سالہا سال تک ہندوستان سے پوسٹ کارڈ آتے رہے۔ کچھ قریب ترین رشتہ داروں کے اورکچھ عرشی چچا (امتیاز علی خان عرشی) چند رضا لائبریری رام پور سے چچا عبدالواحد خان کے جنھیں ہم رکھن چچا کہتے تھے اور جوگندر پال کے پوسٹ کارڈ۔ مجھے نہیں یاد کہ جوگندر جی نے کبھی پوسٹ کارڈ کے علاوہ لفافہ بھی بھیجا ہو۔ اب ان کے افسانوں کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھی ہوں تو ان کے لکھے ہوئے پوسٹ کارڈ نگاہوں میں گھوم رہے ہیں۔
وہ برصغیر کی ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے ایک بار نہیں، دو بار ترک وطن کا صدمہ سہا۔ پاکستان وجود میں آیا تو زندگی کا پشتارہ لپیٹ کر سیالکوٹ سے ہندوستان چلے گئے لیکن مڑ مڑ کر اپنی جنم بھومی کو دیکھتے رہے۔ وہاں سے اٹھے تو غم روزگارکے سبب سالہا سال افریقا میں مقیم رہے۔ وہاں پڑھاتے رہے لیکن جب وطن کے لیے ہوک کچھ زیادہ ہی اٹھی تو واپس ہندوستان آئے اور دلی میں جم کر بیٹھ گئے۔
وہیں سے انھوں نے ادب کی اقلیم میں اپنی چھاؤنی چھانی شروع کی اور جب رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے اعلیٰ کہانیاں، ناول اور سکریتا پال کمار جیسی بے مثال بیٹی کو چھوڑ گئے۔
سکریتا انگریزی میں شاعری کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں، اپنے چہیتے پاپا کی تحریریں جمع کرتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزیز از جان ماں کرشنا کی خدمت میں دن رات ایک کرتی رہتی ہیں۔
میں جب بھی دلی گئی۔ ایسا بہت کم ہوا کہ میں کرشنا جی اور جوگندر جی کی خدمت میں حاضر نہ ہوئی ہوں۔ اسی دوران سکریتا سے بھی دوستانہ ہوگیا۔ وہ بہت ارمانوں سے ملتی ہیں۔ ہم دونوں تعلق اور دوستی کے اس دھاگے سے بندھے ہوئے ہیں۔ جو زبانوں اور زمینی رشتوں سے ماورا ہے۔ اس میں مشہور شاعر، فلم نگار اور کہانی کار گلزار بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ سال بھر پہلے گلزار، سکریتا، ارون مہیشوری اور خاکسار دلی کے ایک نیول کلب میں اکٹھے ہوئے اور دل کے داغ ایک دوسرے کو دکھاتے رہے۔
اب چند ہفتوں پہلے سکریتا کا فون آیا کہ میں پاپا کی وہ کہانیاں اکٹھا کررہی ہوں جو انھوں نے تقسیم کے حوالے سے لکھی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان پر چند سطریں آپ لکھ دیں۔
جوگندر جی کی کہانیوں پر لکھنا اعزاز کی بات ہے، سو میں اس اعزاز سے عہدہ برآ ہورہی ہوں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ سکریتا سے جو وعدہ کیا تھا، اس میں کچھ دیر ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی قابل قدر تصنیف "اردو افسانہ: سوا صدی کا قصہ" میں جوگندر پال کو ایک شاداب بوڑھا لکھا ہے۔ مجھے ان کے اس جملے سے قدرے اختلاف ہے۔ "شاداب" وہ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے عمر لکھنے میں بسرکر دی۔ انھوں نے ناول لکھے "پار پرے۔ خواب رو" اور ان کی دوسری تحریریں اردو کے ترقی پسند ادب میں اضافہ ہیں۔
