کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور متعدد خصوصیات کا حامل شہر ہے۔ یہاں پاکستان کی سب سے بڑی اور مصروف بندرگاہ ہے، صنعت اور تجارت کا مرکز بھی یہی شہر ہے۔
وفاقی اور صوبائی محصولات کا 60 فیصد سے زیادہ اس شہر سے جمع ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں بندرگاہ اور مالیاتی اور کارپوریٹ اداروں کے مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ ملک کی مجموعی داخلی پیداوارمیں اس شہرکا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے۔ کراچی میں پاکستان کی مضبوط قوت خرید رکھنے والی سب سے بڑی مڈل کلاس رہتی ہے۔
متوسط طبقے کے صارفین ملکی اور غیر ملکی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اس شہرکی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں ہرنسل، مذہب، مسلک، قومیت اورثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ خواندگی کی شرح بھی ملک کے کسی دوسرے شہرکے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اس شہر میں بدترین غربت اور بے پناہ خوش حالی دونوں پائی جاتی ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کے رہنے والوں کی اوسط آمدنی امریکا کے شہریوں کے برابر ہے اور بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں افریقا کے غریب ملکوں سے زیادہ افلاس اور معاشی بدحالی نظرآتی ہے۔ ہر بڑے شہرکے طرح کراچی کے بھی بعض مسائل ہیں، تاہم کئی حوالوں سے اس غریب پرور تاریخی شہرکو بدنصیب کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ شہر بنیادی طور پر تارکین وطن کی اکثریت والا شہر بن گیا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد مقامی آبادی کی اکثریت اپنے آبائی وطن سے کوچ کرگئی اور اس خلا کو پہلے ان تارکین وطن نے پورا کیا جنھوں نے ہندوستان میں رہنے کے بجائے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعدازاں، ملک اور خطے کے لوگوں نے یہاں آنا شروع کردیا۔ دنیا کے ایسے تمام بڑے شہروں کا جہاں تارکین وطن بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں، اپنا ایک الگ مزاج ہوتا ہے۔ بہتر مستقبل اور خوبصورت خواب کے تعاقب میں ترک وطن کرنے والوں کی اولین ترجیح معاشی استحکام کا حصول ہوتی ہے، ہر فرد اپنی بقا کی جنگ خود لڑنے پر مجبور ہوتا ہے، کوئی دوسرا اس کی مدد نہیں کرتا۔ اس طرح شہرکے مجموعی مفادات پر انفرادی مفادات حاوی ہونے لگتے ہیں، لوگ اپنے شہر اور محلے کے بجائے اپنے گھروں کو خوبصورت بنانے کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں۔
اس صورتحال میں اگر ملک میں جمہوریت ہو، بلدیاتی، صوبائی اور قومی سطح پر کسی تعطل کے بغیرانتخابات ہو رہے ہوں تو عوام کے نمایندے شہری مسائل کے حل پر مجبورہوتے ہیں کیوں انھیں بار بار ووٹ کے لیے شہریوں کے پاس جانا ہوتا ہے جوکارکردگی کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس تناظر میں جمہوری اور غیر جمہوری ملکوں کے ایسے شہروں کا جائزہ لیا جائے جہاں تارکین وطن زیادہ بڑی تعداد میں آباد ہیں تو آپ کو فرق صاف نظر آجائے گا۔ امریکا، یورپ اورایشیا کے وہ بڑے شہر جہاں انتخابی عمل مسلسل جاری رہتا ہے زیادہ منظم، پُرامن اور ترقی یافتہ ہیں جب کہ پس ماندہ غیر جمہوری ملکوں کے شہروں کا حال ہمارے ملک کے شہروں سے مختلف نہیں ہے۔
کراچی میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والے مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ پاکستان میں چونکہ جمہوریت کبھی مستحکم نہیں ہوئی، نچلی سطح سے لے کر صوبائی اور قومی سطح تک انتخابی عمل بلارکاوٹ جاری نہ رہ سکا اس لیے ملک میں عوام کو جوابدہ نمایندہ حکومتیں بھی نہ بن سکیں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ غیر جمہوری نظام حکومت میں اقتدار پر بالادست طبقات عوامی حمایت سے محروم ہوتے ہیں۔
انھیں اپنی حکم رانی کے لیے قانونی اور اخلاقی جوازکی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے وہ اعلیٰ عدلیہ سے قانونی تائید حاصل کرتے ہیں، آئین معطل کردیا جاتا ہے، من پسند پارلیمنٹ تخلیق کی جاتی ہے اور عوام میں مقبول سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی بدترین کردارکشی ہوتی ہے اور انھیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناکر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ جمہوری حکمران صرف لوٹ مارکرتے ہیں اور انھیں عوام کا نہیں بلکہ خود اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ غیر جمہوری طاقتیں نو آبادیاتی دورکے برطانوی حکمرانوں کا حربہ استعمال کرتے ہوئے عوام کو رنگ، نسل، زبان، مذہب، مسلک اور قومیت کے نام پر تقسیم کرتی ہیں تاکہ لوگ اپنے جمہوری حقوق کے لیے متحد نہ ہوسکیں۔ کراچی میں بھی یہ حربہ بھرپور اندازمیں استعمال کیا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ سیاسی لحاظ سے پاکستان کا سب سے باشعور صوبہ ہے جس کے عوام نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تاریخ ساز قربانیاں دی ہیں۔ اس صوبے کے لوگوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا گیا اورکراچی میدان جنگ بن گیا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب اس شہر میں بدترین دہشت گردی اور تشدد کا دور دورہ تھا۔ فرقہ ورانہ دہشت گردی اپنے عروج پر تھی اور ہرطرف قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا۔
