ہرسال کی طرح عید الاضحی آئی اور گزر گئی۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر قربانیاں کیں لیکن ماضی والی تیزی دیکھنے میں نہیں آئی۔ وجہ عیاں ہے، لوگوں میں کورونا کا خوف تھا اور حکومت نے بھی زیادہ نرمی دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ پنجاب میں سخت لاک ڈاؤن کیا گیا، تاجر برادری ناراض بھی ہوئی لیکن ان سے کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔
اب اگلے پندرہ دنوں تک اندازہ ہوجائے گا کہ لوگوں کے بڑے پیمانے پرملنے جلنے کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں، اگر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ خطرناک بات ہوگی کیونکہ تھوڑے ہی دنوں بعد محرم الحرام کا آغاز ہوجائے گا اور اس دوران بھی بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوں گے۔ امید تو یہی کی جاتی ہے کہ لوگ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کریں گے اور صوبائی ووفاقی ادارے بھی ان ہدایت پر عمل درآمد کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
عیدالاضحی کے بعد حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتیں ایک موثر لائحہ عمل تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ امکانات نظر آتے ہیں کہ محرم کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں شدت پیدا ہوگی۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ غیر لچکدار انداز اختیار کرتی ہے یا پھر حکمت اور دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے محفوظ کرنے کی کوئی تدبیر نکالتی ہے۔ عام طور پر خیال یہی ہے کہ موجودہ حکومت کو حزب اختلاف کی جانب سے کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں ہے کیونکہ حکومت مخالف جماعتوں کے درمیان وہ ہم آہنگی موجود نہیں ہے جو کسی بڑی سیاسی تحریک کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ طاقتور حلقے جو کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ان کے سامنے بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ صورتحال اپنی جگہ لیکن چند اشارے ایسے بھی مل رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی معاشی، سیاسی اور انتظامی کارکردگی سے مذکورہ حلقے بھی زیادہ خوش نہیں ہیں۔
اس تناظر میں حکومت پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے دو انتہائی قابل اعتماد معاونین خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ اید روس سے استعفے لے لیے گئے ہیں۔ دونوں سابق معاونین خصوصی کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومت پر ہونے والی تنقید کی وجہ سے استعفے دیے ہیں۔ وزیر اعظم آفس نے جس برق رفتاری سے ان استعفوں کو منظور کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ انھیں عہدوں سے ہٹانا طے ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا پر الزام لگایا جاتا تھا کہ انھوں نے ہندوستان سے ادویات درآمد کرنے میں ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی تاہم، جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک ڈاکٹر ظفر مرزا کی کردار کشی مناسب نہیں ہوگی۔
وزیر اعظم نے اپنی پسند کی کابینہ تشکیل دی تھی۔ انھوں نے ان تمام غیر منتخب افراد کو معاونین خصوصی سمیت دیگر عہدوں پر فائز کیا تھاجو ان کی نظر میں غیر معمولی پیشہ وارانہ مہارت اور بہترین ساکھ کے مالک تھے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کے بارے میں مجموعی تاثر یہی ہے کہ وہ ایک متین اور سنجیدہ انسان ہیں۔ انھوں نے اپنے فرائض بہتر طریقے سے سرانجام دیے۔
میڈیا اور مخالفین کے خلاف کبھی غیر مہذب اور جارحانہ انداز اختیار نہیں کیا۔ وہ عالمی ادارہ صحت چھوڑ کر پاکستان کی "خدمت" کرنے آئے تھے۔ حکومت کو اب ان کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ان کے کام سے مطمئن نہیں تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی رہا ہو لیکن ایسا تھا تو اس پر حیرت ضرور ہوتی ہے کیونکہ کورونا کے خلاف جو حکمت عملی اختیار کی گئی تھی اس کا فیصلہ صرف ڈاکٹر مرزا نے نہیں کیا تھا، انھیں غالباً بتادیا ہوگا کہ اس حوالے سے کیا پالیسی بنائی گئی ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہوگا کہ وہ حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کی تیار کردہ حکمت عملی کا دفاع کریں جو انھوں نے کیا۔