اپنی بیشتر تحریروں میں وہ کہیں بھی موت سے دامن نہیں چھڑا سکے۔ یوں تو کوئی بھی اہم تخلیق کار موت کی ناؤ کا قصہ لکھنے سے انکار نہیں کرسکتا لیکن جوگندر پال نے سیالکوٹ سے دہلی کے سفر میں جتنی کٹی پھٹی لاشیں دیکھی تھیں، انسانوں کو جس طور انسانوں کا دشمن دیکھا تھا، اس کے بعد وہ بھلا کس طرح گلتی ہوئی لاشوں اور خانماں برباد گھرانوں سے نگاہیں چرا سکتے تھے۔
تقسیم کا غم ان کی کہانیوں میں سائے کی طرح ساتھ چلتا ہے۔ کبھی کبھی مردوں پر زندوں کا گمان گزرتا ہے اور کبھی زندہ مرے ہوئے ہوتے ہیں۔ گھرو ں کو لکھنے کے بارے میں ان کا ایک الگ سبھاؤ ہے۔ لکھتے ہیں "بوڑھی دادی کا گھر اس سے بھی سو سال بوڑھا تھا۔ " ان کی کہانی "دادیاں " ایسی ہی دادیوں کا قصہ ہے جو ایک ہیں، جو بہت سی ہیں اور جن میں ہمیں اپنی دادیوں کی شبیہ نظر آتی ہے۔ وہ دادیاں جو بٹوارے کی راہ میں کھو گئیں۔
لاکھوں لوگوں کی طرح جوگندر سے بھی اپنا گھر چھٹ گیا۔ اس کا قلق انھیں ہمیشہ رہا۔ "سانس سمندر" میں وہ لکھتے ہیں :بڑے تو ہم گھر کے اندر ہی ہوپاتے ہیں۔ بے گھروں کو بھی کبھی بڑا ہوتے دیکھا ہے؟
گھر کیا ہوتا ہے؟ جس چھت تلے بیوی بچوں کے ساتھ رہے ہوں، وہ گھر ہے!…
نہیں، تمہیں کیا پتہ؟ گھر وہاں ہوتا ہے جہاں پاس پڑوس میں ہی باپ، دادا کی قبریں ہوں اور ان کا فاتحہ پڑھنے کے لیے انھی کی رفاقت میں پہلے ہم کشاں کشاں اپنی گلی کے نکڑ پر جا پہنچیں اور پھر نکڑ سے ایک آدھ فرلانگ کے کچے راستے پر ہی قبرستان میں …"
بٹوارے نے بنگال اور پنجاب کو دوٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ اس تاسف کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں : "یہ دونوں سپاہی میری ہی بولی بولتے ہیں۔ ہمیں ایک ہی بولی میں الگ الگ جذبوں کی تربیت دی گئی ہے۔ جس سے ہم ایک سے دو ہوگئے ہیں۔ دو پنجاب۔ دو چین۔ دو ویت نام، دو جرمنی، دو جہان… میری ماں ایسٹ میں ہے اور میں یہاں ویسٹ میں اور ایسٹ اور ویسٹ میں دو فوجیں کھڑی ہیں، کسٹمز آفس میں میرا کیک پھوڑ پھوڑ کر دیکھا جارہا ہے جو میں نے اپنی ماں کو اس کی سویں سالگرہ پر بھیجا ہے۔
…کہیں … کہیں اس میں ٹائم بم نہ ہو۔ ہوتو کیا ہے؟ میری بوڑھی ماں یہ کیک رو رو کر، ہنس ہنس کر بڑے پیار سے ٹائم بم سمیت کھا جائے گی۔ یہ ٹائم بم اس کے پیٹ میں کوکھ کے قریب پہنچ کر پھٹ جائے گا اور میرے ذہن کے جغرافیے سے ایسٹ کا نشان ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا، سورج کبھی طلوع نہ ہوگا، مغرب میں رات اور شام کے درمیان الٹا لٹکا رہے گا اور یہ میلی میلی روشنی اس کے خون سے سرخ رو ہوکر ساری دنیا کو آسیب زدہ کردے گی اور سب اپنے اپنے خوف سے پاگل ہوکر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔ "
وہ انسانوں اور ان کے رشتوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں : " مگر بنی نوع انسان بے چارہ اپنے حافظے کے کانٹے کاکیا کرے جو اس کے ذہن میں ایک سیدھ میں گڑا ہوتا ہے؟ اسے باہر نکال پھینکے؟ کیسے؟…… اپنے حافظے سے ہی اس کی انسانی خو منسوب ہے۔
