جدید تاریخ میں اگست ایک خونیں مہینہ ہے۔ یوں توکون سی گھڑی ہے، جب انسان نے انسان کا خون نہیں بہایا لیکن دوسری جنگ عظیم میں نہتے جاپانی شہریوں کا جو قتل عظیم ہوا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ چند منٹ کے اندر ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے جیتے جاگتے انسان راکھ بن کر اڑ گئے، جو بچ گئے وہ اپنی موت کی دعا مانگتے رہے۔
یہ دوسری جنگ عظیم کے صرف 2 شہروں کے انسانوں کا قصہ ہے۔ ان کے علاوہ اس جنگ میں مجموعی طور پر دنیا کے 2کروڑ انسان لقمہ اجل ہوئے۔ چھوٹے بڑے سیکڑوں شہر اور بستیاں خاک میں مل گئیں، کروڑوں پیڑ کوئلہ ہوئے اور لاکھوں جانور صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
اگست کا مہینہ آتا ہے تو دل دہلنے لگتا ہے۔ یہ خیال آتا ہے کہ کون جانے پھرکب کس سنگ دل کے ذہن میں نسلی صفائی کا اور فتح مندی کا سودا سمائے اور ایک بار پھر دنیا جنگ کے جہنم میں جھلسنے لگے۔ نسل انسانی خاتمے کی طرف دھکیل دی جائے اور ہماری اہم ادیب حجاب امتیاز علی کے مطابق دنیا " پاگل خانہ " بن جائے۔
پروفیسر سکندر مہدی نے بجا لکھا ہے کہ یہاں اس امر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ منظم قتل عام صرف عصر حاضر کا کوئی نادر معاملہ یا خصوصیت نہیں ہے۔ یہ سلسلہ بہت دور تک جاتا ہے۔ دنیا میں حکمرانی، علاقوں، وسائل اور لوگوں پر غلبے، مذہبی معرکوں اور غلبوں کے لیے اور تنوع اور ثقافتی کثرت وجود کو پنپنے نہ دینے کے لیے دنیا وحشیانہ قتل کا ایک طویل ریکارڈ رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر عہد قدیم کے حکمرانوں نے جنگوں کے درمیان غیر ملکی شہریوں کا قتل عام کیا، قیدیوں پر تشدد کیا اور ان کے جسمانی اعضا کاٹ دیے۔ خواہ وہ قیدی فوجی تھے یا شہری، اجتماعی آبروریزیاں کیں اور مفتوحہ علاقوں کو تاخت و تاراج اور تباہ و برباد کیا۔ اسی طرح رومیوں نے کارتھیج شہر میں لوٹ مارکرنے کے بعد اسے تباہ کر دیا تھا اور محاصرے میں بچ جانے والے تمام افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اسی طرح چودہویں اور پندرہویں صدی کے دوران مغلوں نے پورے ایشیا میں تسلسل سے تاراجی کرتے ہوئے تین کروڑ افراد کو قتل کیا۔ ان میں سے بیشترکو دستی ہتھیاروں سے ایک ایک کر کے قتل کیا گیا۔
مغلوں نے جو کام غیر مہذب اور وحشیانہ طور پر کیا، وہی کام یورپی استعماریت پسندوں نے زیادہ نپے تلے، سائنسی اور عیارانہ طریقوں سے انجام دیا۔ امریکا کے مقامی باشندوں کے قتل کو امریکی قتل عام قرار دینے والے ڈیوڈ اسٹیزڈ کے مطابق قبل از قتال عظیم، براعظم امریکا کی مقامی آبادی اس وقت کے افریقہ اور یورپ کی مجموعی آبادی سے زیادہ بڑی تھی۔ امریکا کے ان قدیم باشندوں میں سے تقریباً80 لاکھ افراد براہ راست جنگ میں موت کا شکار ہوئے یا پھر جنگ اور تشدد سے تعلق رکھنے والے امراض اور دل شکستگی کے باعث موت سے ہم کنار ہوئے۔
یہ تمام کولمبس کے امریکا پہنچنے کے بعد 21 سال کے اندر مرے۔ اسٹیزڈ نے تخمینہ ان اعداد و شمار سے قائم کیا کہ پندرہویں صدی کے اختتام پرکرہ ارض پر 10 کروڑ سے زیادہ افراد بستے تھے اور چند صدیوں کے بعد ان کی تعداد تقریباً 50 لاکھ رہ گئی تھی۔ انسانی قتل پر ایک اور مطالعہ میں جو آر۔ میل نے داخلی اور بین الاقوامی جنگوں میں حکومتوں کے قتل کا شکار بننے والوں کی تعداد کی تین عشروں تک دستاویز تیار کرنے کے بعد مرتب کیا تھا۔
چار عدد قتل عام (Democides) کا اندازہ لگایا ہے، جس میں بیسویں صدی سے قبل معلوم تاریخ کے ایک ہزار برسوں میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد قتل کیے گئے تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ چین میں 221 قبل مسیح اور 19 ویں صدی عیسوی کے اختتام کے درمیان تقریباً تین کروڑ 40 لاکھ افراد کو قتل کیا گیا، افریقیوں کو غلام بنانے کے نتیجے میں ایک کروڑ 70 لاکھ افراد قتل ہوئے اور یورپی باشندوں کی آمد سے لے کر 19 ویں صدی کے اختتام تک ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو قتل کیا گیا۔ اس طرح یہ چار قتل عام تقریباً 10 کروڑ افراد کے قتل کا باعث بن جاتے ہیں۔