اس سے زیادہ ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ ٹی وی پر جب وہ کورونا کے بارے میں بریفنگ دیا کرتے تھے تو ان کے لہجے سے صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی دباؤ کے تحت حکومت کی صفائیاں پیش کررہے ہیں۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس کا استعفیٰ بھی کافی معنی خیز محسوس ہوتا ہے۔
ان کا موقف تھا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے ان پر جو تنقید کی جارہی تھی وہ اس سے دلبرداشتہ ہوکر اس منصب سے سبک دوش ہورہی ہیں۔ حکومت میں موجود وہ عناصر جو انھیں بہ وجوہ پسند نہیں کرتے تھے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن کو ایس ای سی پی میں ایک پرائیویٹ کمپنی کے طور پر رجسٹر کراکر غلط اقدام کیا تھا۔ جہاں تک اس دوہری شہریت کے اعتراض کا معاملہ ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوہری شہریت کی وجہ سے معاونین خصوصی کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ دوہری شہریت پر وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا، عدالت کے مطابق وزرا اور معاونین کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے بعد کیا حکومت مستعفی ہونے والے دونوں معاونین خصوصی کو اپنے استعفے واپس لینے کی ہدایات جاری کرے گی؟ حکومت ایسا نہیں کرتی تو اس کا نتیجہ یہی نکالا جائے گا کہ وزیر اعظم کا انتخاب غلط تھا اور یہ دونوں سابق معاونین خصوصی اعلیٰ پیشہ وارانہ خوبیوں کے مالک نہیں تھے اور وزیر اعظم نے اس قدر نااہل افراد کو عوام کے منتخب نمائندوں پر ترجیح دے کر ایک غلطی کی تھی۔ حقائق کچھ بھی ہوں لیکن اس طرح کے استعفے کسی بھی حکومت کے لیے اچھا شگون نہیں ہوا کرتے۔ کسی بھی سویلین حکومت کے لیے معاشی کارکردگی اور نظم حکمرانی دو فیصلہ کن عوامل ہوتے ہیں۔
معاشی کارکردگی کا براہ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے۔ ملک میں ترقی نہیں ہوگی تو روزگار کے ذرائع کیسے پیدا ہوں گے، کاروبار فروغ نہیں پائے گا تو حکومت کی آمدنی میں اضافہ کہاں سے ہوگا۔ لوگوں کی قوت خرید نہیں بڑھے گی تو طلب سکڑ جائے گی اور صنعت کا پہیہ سست پڑ جائے گا۔ جب معاشی ترقی نہیں ہوگی تو براہ راست ٹیکس لگا کر عوام سے پیسے وصول کیے جائیں گے جس سے مہنگائی اور بے روزگاری مزید بڑھ جائے گی۔
اس صورتحال کے نتیجے میں لوگوں میں بے اطمینانی اور بے چینی بڑھے گی جو کسی بھی منتخب حکومت کے لیے سب سے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ عوام ایک بار مایوس اور متنفر ہوجائیں تو انھیں منانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی معاشی کارکردگی سے سخت پریشان نظر آتی ہے۔ حزب اختلاف کو بدعنوان، چور یا ڈاکو کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، لوگوں کو روزگار چاہیے، تعلیم اور صحت چاہیے۔ مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کا جینا دوبھر ہوجائے تو وہ کسی بات پر اعتبار نہیں کرتے، معاشی ترقی ہورہی ہو، شہریوں کا معیار زندگی بلند ہورہا ہو، انھیں اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ نظر آرہا ہو تو وہ حکمرانوں کی غلط باتوں پر بھی اعتبار کرلیتے ہیں۔
معاشی ترقی کے بعد نظم حکمرانی کا عنصر بڑا اہم ہوتا ہے۔ لوگوں کو عدالتوں سے جلد، سستا اور شفاف انصاف ملے، پولیس شہریوں کا احترام کرے، امن وامان کے حالات بہتر ہوں، تعلیم کا معیار بہتر ہو، صحت کی بنیادی سہولتیں لوگوں کو حاصل ہوں، روز مرہ کے مسائل فوراً حل ہوں اور انھیں رشوت اور سرخ فیتے کی لعنت سے نجات ملے۔ نظم حکمرانی اچھا ہوتو عوام اچھے کل کی امید پر مشکل وقت بھی گزار لیتے ہیں لیکن اچھے دنوں کی امید نہ ہوتو ان سے صبر و سکون سے مشکل وقت کاٹنے کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔
معیشت کا پہیہ نہ چل رہا ہو اور نظم حکمرانی بھی اچھی نہ ہو تو وہ حلقے بھی مایوس ہونے لگتے ہیں جو کسی بھی سیاسی بندوبست کی ترتیب اور تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح کے حالات پیدا ہونے لگیں تو حکومتوں پر دباؤ بڑھایا جانے لگتا ہے۔ آپ چاہیں نہ چاہیں استعفے آنے لگتے ہیں، اتحادی بھی نازو انداز دکھاتے ہیں، مخالف جماعتیں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے لگتی ہیں، تعریف و توصیف کرنے والوں کے لہجے بدلنے لگتے ہیں اور برسر اقتدار جماعت میں کئی لوگ درپردہ وزیر اعظم کی مسند پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے شروع کردیتے ہیں۔
ایسے آثار نمودار ہونے لگیں تو حکومت کوئی بھی ہو اسے خبردار ہوجانا چاہیے اور اسے الزام اور دشنام کی سیاست چھوڑ کر معیشت اور نظم حکمرانی کو بہتر بنانے کے کام میں دن رات ایک کردینا چاہیے ورنہ کوئی ناخوشگوار صورت حال کسی بھی وقت پیدا ہوسکتی ہے۔