آج اپنی ایک تحریر یاد آئی جو میں نے گیارہویں سارک ادبی کانفرنس میں پڑھی تھی۔ اس تحریر میں ادب اور امن کے رشتے پرگفتگو کی گئی تھی۔ ادب کی روح میں نفرت سے کنارہ کرنا ہے۔ اسی لیے ایک دانشور نے کہا تھا "کہ یہ ادب ہے جس میں انسانیت اپنی سچی تصویر دکھاتی ہے۔
ادب نے ابتدا سے آج تک انسانی سماج کے اندر موجود مختلف نفرتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ذات پات، عقیدہ، نسل، رنگ، طبقاتی اور لسانی تقسیم، فرقہ واریت اور آج اکیسویں صدی کی نئی نفرتوں کی باڑ ھ کے سامنے انسان دوستی، رواداری اور افہام و تفہیم کا بند ادب نے باندھا ہے۔
کہا جاتاہے کہ اس وقت دنیا میں چھ ہزار زبانیں ہیں۔ یہ زبانیں جو موجود ہیں، اور وہ زبانیں جو مٹ گئیں، ان کا ادب انسان کو انسان سے، فطرت اور اس کی عنایتوں سے عشق کرنا سکھاتا ہے۔ موہنجوڈرو سے برآمد ہونے والی عبارتیں جو پڑھی نہیں گئیں، جب پڑھ لی جائیں گی تو وہ یا کسی گرہستن کے گھر کا حساب ہوں گی، یا کسی محبت بھری نظم کا ٹکڑا ہوگا لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی جنگی گیت نہیں ہوگا۔ یوں بھی موہنجوڈرو سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ہے، وہاں کے شاعر جنگی گیت کیسے لکھتے؟
کھدائی میں برآمد ہونے والے مصریوں کے لکھے ہوئے وہ پیپرس جو چار ہزار برس پرانے ہیں، ان میں بھی ہمیں نفرت کا درس نہیںملتا، عشق کا ترانہ ہے، انصاف کی طلب گاری ہے اور دریائے نیل کی لہروں کے قصے ہیں۔
سوال اگر یہ اٹھے کہ نفرت کے نقوش مٹانے کے لیے ادب کیا کردار ادا کرتا ہے؟ تو یہ بات کرنے سے پہلے ہمیں سماجی سائنس کی بنیاد پر یہ تعین کرنا پڑے گا کہ سماج میں ذات پات، عقیدہ، نسل، رنگ، طبقاتی اور لسانی تقسیم اور فرقہ واریت کی بنیاد پر انسانوں نے انسانوں سے جو اجتماعی یا انفرادی نفرت کی ہے، وہ کس حد تک انتہا کو پہنچی ہے، اس انتہا کو جہاں میدان جنگ میں یا جگہوں، بازاروں اور گھروں میں انسان مختلف وجوہ کی بناء پر اپنے جیسے انسانوں کو ہلاک کرتا ہے۔ ہم آج بھی ان ہی انتہاؤں کی جھلکیاں دیکھ رہے ہیں۔
اس حوالے سے اگر ہم ہیلی، ویکس، فٹز اور رمزے جیسے موجودہ سماجی سائنس دانوں کی تحقیقات پر نگاہ ڈالیں تو وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ 10 لاکھ سال قبل مسیح سے سنہ 2000ء بعد مسیح تک اکیانوے ارب انسان پیدا ہوئے۔ ان میں سے بہ مشکل ایک سے دو فی صد انسان اجتماعی یا انفرادی طور پر اس قدر شدید نفرت میں مبتلا ہوئے کہ انھوں نے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو قتل کیا۔
سماجی سائنس دان اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر انسان متشدد اور نفرت پسند نہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی مثال عالمی ادب ہے جو انسانوں کے دلوں میں نرمی، تحمل، راواداری اور محبتوں کے بیج بوتا ہے۔