یہ پروفیسر سکندر مہدی تھے جن کی وساطت سے مجھے گلین ڈی پیج سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اور میں نے ان کی کتاب "ہلاکت گریز عالمی علم سیاسیات" اردو میں منتقل کی۔ گلین ڈی پیج کا قصہ بھی عجیب ہے۔ کسی عام امریکی نوجوان کی طرح انھوں نے بھی فوج میں شمولیت اختیارکی۔ کوریا کی جنگ میں حصہ لیا، وہاں بے گناہ شہریوں کا قتل عام دیکھا اور پھر ان کے اندر آہستہ آہستہ تشدد سے عدم تشدد کا سفر شروع ہوا۔ یہ سفر ایسا تھا جس نے گلین ڈی پیج کی شخصیت کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ وہ نوجوان جو امریکی فوجی وردی پہن کر انسانوں کو قتل کرنے نکلا تھا، اس نے عدم تشدد اور ہلاکت گریزی پر دفتر کے دفتر لکھ دیے اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ملکوں ملکوں گھوما اور اس نے بہ طور خاص نوجوانوں کو یہ بتایا کہ وردی پر ٹنکے ہوئے سنہرے فیتوں کی آرزو نہ کریں کہ وہ دراصل انھیں اور دوسرے بے گناہ انسانوں کو موت کی وادی میں لے جاتے ہیں۔
حکومتوں کی طرف سے مختلف معاملات پر مسلح تصادم ایک طرف رہا، شہری بھی ایک دوسرے کو بے سبب ہلاک کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ امریکا سے مسلسل ایسی خبریں آتی ہیں جن میں نوجوان اور متشدد مزاج رکھنے والے سفید فام کسی سبب کے بغیر بچوں، نوجوانوں اور عورتوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے بھی امریکا سے دو المناک خبریں آئیں جن میں سے ایک میں 20اور دوسرے میں 9 افراد کو کسی سبب کے بغیر قتل کر دیا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق مسلح افراد کے پاس لگ بھگ بیس کروڑ بندوقیں، کم ازکم سات کروڑ رائفلیں، ساڑھے چھ کروڑ ہینڈ گنیں، چار کروڑ نوے لاکھ شاٹ گنیں اور 80 لاکھ دیگر دور مار گنیں موجود ہیں، ہتھیاروں کی تجارت، ان کے کارخانے، ان کی فروخت، درآمد برآمد، ہزارہا قانونی اور غیر قانونی ڈیلروں کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ چارکروڑ چالیس لاکھ بالغ امریکی شہری آتشیں اسلحے کے مالک ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق یہ اسلحہ ایک تہائی امریکی خاندانوں میںموجود ہے۔
بیشتر بچے ان کو تلاش کر لینے کی اہلیت رکھتے ہیں جب کہ والدین کے خیال میں وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ ہلیری کلنٹن نے چلڈرن ڈیفنس فنڈ کے تخمینوں پر مبنی حقائق بیان کرتے ہوئے امریکیوں کو بتایا تھا کہ روزانہ ایک لاکھ پینتیس ہزار بچے پستول اور دیگر ہتھیار لے کر اسکول جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہری اپنی حفاظت، شکار، تفریح اور حکومتی جبر کے خلاف مزاحمت کے لیے اسلحہ رکھنے کے حق کا دعویٰ کرتے ہیں جو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے آئین میں 1791 کی دوسری ترمیم کے ذریعے ناقابل تقسیم حق کے طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ "ایک آزاد ریاست کی سلامتی کے لیے ایک بہترین منظم ملیشیا کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ عوام کا اسلحہ خریدنے اور اس کے استعمال کا حق فسخ نہیں کیا جا سکتا۔ "
پیج کی کتاب صرف حکومتوں اور ان کی ہوس ملک گیری کو نشانہ نہیں بناتی، مسلح شہریوں سے بھی سوال کرتی ہے۔ ذہنی فتور، نسلی برتری یا مذہبی جنون کی بنا پر صرف حکومتیں ہی دنیا کے امن پسند لوگوں کے لیے وبال جان نہیں بنی ہوئیں۔ ہم روز وہ خبریں پڑھتے ہیں جو ان لوگوں کے بارے میں ہوتی ہیں جنھیں نفرت کے بھیانک اور موذی مرض کا عارضہ لاحق ہے۔ یہ لوگ دوسرے انسانوں کو قتل کر دینا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
ایک طرف یہ امن دشمن جنونی ہیں اور دوسری طرف حکومتوں کے وہ سربراہ ہیں جن کے خیال میںکسی دوسرے ملک پر چڑھ دوڑنا اور اسے روند ڈالنا، ان کے لیے ایک عام سی بات ہے۔
گلین ڈی پیج نہ صرف جنگی جنون میں مبتلا سیاسی رہنماؤں کو امن کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ انفرادی طور پر قتل و غارت کا ارتکاب کرنے والوں سے بھی ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہ کراچی آئے تھے اور انھوں نے یہاں کراچی یونیورسٹی میں ایک لیکچر بھی دیا تھا۔ ان کی باتیں سن کر اور ان کا لکھا ہوا پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ ہماری دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہوں جو جنگ سے امن کی طرف سفر کرتے ہوں، جب انھوں نے جنگ کا ذائقہ چکھا ہو اور میدان جنگ میں دم توڑتے ہوئے نوجوانوں کی کراہیں سنی ہوں۔
ہمارا خطہ اس وقت جنگی جنون میں مبتلا لیڈروں کے نرغے میں ہے۔ کوئی ایٹمی ہتھیار چمکاتا ہے اور کسی کو اپنے روایتی ہتھیاروںپر غرور ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ان رہنماؤں کو کسی طرح یہ سمجھایا جائے کہ نسل انسانی کی تباہی خود ان کی، ان کے خاندان اور ان کی قوم کی بھی تباہی ہو گی۔