یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان آزاد ہوا تھا، پاکستان وجود میں آیا تھا۔ غریب اور امیر سب ہی اپنی بساط کے مطابق خواب دیکھتے تھے۔ وہ جو لٹے پٹے تھے، وہ جن کے بدن پر لباس سلامت تھا اور وہ جنھیں سر چھپانے کے لیے جگہ مل گئی تھی۔ کرامت علی ان ہی لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے زندگی کے ابتدائی برس مشکل میں گزارے۔
بقول ان کے ہمارے گھر میں کبھی فاقے بھی ہوتے تھے لیکن یہ بات ہمیں پریشان نہیں کرتی تھی۔ ہم سب گھر والے سکون سے سو جاتے۔ ان کے گھر میں شیعہ سنی کی تفریق بھی تھی۔ والد شیعہ تھے اور والدہ سنی۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ والد کرامت کو کمپرومائز کی ترغیب دیتے اور والدہ مزاحمت کی تربیت دیتیں۔
کرامت علی اور ان کے مزدور ساتھیوں کی 60-70 برس پر پھیلی ہوئی جدوجہد اور مزاحمت کو ہمارے ترقی پسند دانشور ڈاکٹر جعفر احمد نے گھنٹوں پر پھیلی ہوئی گفتگو کو مرتب کیا، اس بات چیت کو صائمہ حیات نے کاغذ پر اتارنے کا مشکل کام کیا، بعد میں ڈاکٹر انور شاہین نے اس کتاب کی ایڈیٹنگ کی اور یوں پاکستان میں محنت کشوں کی جدوجہد مرتب ہوئی جس میں کرامت علی صاحب کا مرکزی کردار ہے۔ یوں کہیے کہ یہ ان کا زندگی نامہ ہے۔
کوئی تصوربھی نہیں کرسکتا کہ ملتان، کراچی اور دوسرے شہروں میں سانس لینے والے ایک محنت کش نوجوان کی زندگی میں رومان اور خوابوں کا گزر بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن "راہ گزر تو دیکھو" کے صفحے پڑھتے جائیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ 60ء کی دہائی سے عوام کے لیے خواب دیکھنے کا ایک سلسلہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔
کرامت 60ء کی دہائی میں ہی مزدور تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ وہ ان نوجوانوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں سیاسی سرگرمیوں کی بناء پر کراچی بدر کردیا گیا تھا۔ ان نوجوانوں کو ایوب خان کی حکومت نے "سازشی کار گزاریوں " کی بناء پر کراچی نکالا دے دیا گیا۔
یہ لوگ جن میں علی مختار رضوی، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، سید سعید حسن، جوہر حسین، نفیس صدیقی اور باقر عسکری کے علاوہ چند دوسرے نوجوان طلبہ شامل تھے۔ کراچی بدر طلبہ کا یہ گروہ کراچی سے نکل کر سکھر پہنچا اور پھر بہاولپور لیکن کہیں کی بھی انتظامیہ نے انھیں اپنے شہرمیں ٹکنے نہیں دیا اور اب یہ لوگ جنھیں طلبہ، مزدور اور عام افراد کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں کراچی بدر اور پھر در بہ در کردیا گیا تھا، ملتان میں بیٹھے تھے۔
انھوں نے کرامت اور دوسرے طالب علموں سے کہا کہ وہ انھیں چند دنوں کے لیے ملتان میں پناہ دلوا دیں۔ یہ نواب کالاباغ کا زمانہ تھا، ملک کے مغربی حصے میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی لیکن کرامت علی اور ان کے ساتھیوں نے وہ چمتکار کردکھایا اور یہ طالب علم ملتان سے نکالے نہیں گئے۔ قصور گردیزی صاحب کی کوششوں سے یہ کراچی بدر لوگ ملتان بدر کیے جانے کے بجائے گردیزی صاحب کے مہمان خانے میں ٹھہرائے گئے جہاں کرامت علی اوران کے ہم خیال دوست ان طالب علم رہنماؤں سے ملتے رہے، پھر جب ان لوگوں کی کراچی بدری کے احکامات واپس لیے گئے تو یہ اپنے شہر چلے گئے۔
