Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kachway Baatein Kar Rahe Thay

Kachway Baatein Kar Rahe Thay

ان دنوں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی بار بار یاد آتی ہے۔ ٹالسٹائی کی ترجمہ شدہ یہ کہانی ماہنامہ "عصمت" میں شایع ہوئی تھی۔ اسے پڑھ کر دل کس قدر اداس ہوا تھا۔ وہ بعد میں انگریزی میں بھی پڑھی لیکن اس کا اتنا اثر نہیں ہوا۔ شاید نو عمری میں دل زیادہ گداز ہوتا ہے، یا شاید قلب پر دنیا داری کے زنگ کی اتنی گہری تہہ نہیں چڑھی ہوتی۔

وہ کہانی کچھ لوگوں کے خیال میں ٹالسٹائی کی بے مثال کہانی ہے۔ کہیں وہ "دو گز زمین" اورکہیں "آدمی کوکتنی زمین چاہیے" کے نام سے شایع ہوئی۔ کہانی کی دھندلی سی پرچھائیں یاد ہے جوکچھ یوں ہے کہ ایک کسان اپنے زمیندارکے پاس جاتا ہے اور اس سے کچھ زمین کا طلبگار ہوتا ہے تاکہ اس پرکھیتی باڑی کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے۔ زمیندار اس سے پوچھتا ہے کہ تمہیں کتنی زمین درکار ہوگی؟ کسان اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا اور ہکلانے لگتا ہے۔ زمیندارکو کسان پر رحم آتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اچھا یوں کرو کہ سامنے جو زمین ہے اس پر تم جتنا چل سکو اور سورج ڈوبنے تک پیدل چل کر جتنی زمین طے کرسکو وہ تمہاری ہوگی۔

کسان یہ سن کرگھبرا جاتا ہے، اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلی ہوئی زمین ہے۔ سورج سرپر ہے اور تھوڑی دیر میں شام ہوجائے گی۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلنا شروع کردیتا ہے۔ تیز دھوپ اسے نڈھال کر رہی ہے لیکن وہ منٹ بھر سانس لینے کو بھی نہیں رکتا اور نڈھال بے حال چلتا رہتا ہے۔ پیاس سے حلق میں کانٹے پڑ گئے ہیں، پیر من من بھرکے ہوگئے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے کچھ زمین اور طے کرلے۔ ادھر زمیندار نے بھی اس جگہ پر اپنا خیمہ لگوا لیا ہے جہاں زمین کے لیے سوال کرنے والے شخص کو غروب آفتاب سے پہلے پہنچنا تھا۔

آہستہ آہستہ اسے ایک نکتہ دکھائی دیتا ہے، پھر وہ نکتہ بڑا ہونے لگتا ہے۔ یہ وہی کسان ہے جو زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کرنے کی ہوس میں لڑکھڑاتا ہوا بڑھ رہا ہے۔ سورج اب ڈھل رہا ہے اورکچھ ہی دیر میں ڈوب جائے گا۔ اب زمیندار بھی اس لمحے کا انتظار کر رہا ہے۔ زیادہ زمین کی ہوس میں چلنے والا بھی بار بار افق کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جہاں شفق کی لکیر کھنچ رہی ہے۔ کوئی وقت جاتاہے کہ ہر طرف سرمئی اندھیرا چھا جائے گا۔

نیم جاں کسان آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور پھر زمیندار کی طرف "سرکار میں پہنچ گیا"۔ وہ ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہتا ہے اور زمین پر گرکر دم توڑ دیتا ہے۔ زمیندار افسوس کرتا ہے " ارے یہ توصرف دوگز زمین ہے" وہ کہتا ہے اور اس کے کارندے کسان کی لاش اٹھا لیتے ہیں، دوگز زمین کے سپرد کرنے جو ہر انسان کی آخری منزل ہے، اگر مجھے غلط یاد نہیں تو آخر میں ٹالسٹائی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر آدمی کو کتنی زمین چاہیے؟

