میں ایک سخت گیر قوم پرست صدر امریکا کی ضرورت بن گیا ہے۔ امریکا کی عالمگیریت کب کی ختم ہوئی، آج وہ گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا مخالف ہے، جب حالات سازگارہوں گے۔ سرمایہ وہاں بغیر بلائے خراماں خراماں خود چلا آئے گا۔

اب آئیے چین کا جائزہ لیتے ہیں۔ صرف دو دہائیوں میں یہ ملک دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور فوجی طاقت بن گیا ہے۔ وہاں کمیونسٹ حکومت برسر اقتدار ہے، تمام اختیارات کمیونسٹ پارٹی اور اس کے سربراہ کی ذات میں مرتکز ہیں۔ اس ملک میں فیصلے فوراً کردیے جاتے ہیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کرایا جاتا ہے لیکن اس عالمی وبا نے چین کی معیشت کوبھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔

اس کی شرح نمو گری ہے اور آنے والے دن اس کے لیے بھی خاصے مشکل ثابت ہونے والے ہیں۔ امریکا کی طرح چین کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت کا فائدہ اٹھاکر اپنی ترقی کی شرح کو تیز کرسکے یا دنیا کے سرمائے کو اپنے یہاں لے آئے۔

ہندوستان اس کا پرانا حریف ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیچیدہ سرحدی تنازعات ہیں اور ان کے درمیان کشیدگی بھی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ لیکن چین اور ہندوستان دونوں کسی بڑی فوجی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کی دو طرفہ تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر ہوچکا ہے جنگ کی صورت میں یہ تجارتی حجم گر کر صفر ہوجائے گا اس کے ساتھ ہی خوف کی ایسے فضا پیدا ہوجائے گی جس سے چین اور ہندوستان کے اندر لگاہوا سرمایہ بھی پرواز کرجائے گا۔ امریکا دنیا کی پہلی، چین دوسری اور ہندوستان پانچویں بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔

انھیں معلوم ہے کہ باہمی کشیدگی اور اختلافات کو ایک محدود دائرے میں نہ رکھا گیا تو ان سب کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ روس میں بھی پیوٹن غیر معمولی اختیارات رکھتے ہیں، لیکن وہ بھی علاقائی اور عالمی تنازعات میں ایک خاص حد سے آگے جاکر ملوث نہیں ہوتے۔

ہمارے معاشی اور سیاسی مسائل زیادہ پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ ہماری مشکل یہ رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کی معیشت کو کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ فوجی آمروں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہمیشہ امریکا اور اس کے اتحادیوں پر غیر معمولی انحصار کیا۔ جنرل ایوب خان کے دور سے اس سلسلے کا آغاز ہوا جو ضیاء الحق کے دور سے گزرتا ہوا جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اس دوران اربوں ڈالر کی امداد ملی لیکن اس سے پاکستان کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ مغرب نے ایک ہاتھ سے پیسہ دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جانے لگا۔ امریکا کی نیابتی جنگ لڑنے کی وجہ سے پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں آگیا۔ ہزاروں لوگ بم دھماکوں میں مارے گئے اور صنعت و تجارت پر عملاً جمود طاری ہوگیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے واپس جارہا ہے۔ اس خطے میں اب کسی کے لیے ہم فوجی ضرورت باقی نہیں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امداد کے ملنے کا ذریعہ بھی بند ہوگیا ہے۔ اب ہمارا انحصار عالمی بینک اور آئی ایم ایف پر ہے۔

ان کی شرائط بڑی کڑی ہیں جس سے مہنگائی اور افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید ختم ہونے اور کورونا کی وبا کے باعث شرح نمو منفی میں جاچکی ہے۔ پاکستان اس وقت سخت مشکل میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے اور ماضی کی روش ترک کرتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغاز کیا جائے۔ ماضی کو بھول کر آگے کی طرف بڑھا جائے۔

جب دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں زبردست طاقت اور اختیار رکھنے کے باوجود سرمائے کو اپنے ملک میں لاکر بحران سے نکلنے پر قادر نہیں ہیں تو ہم کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ملک کے اندر سیاسی اختلاف رائے کو دوسرے لفظوں میں حزب اختلاف کو طاقت سے کچل کر معاشی بحران سے نجات پاسکتے ہیں؟ کیا معیشت کو طاقت سے چلایا جاسکتا ہے؟ کیا سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے سرمائے کو پاکستان کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے؟ سیاسی جبر کی صورت میں ابھرنے والے سیاسی بحران سے جو محدود سرمایہ باقی رہ گیا ہے کیا وہ بھی پاکستان سے باہر نہیں چلا جائے گا؟ یہ وہ سوال ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ عالمی قوتیں اپنے مسائل طاقت سے حل نہیں کرسکتیں لیکن ایک ہم ہیں جو طاقت اور جبر کو ہر مسئلے کا حل خیال کرتے ہیں۔

معیشت اور سیاست کی نفسیات بدل چکی، ہماری نفسیات کب بدلے گی؟

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.