یہ وہ مرحلہ ہے جس سے کرامت علی کے اس خواب کا آغاز ہوا جو آج کے ماہ سال تک پھیلا ہوا ہے۔ ان نوجوان طلبہ کی شہر بدری وہ نقطہ آغاز بن گئی جسے 60 کی دہائی کانہایت اہم واقعہ کہا جاتا ہے۔ طلبہ کی جدوجہد ہویا مزدوروں کا یونین بنانے کا حق اور دوسری شہری آزادیاں ہوں، کرامت ان تمام سرگرمیوں میں شریک رہے۔ یہ وہ نوجوان طلبہ اور مزدور تھے جن کی زندگی کا مقصد دوسروں کی زندگی بہتر بنانا تھا۔ آج ہم اعلیٰ تعلیم کے لیے طلبہ میں لگی ہوئی چوہا دوڑ کو دیکھتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں وہ زمانہ بھی گزرا ہے جب نوجوان اپنے لیے نہیں، سب کی بہتری کے لیے کوڑے کھاتے تھے، جیل جاتے تھے اور شاد کام رہتے تھے۔
کرامت علی نے انگریزوں کی بنوائی ہوئی پبلک لائبریری سے استفادہ کیا۔ ادب کی اچھی کتابیں پڑھیں۔ وہاں ہندوستان سے ادبی رسالے آتے تھے۔ ان میں کرشن چندر اور دوسرے ترقی پسند ادیبوں کے افسانے شایع ہوتے تھے۔ ان افسانوں نے کرامت کی سوچ پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان ہی دنوں کرامت نے ملتان چھوڑ کر اپنے بہنوئی کے پاس کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔
یہاں انھوں نے لیبر یونین میں شامل ہونے کا ذائقہ جانا۔ 1963 میں جب مزدوروں پر گولی چلی تو وہ اس جگہ سے تھوڑی دور تھے۔ یہاں ان کا واسطہ انیس ہاشمی صاحب اور دوسرے اہم کمیونسٹ رہنماؤں سے ہوا۔ یہیں انھوں نے کالج میں داخلہ لیا اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ہی پڑھائی بھی کرتے رہے۔ ایس ایم سائنس کالج میں پڑھتے ہوئے وہ محترمہ انتیا غلام علی سے رابطے میں آئے۔ وہ اپنے زمانے کی ایک اہم استاد تھیں۔ انھوں نے بھی کرامت کی سوچ پر گہرا اثر ڈالا۔
وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ذکرکرتے ہیں۔ ان میں کئی نام آتے ہیں جنھوں نے آگے چل کر ملکی سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ اپنی ساتھی اصغری جیلانی کا بہت احترام اور محبت سے ذکر کرتے ہیں، جن سے انھوں نے 1970 میں شادی کرلی۔ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب وہ ہول ٹائمر تھے اور ان دنوں کا بھی جب ان کے وارنٹ گرفتاری نکلے اور وہ روپوش ہوگئے۔
یہ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا اور اسی زمانے سے پولیس نے یہ روش اختیار کی کہ اگرکسی کو گرفتار کرنا ہے لیکن وہ ہاتھ نہیں آرہا تو اس کے باپ یا بھائی کو اٹھالو اور جیل میں رکھو۔ کرامت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ روپوش ہوئے تو ان کے بوڑھے باپ اٹھا لیے گئے۔ کرامت علی نے متعلقہ پولیس افسرکو اور لیبر کے وزیر ستار گبول کو فون کیے اور ان سے کہا کہ آپ لوگ میرے والد کو فوراً چھوڑ دیں ورنہ 20 اور 25 ہزار افرا کا جلوس نکالنا انڈر گراؤنڈ ہوکر بھی میرے لیے مشکل نہیں ہے۔ آخر کار چند دن کے اندر ان کے والد چھوڑ دیے گئے۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے کئی سوالات کیے۔ کرامت علی نے ان کے جواب بہت تفصیل سے دیے ہیں۔ ان جوابوں کوپڑھیے تو 62ء سے لے کر 1979 تک کی سیاست سمجھ میں آجاتی ہے۔