ٹالسٹائی نواب ابن نواب تھا۔ وہ یہ سوال کرسکتا تھا لیکن ایک عام آدمی یہ سوال کیسے کرے۔ وہ قسطوں پر زمین خریدتا ہے، فلیٹ اور مکان کی قسطیں بھرتا ہے لیکن عموماً وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پائے بغیر اس جہان سے گزر جاتا ہے اور آخرکار دو گز زمین ہی اس کا آخری ٹھکانہ بنتی ہے۔ وہ بھی جب تک گورکن کا جی چاہے، ورنہ اس کی ہڈیاں کسی گڑھے میں ڈال دی جاتی ہیں اور دوگز زمین کو آباد کرنے کے لیے کوئی نیا رہائشی آجاتا ہے۔

یہ باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ اس وقت چند بڑے مگرمچھ شہرکراچی کے ان دو جزیروں کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو بحیرہ عرب کے پانیوں میں دو جڑواں جزیرے ہیں اور سندھ کا حصہ ہیں۔ انگریزکراچی کو "ملکہ مشرق" کہتے تھے۔ ان جزیروں پر قبضہ کرنیوالوں نے اسے "ڈائمنڈ آئی لینڈ سٹی" کا نام دیا ہے۔ ان پر 43 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ پاکستان فشر فوک اس منصوبے پر احتجاج کررہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ سندھ اور اس سے وابستہ ہزاروں مچھیروں کے حق پرڈاکا ہے۔

ان جزیروں پر آباد ان مچھیروں کی جھگیاں گرادی گئی ہیں۔ احتجاج کرنیوالے حق داروں پر ہمارے آقا و مولا اداروں نے تشدد کیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ وہ دو دن کے اندر ان دونوں جزیروں کو خالی کر دیں۔ ان میں سے ایک جریزے پر زمین کی سطح ہموار کرنے کے لیے 6 ٹریکٹر پہنچا دیے گئے ہیں، بہت سے مزدورجزیرہ ڈنگی پر لگے ہوئے پیڑوں کو کاٹنے اور اس کی جڑوں کو نکالنے پر مامور ہیں۔ ان جزائر پر نیا شہر آباد کرنیوالوں کا کہنا ہے کہ اس طرح ہم نے غریبوں کو روزگار بھی فراہم کردیا ہے۔

ادھرمچھیروں اور ان کی نمایندہ تنظیم فشر فوک فورم نے پریس کلب جاکر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفصیل بتائی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ ماہی گیر اس جزیرے پر پڑاؤ ڈالتے ہیں اور مچھلیاں سکھاتے ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ان جزائرکے اطراف میں مینگرووکے درخت ہیں جن میں مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے۔ ماہی گیروں کی بستی ابراہیم حیدری سے کھلے سمندر میں جانے اور پورٹ قاسم بندرگاہ کا گزر بھی ان جزیروں کے سامنے سے ہے اور اس منصوبے کی تعمیر سے دونوں راستے متاثر ہونگے۔

بنڈال جزیرہ ماہی گیروں کے عارضی قیام اور مچھلی سْکھانے کے کام آتا ہے۔ کھلے سمندر میں جانے والے ماہی گیر واپسی پر چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں اسی جزیرے پر رہتے ہیں جب کہ جزیرے کے کھلے میدان میں مچھلی اور جھینگے دھوپ میں سکھائے جاتے ہیں۔ وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان بھی ان جزائرکی حق ملکیت پر تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ صوبائی حکومت نے یہ مؤقف اختیارکیا تھا کہ یہ جزائر صوبے کی ملکیت ہیں اور اس کی رقم اسے ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کی منظوری کے بغیرکوئی تعمیر شروع نہیں ہو گی۔ جس کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا ہے۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صوبے کے حقوق پر اور ماہی گیروں کی روزی روٹی پر حملہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی کے ساحل پر ڈنگی اور بنڈال جزیروں پر نئے شہرکی تعمیر سے اس خطے کو متاثرکرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں مقامی ماہی گیروں کے اپنی آمدنی کے ذرایع سے بھی محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