جس کے باعث وہ کائنات کی چھت پر متمکن ہے۔ سوچ کر بتایے۔ جب فدوی کو اپنی گمشدہ بہن کا چہرہ بھول جائے گا تو مجھ میں اور ایک بندر میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اگر اپنا ماضی اسے مستقبل میں پیش نہ آتا رہے تو اس کی تہذیب کیوں کر آگے بڑھتی رہے گی؟ مجھے اپنے خون میں کسی عہد گزشتہ کے گھوڑے کی ٹاپ کی آہٹ آنے لگی ہے جب میرے اجداد میں سے کوئی روٹی روزی کی تلاش میں اپنے مستقبل کے پیچھے جادوئی گھوڑے پر اڑتے ہوئے وسط ایشیا سے سرزمین ہند میں وارد ہوا تھا اوراپنے گردو پیش حسن و خوراک کی افراط دیکھ کر خوشی سے چلا اٹھا تھا۔
اور دلی کے نواح میں کسی مقامی لشکر میں بھرتی ہوگیا تھا اور جو عورت اسے سب سے پہلے نظر آگئی اسے ہی قدرت کا عطیہ سمجھ کر اس سے فوراً نکاح پڑھوا لیا تھا …… اور یہیں بس گیا تھا…… واپسی؟ چونکہ اسے معلوم تھا کہ واپسی پر روک ٹوک نہیں، اس لیے اسے کبھی واپس جانے کا خیال ہی نہ گزرا تھا۔ جب سرحدوں پر پہرے نہ ہوں تو دور دراز پر بھی ہم اصل میں اسی پرانے گھر کی چار دیواری میں جوں کے توں بیٹھے ہوتے ہیں۔ مگر گھر کا ایک فرد سرحد کے اس پار ہو اور دوسرا اس پار اور خیرو خبر پر کڑا پہرا ہوتو اس کا جی کیوں نہ چاہتا رہے کہ موقع ملتے ہی اچھل کر ادھر جاپہنچے۔
ان کا ایک شاہکار افسانہ "جناب عالی" ہے۔ اس کا کردار نہایت فدویانہ انداز میں کہتا ہے: ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے باعث ہر دو جانب زندگی زیرو زبر ہوگئی ہے۔ مگر جناب عالی، آپ کا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ پیشہ ور دہشت گرد تو بے روک ٹوک آجا رہے ہیں مگر دھر وہ لیے جاتے ہیں جو اپنی فطری محبتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے جھٹ ادھر سے ادھر کا قصد کرلیتے ہیں۔
ذرا سوچیے، ماں بہن سے گلے ملنے کی بے تاب خواہش آدمی کو دہشت گرد بناتی ہے یا درویش؟ سرکار کے شکوک کا نشانہ بن بن کے اگر کوئی شخص واقعی دہشت گرد نہ بن جائے تو یہ امر زیادہ تعجب خیز ہوگا۔ میں … مجھے تو سرحد پار کے اعزا کی سالہال سال کی جدائی کے بعد اب معلوم ہونے لگا ہے کہ وہ… میرے منہ میں خاک!… مرکھپ چکے ہیں۔
مرحومین سے تو مرے بغیر ملا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا ایک نہایت ذمے دار شہری ہونے کے باوصف، میں سوچتا ہوں کہ کسی پیشہ ور دہشت گرد کا حلیہ اختیار کرکے سرحد کی طرف بڑھ جاؤں اور ادھر یا ادھر کی گولیوں کی بوچھار میں جان کو وہیں چھوڑ کر سرپٹ بھاگتے ہوئے اپنی دادی کی گود میں جاگروں۔ نہیں، جناب عالی، میں بڑا زندگی پرست انسان ہوں، تاہم جب زندگی ہی موت بن جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مرکر ہم جی جائیں گے اور بچھڑے ہوؤں سے جا ملیں گے اور ہمیں چین آجائے گا۔ "
جوگندر پال کی ان کہانیوں میں بٹوارے کا بُغدا انسانوں کا قیمہ کرتا رہتا ہے۔ سیاست جو چاہے کرے اور کہے لیکن انسان ابھی زندہ ہے، وہ اپنے رشتوں کو گلے لگانے کے لیے بے قرار ہے اور اس کی یہ بے قراری ابھی ختم نہ ہوگی۔