وہ ہمیں ملک کے ایک بڑے کارخانے کا قصہ سناتے ہیں جب وہاں سے دو ورکروں کو نکالا گیا تھا۔ اس کارخانے کے اوپر قبضہ کرلیا گیا، ہم لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس کے جو مالک تھے وہ حبیب ولی محمد سنگر تھے جو مشہور تھے۔ انھوں نے وہاں اپنا ایک کمرہ بنایا ہوا تھا جہاں وہ ریاض کرتے تھے۔ جب اس پر قبضہ کیاگیا تو دن کا وقت تھا۔ وہ اپنا ریاض کررہے تھے، کوئی ورکر اندر گیا اورسب سے پہلے اس نے ان کا ہارمونیم توڑ دیا۔ اب وہ بے چارے رونے لگے۔ ان کے لیے تو ان کا ہارمونیم معلوم نہیں کیا کچھ تھا اور نہ جانے وہ کب سے تھا ان کے پاس۔ جسے توڑ دیاگیا تھا۔ ان کا مشہور نغمہ تھا:
آشیاں جل گیا، گلستاں جل گیا
وہ بے چارے دھاڑیں مار مار کر روئے تو ہم لوگوں کو بھی پریشانی ہوئی کہ یہ کیا کردیا۔ خیر ہم لوگوں نے انھیں اٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان کو کوئی کچھ نہ بولے۔ خیر ہم نے ان سے معافی مانگی اور کہا کہ ان کو گھر لے جاکر چھوڑ دیں۔ پھر اسی کارخانے میں جو لیفٹ کے آپس کے تضادات تھے وہ یہ تھے کہ یہ تو ہوا کہ قبضہ ہوگیا، پھر اس پر ایک ایگریمنٹ ہوا۔ تابانی اس کے مالکان تھے۔ بعد میں اشرف تابانی گورنر بنے۔ ایگریمنٹ ہوگیا تو کہا گیا کہ نیشنل بورژ وازی کو رعایت دی ہے ہم نے۔ ایک طرف یہ تھا تو دوسری طرف یہ انتہا کہ قبضہ کیا جا رہا ہے۔
توڑپھوڑ کی جارہی ہے۔ لوگوں کونکال دیا کارخانے سے زبردستی۔ پھر ایک گروپ تھا۔ زین الدین خان لودھی والوں کا، انھوں نے ایک دو اپنے ساتھ وہاں لوگ ملا لیے اور چیزیں Resolve ہورہی تھیں۔ مگر ان کا ہم لوگوں سے مقابلہ چلتا تھا تو انھوں نے یہ پلان بنایا کہ وہاں مالکان کا ایک چھوٹا بھائی تھا رؤف، جوکہ کارخانہ چلاتا تھا۔ اشرف تابانی تو کبھی کبھی آتا تھا اور جو حبیب ولی محمد تھا وہ آرٹسٹ تھا، اس کا کارخانہ چلانے سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ سو رؤف کو انھوں نے اغوا کیا کارخانے سے اور لے گئے پٹھان کالونی میں۔ دو دن کے بعد پتہ چلا، شور مچ گیا کہ کارخانے سے ایک اونر اغو ا ہوگیا ہے۔
پولیس نے خیر اس کو بازیاب کروایا اورپانچ، چھ لوگ پکڑے، وہ جیلوں میں گئے۔ لیکن یہ جو ایک طرح کا ایڈونچر تھا اس نے بہت بڑا نقصان یہاں کی موومنٹ کو پہنچایا۔ کرامت علی نے مزدوروں اور ان کے رہنماؤں کے درمیان روس نواز اور چین نواز کی چپقلش کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انھوں نے انگلستان جانے کا قصہ بھی ہمیں بتایا ہے اور ان سے یہ سن کر یقین نہیں آتا کہ ان دنوں ائیرپورٹ پر ویزا لگ جاتاتھا۔ (جاری ہے)