خودکش دھماکے ہورہے تھے، متحارب گروپ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیل رہے تھے اورپورا شہر خطرناک دہشت گرد اور پُرتشدد گروہوں کا یرغمال بنا ہوا تھا۔ یہ صورت چند ماہ یا سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں تک مسلسل جاری رہی۔ یہ شہر اپنے اندر سے اس قدر مضبوط تھا کہ ان غیر معمولی حالات میں بھی زندہ رہا، بیروت یا بغداد کی طرح ملبے کا ڈھیر نہیں بن گیا۔
یہ سارے عذاب جھیل کر اب کراچی تقریباً نڈھال ہوچکا ہے اور اس نے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑد یا ہے۔ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ تو فی الحال رکا ہوا ہے لیکن شہرکے لوگوں کے اعصاب ٹوٹتے نظر آرہے ہیں۔ اب یہ شہر ان مافیاؤں کے رحم وکرم پر ہے جنھیں طاقتور حلقوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
کراچی میں پانی کی کوئی کمی نہیں لیکن ٹینکر مافیا کا راج ہے، پانی پائپ لائنوں کے ذریعے گھروں تک نہیں آتا بلکہ شہریوں کو قیمت ادا کرکے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد بڑا شہر ہے جہاں ماس ٹرانزٹ کا کوئی نظام نہیں ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ مافیا یہ نظام نہیں چاہتی ہے۔ لوگ موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں، شہر میں 25 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلوں پر پورے کے پورے خاندان سفرکرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں صفائی، نکاسی آب اور صحت کی بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں ہیں۔ فضائی اورآبی آلودگی سے ہرسال ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
حالیہ طوفانی بارشوں کی تباہ کاریوں نے شہرکی مجموعی صورتحال کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ شہرکا کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں تھا جس نے شہرکو بچانے کے لیے اوسط درجے کی کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا ہو۔ یہ کہنا درست ہے کہ اتنی شدید آفت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا، لیکن اگر نکاسی آب کا بہتر نظام موجود ہوتا، متعلقہ ادارے اور اس کے اہلکار فرض شناس اور مستعد ہوتے توکیا شہرکو اس قدر بھیانک تباہی کا سامنا کرنا پڑتا؟
کراچی میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس میں ہمیں پورے پاکستان کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ ملک کی طرح یہ شہر بھی سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہتا ہے، قومی شرح نمو میں گراوٹ کے باعث ملک کا یہ سب سے بڑا صنعتی وتجارتی شہر بھی معاشی بحران کا شکار ہے، قومی سطح پر عوام کے نمایندوں کی کوئی وقعت نہیں اور یہاں بھی کوئی سرکاری ادارہ ان کی بات نہیں سنتا، ملک میں ہر وقت سیاسی جوڑ توڑ اور دشنام طرازیوں کا بازارگرم رہتا ہے یہی کچھ سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی میں ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی بالائی سطح پر نظر نہیں آتی لہٰذا لوگوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی قانون کا احترام کرنا کم یا شاید بہت کم کردیا ہے۔
جب تک یہ حقیقت نہیں مانی جائے گی کہ جو حالات قومی سطح پر ہوں گے، ان کے منفی یا مثبت اثرات ملک کے سب سے بڑے شہر اورکاروباری مرکز پر بھی براہ راست مرتب ہوں گے، اس وقت تک شہر کے حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوگی۔ وزیر اعظم ہوں یا قائد حزب اختلاف، بلاول بھٹو ہوں یا آرمی چیف یہ سب جتنی بار چاہیں کراچی آئیں، یہاں کے حالات کا نوٹس بھی ضرور لیں لیکن ان اقدامات کی افادیت عارضی ہوگی اور اس سے کسی غیر معمولی تبدیلی کی توقع نہ رکھی جائے تو بہتر ہے۔
یہ جان اور مان لیا جائے کہ جب تک ملک کو آئینی ڈگرپر نہیں چلایا جائے گا، طاقتور طبقے خود کو آئین وقانون کا پابند نہیں کریں گے اورآئینی، سیاسی و انتظامی اداروں میں انتشار اور بحرانی کیفیت موجود رہے گی اس وقت تک کراچی بھی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ مستقبل میں جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوگا یا قدرتی آفت آئے گی، کراچی میں یہی کہانی بار بار دہرائی جاتی رہے گی۔