پاکستان فشرفوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے کراچی کے ساحل کے ساتھ ڈنگی اور بنڈال کے جڑواں جزیروں پر ایک نئے شہرکی تعمیرکی خبروں پرکہا ہے کہ "یہ صوبے کے حقوق اورسندھیوں پر حملہ ہے، یہ ماہی گیروں کی روزی روٹی پر حملہ ہے، اس سے سمندر میں مزید تباہی پھیلے گی۔" ایک انگریزی معاصرکی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ساحل پر ڈنگی اور بنڈال جزیروں پر نئے شہرکی تعمیر سے اس خطے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں مقامی ماہی گیردربہ درہوجائیں گے۔

دونوں جزیروں کی ترقی کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے کی وفاقی حکومت کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے محمد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کی ساحلی پٹی کے ساتھ قریب 300 بڑے اور چھوٹے جزیرے موجود ہیں جو برسوں کے دوران دریائے سندھ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان جزیروں کے آس پاس سمندرکی طرف جانیوالی کھاڑی مچھیروں کے استعمال میں رہتی ہے اور نیا شہر بنانے کے بعد غریب ماہی گیروں کو متبادل راستوں کی تلاش کی ضرورت ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ"یہ ترقی نہیں ہے، تباہی ہے۔"ان کا کہنا تھا کہ، اطلاعات کے مطابق اتھارٹی کے قیام کا بل تیارکرلیا گیا ہے، جسے پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا لیکن اس اتھارٹی کے قیام کے پیچھے سب سے بڑی وجہ جڑواں جزیروں کا کنٹرول سنبھالنا اور وہاں ایک نیا شہرآباد کرنا ہے۔ اس بارے میں وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے مشورہ کیے بغیر ان جڑواں جزیروں پر شہر تعمیرکرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ یہ علاقہ صوبائی دائرہ اختیار میں ہے، وفاقی حکومت کا یہ اقدام نہ صرف آئین پاکستان کے خلاف ہے بلکہ یہ مقامی لوگوں کو معاشرتی، معاشی اور ثقافتی خود مختاری فراہم کرنے کے بین الاقوامی معاہدوں اورکنونشنز کے بھی خلاف ہے۔

ڈنگی اور بنڈال دراصل سندھ کے جزیرے ہیں، یہ سندھ کے لوگوں کی ملکیت ہیں جہاں ماہی گیروں کو روایتی حقوق حاصل ہیں جب کہ صوبائی حکومت زمینوں اور جنگلات کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ جزائر ہزاروں ہیکٹر پر مشتمل مینگروو کے جنگلات سے ملتے ہیں۔ یہ جنگلات مچھلیوں اور کیکڑوں کی نرسری ہیں جب کہ کراچی سے ٹھٹہ تک کی یہ کھاڑی ماہی گیروں کے لیے مچھلیاں پکڑنے کی اہم جگہ ہیں۔

ان جزیروں میں سے بنڈال پر ایک مقامی پیر "یوسف شاہ" کا سالانہ عرس ہوتا ہے اور اس وقت یہ جریزہ ہزاروں زائرین سے بھرجاتا ہے۔ یہ عرس مقامی مچھیروں کی اضافی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ یہ جزیرہ جب دنیا کی سب سے "اونچی عمارت" اور سب سے بڑے "شاپنگ مال" کو اپنی زمین پر بسائے گا تو ان پرندوں کا کیا ہوگا جو ہرسال سیکڑوں، ہزاروں میل کا سفر کر کے آتے ہیں اور ان جزیروں پر عارضی قیام کرتے ہیں۔ اس طرح وہ نایاب سبزکچھوے ہیں جو ان جزیروں پر انڈے دیتے ہیں اور ان کی نسل آگے چلتی ہے۔ کل رات ان کا یہ جملہ کانوں میں پڑا کہ آدمی کو کتنی زمین چاہیے؟ مجھے نہیں معلوم تھا کہ انھوں نے ٹالسٹائی کی کہانی پڑھی تھی۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.