گوتم بدھ نے ذات پات کی بھیانک تقسیم کے خلاف آواز بلند کی تو یہ نہیں کہا کہ اس بھیانک غیر انسانی نظام کے خلاف تلوار اٹھالو۔ وہ لوگوں کے دلوں میں محبت، تحمل رواداری کے بیچ بوتے رہے، کالنگا کے میدان میں لاکھ سپاہیوں کی لاشوں کے درمیان کھڑے ہوئے اشوک کے دل میںیہی بیج پھوٹا تو سارے ہندوستان میں، بلخ اور بامیان میں سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا، ان کے گھروں میں رکھی ہوئی چھریاں، عورتیں سبزی کاٹنے کے لیے تیز کرتی تھیں۔ اس دنیا کی ہر زبان، ہر زمانے اور ہر زمین کے ادیب کا ذہن افق تا افق آسمان کی طرح پھیلا ہوا ہوتا ہے، تب ہی وہ اپنے دامن میں انھیں بھی سمیٹ لیتا ہے جو نفرت کرتے ہیں۔ نفرت کرنے والوں کے دلوں پر پڑے ہوئے زنگ آلود قفل کو مہاتما گاندھی نے اور نیلسن منڈیلا نے اپنے لفظوں سے کھولا۔
تلسی داس، کالی داس، کبیر، میرا بائی، امیر خسرو، میر، غالب، مخدوم، سردار جعفری، کیفی، جوش اور ساحر نے انسانوں کو قریب لانے اور دلوں کو جوڑنے کی بات کی۔ ہمارے رتن ناتھ سرشار کا "فسانہ آزاد" ہندوستان کی مشترکہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک عظیم الشان منظر نامہ ہے جس میں ہندو مسلمان، عورت، مرد، سب ہی ایک پھیلی ہوئی اور عظیم تہذیب کا حصہ ہیں۔ اسے پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کتنی بڑی مشترک تہذیب کے وارث ہیں، یہ جان کر دلوںمیں ایک دوسرے کے لیے کیسی گنجائشیں نکلتی ہیں۔
1936ء کی ترقی پسند تحریک ہو یا برمی زبان کی کھٹسان ادبی تحریک، ہمارے پریم چند اور سجاد ظہیر ہوں یا برما کے منتھو وا، ان لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں انسانی غم و اندوہ اور ان کے زمینی مسائل کے بارے میں لکھا۔ اسی طرح بنگلہ ادب میں ٹیگورنے مذہب اور ذات پات کی تقسیم سے بلند ہوکر گیتا نجلی، گورا اور کابلی دالا جیسی تخلیقات دنیا کو دیں۔ سرت چندر چٹر جی، رقیہ سخاوت حسین، نذر الاسلام، علاء الدین آزاد، سید شمس الحسن، سید شمس الرحمن، سلینا حسین انسان دوست ادیبوں کی ایک بہت بڑی برادری ہے جس نے انسانوں کے دلوں سے نفرتوں کو دھونے کی کوششیں کیں۔
اسی طرح پنجابی، سندھی، کشمیری، تامل، تیلگو ہماری کون سی زبان ہے جس کے لکھنے والوں نے اپنے قلم سے سوئی کا کام نہیں لیا اور سماج کی ادھڑی ہوئی بُنت کو اور دلوں کو رفو کرنے کی کوشش نہیں کی۔
برصغیر میں جب فرقہ وارانہ بنیاد پر نفرت کی کالی آندھی چلی تو ہمارے کچھ ادیبوں نے مایوسی کے عالم میں یہ اعلان کیا کہ انسان مرگیا ہے۔ عین اسی وقت کرشن چندر، منٹو، عصمت، احمد ندیم قاسمی، خوش ونت سنگھ، بھیشم ساہنی، فیض، امرتا پریتم، سردارجعفری، کیفی، مخدوم، تاباں، جوش، کملیشور، جگن ناتھ آزاد، ساحر، اور ان کے بعد آنے والے رتن سنگھ، قرۃالعین حیدر، مہندرناتھ، جوگندر پال، جیلانی بانو اور ان گنت نامور اور گمنام ادیبوں کی تحریروں میں اس زندہ انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں یہ انسان ہمیشہ سے موجود تھا اور ہمیشہ موجود رہے گا وحشت اور بربریت کے زمانوں میں بھی ادب اور ادیب نے اس انسان کو زندہ رکھا ہے۔
ہمارے ان ادیبوں کی تحریریں، فرقہ واریت سے لڑائی لڑتی رہیںاور بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرتی رہیں۔ بعد میں آنے والوں نے بھی یہ کام کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔ مہاشویتا دیوی، جیا مترا، شو مورتی، گلزار، وبھوتی نرائن رائے، اُدے پرکاش نرائن، انوش مالویہ، سروپ دھرو، اسی طرح پاکستان میں شیخ ایاز، اختر جمال، امر جلیل اور ان گنت دوسرے نفرتوں کے خلاف لکھتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ادیبوں کی نئی نسل میں ہم ارون دھتی رائے کو کس طرح بھلا سکتے ہیں، جس نے کہا کہ اگر ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف لکھنا اور برصغیر کے کچلے ہوئے پسے ہوئے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے حق میں لکھنا غداری ہے تو سن لیا جائے کہ میں غدار ہوں۔ اور یہ غداری میں کرتی رہوں گی۔
ادیب کا قلم ہر وضع کی نفرتوں کے خلاف لڑتا ہے۔ صنفی بنیادوں پر ایک نفرت عورتوں سے کی گئی اور انھیں غیر انسان سمجھا گیا۔ اس نفرت کے خلاف جون اسٹوارٹ مل، مارکس، اینگلز اور جارج برنارڈ شا نے اور اس کے بعد آنے والے بہت سے مردوں اور عورتوں نے ان صنفی تعصبات کو ختم کرنے اور دونوں صنفوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام سولہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا اور بیسویں صدی میں یہ اپنے عروج کو پہنچا۔ ورجینیا وولف سے سمیون دی بووار، ٹونی مورسن اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی خواتین ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اپنی تحریروں سے صنفی تعصبات کے بارے میں لکھ رہی ہے۔
اسی طرح ہمارا دلت ادب ہے جو ذات پات کے تعصبات کے کانٹے چن رہا ہے۔ بلیک ادب ہے جو رنگ اور نسل کے تعصبات کے خلاف نبرد آزما ہے، یہودی اور عرب ادیب ہیں جو مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے بارے میں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اس ’انسان، کے ساتھ کھڑے ہیں جو یہودی بھی ہے اور مسلمان بھی۔ عراق اور افغانستان پر امریکا کے ظالمانہ اور غاصبانہ حملوں کے خلاف بھی دنیا میںمتعدد ادیبوں نے لکھا اور وہ شاعر ہیں جنھوں نے خود کو "جنگ مخالف شعرا"کا نام دیا ہے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کتنے بہت سے ادیبوں نے فاشزم کے خلاف لکھا اور امریکی سامراج کی بوئی ہوئی نفرتوں کی بارودی سرنگوں کو اپنے قلم کی نوک سے صاف کیا۔ برٹرینڈ رسل، ژاں پال سارتر، فرانز فینن سے ایڈورڈ سعید، نجیب محفوظ اور پہلی اور دوسری دنیا کے متعدد ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے نفرتوں اور عصبیتوں کی آگ کو بجھانے کا کام کیا۔
دنیا بھر کی زبانوں میں وہ بڑا ادب ہمیں رنگ دکھاتا ہے جس نے انسانی سماج کے اندر موجود مختلف نفرتوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ذات پات، عقیدہ، نسل، رنگ، طبقاتی اور لسانی تقسیم اور فرقہ واریت کے زہر کو انسانی سماج سے نچوڑنے کی کوشش کی ہے۔
ادب ققنس( (PHOENIX کی طرح ہے جو بدترین فرقہ واریت، مذہب، رنگ، نسل یا طبقاتی نفرت کی آگ سے جنم لیتا ہے اور انسان دوستی کا گیت گاتا ہے۔ جس طرح فطرت اپنی عنایتیں سب پرکرتی ہے، اسی طرح ادیب ان کے لیے بھی لکھتا ہے جو نفرتیں تقسیم کرتے ہیں، اوران کے دلوں سے نفرتوں کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔ تب ہی ادیب یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم "انسان" کے ساتھ کھڑے ہیں۔