1952ء کی گرمیوں کی چلچلاتی ہوئی دوپہر ہے۔ پسینے میں شرابور ایک لڑکی گڈوانی اسٹریٹ کی کھنہ مینشن کی چوتھی منزل کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے اور ڈاکیے کی راہ تکتی ہے۔ کل کا دن گزرگیا تھا، اب آج تو ڈاکیا ضرور آئے گا اور "عصمت" کا تازہ شمارہ لائے گا۔ اسے انتظار ہے نذر سجاد حیدر کے روزنامچے "ایام گزشتہ" کا، جس میں وہ اپنی چہیتی بیٹی عینی بی بی کا ذکرکرتی ہیں۔ "عینی" اردو ادب میں قرۃ العین حیدرکے نام سے مشہور ہوئیں۔
"ایام گزشتہ" کا میں نے اسی طرح برسوں انتظارکیا، اردو فراٹے سے پڑھتی تھی۔ اس لیے پہلے ماں کا روزنامچہ پڑھا اور پھر بیٹی جو " ستاروں سے آگے" کی خبر لا رہی تھی۔ اس کی تحریرکی اسیر ہوئی۔ لفظوں کے سحر میں اسیری کا سلسلہ 21 اگست 2007ء کو اس وقت تمام ہوا جب وہ ساحرہ رخصت ہوئی۔
یہ اگست کی تاریخیں ہیں، ان کی رخصت کے دن۔ انھوں نے ایک کہانی 6 برس کی عمر میں لکھی جو شایع نہ ہو سکی۔ تیرہ برس کی عمر میں پہلی کہانی " بی چوہیا کی کہانی، ان ہی کی زبانی" رسالہ "پھول" میں شایع ہوئی جو بچوں کا مشہور اور معتبر رسالہ تھا، لاہور سے نکلتا تھا۔ پہلا افسانہ 1942ء میں لاہورکے رسالے "ہمایوں" میں شایع ہوا۔
گزر جانے والوں کی یاد میں ختم قرآن کرایا جاتا ہے، ایصال ثواب کی مجلس ہوتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے لیے ہم یاد گیری کی محفل سجاتے ہیں، اس لکھنے والی کو یادکرتے ہیں جس نے دس بارہ برس کی عمر میں قلم اٹھایا تو پھر اسی وقت وہ قلم ہاتھ سے چھوٹا جب سانس کی ڈوری ٹوٹی۔
وہ غیر منقسم ہندوستان کے معروف اورایک جمے جمائے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ زمیندارانہ مزاج اور فرنگی بودو باش گھٹی میں پڑی تھی۔ ابتدائی کہانیاں رومانوی انداز میں لکھیں، اسی لیے انھیں رومان پرست اور انگریزی ماحول میں ڈوبا ہوا لکھا گیا۔ چند برس بعد انھوں نے دنیا کو آنکھیں کھول کر دیکھا۔ تقسیم کا دیو "آدم بو، آدم بو" پکارتا ہوا، خاندانوں اور خانوادوں کوکھاتا ہوا گزرگیا تھا۔ یہ ان کے لیے ذاتی صدمہ تھا۔ جس نے اپنے محبوب باپ کا بنایا ہوا گھر بلوائیوں کے ہاتھوں لٹتے اور خاکستر ہوتے دیکھا ہو، جس کی ٹرین فسادات کے دوران روکی گئی ہو اور " شکار، شکار" پکارتے ہوئے شورہ پشتوں کو ان امریکی ننوں نے ڈانٹ کر بھگا دیا ہو جو "شکار" کو لحاف میں لپیٹے ہوئے اس پر چڑھی بیٹھ ہوں، وہ لڑکی چند برس بعد "سفینۂ غم دل" اور "آگ کا دریا" لکھے گی۔ جس نے اپنے دل میں کدورت کی کالک نہ رکھی۔ ایسے با صفا اور بے ریا دل کتنے اور کہاں ہوتے ہیں؟ قرۃ العین حیدر ذاتی طور پر بٹوارے کے ہولناک تجربے سے گزریں لیکن انھوں نے اس کی سہم ناکی اور زہریلے پن کو یوں برتا کہ اسے آفاقی بنا دیا۔
ان پر یہ اعتراض بار بار کیا گیا کہ وہ مغرب زدہ افراد کی کہانیاں لکھتی ہیں، لیکن ان کے معترضین کو یہ یاد نہیں رہا کہ یہ وہی تھیں جنھوں نے جمیلن، آنٹی گریسی، کارمن، قلندر، تنویر فاطمہ، منظور النساء، اوٹو، مس پیروجا دستور، چھمی بیگم، دلارے چچا اور تارا بائی جیسے زندگی کی قہر ناکیوں سے اٹھائے کردار لکھے۔ یہ وہ کردار ہیں جنھیں ہماری اشرافیہ اپنے قدموں تلے روندنے میں دیر نہیں لگاتی۔
ان کے افسانوں اور ناولوں میں انسانوں کا ایک سیل رواں ہے جو بہتا چلا جاتا ہے، جس کا درد و الم ہمیں گریہ ناک کر دیتا ہے۔ ہم اس کی زندگی کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ کہیں اندھیرا ہے، کہیں ملگجا سا سویرا، انسان وقت کے اس جال میں پھڑپھڑاتے ہیں۔ ہندوستان ایک عظیم سمندر جس میں مختلف قومیں، تہذیبیں، زبانیں اور ذات پات کا نظام سانس لیتا ہے، مسلمان آئے اور اس سمندرکا حصہ بن گئے۔ سات سمندر پار سے پرتگیزی، ولندیزی اور فرانسیسی آئے اور وہ ہندوستانی تاریخ کے حاشیوں پر سانس لیتے رہے، برطانیہ سے آنے والے انگریز تجارت کرنے آئے تھے اور پھر ہم پر حکمرانی کرنے لگے۔ ہمیں اندازہ نہ تھا اور شاید وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ہندوستان جسے وہ سونے کی چڑیا کہتے ہوئے آئے تھے، اس کے پر نوچ لیں گے اور جاتے جاتے اس کے ٹکڑے کر جائیں گے اور پھر برطانوی خنجر سے ذبح ہونے والے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوں گے اور وہ جنت نشان جس کی تاریخ میں مثالیں دی جاتی تھیں، ایک دہکتا ہوا جہنم بن جائے گا۔
قرۃ العین نے بچپن سے سفر کیے۔ یہ سفر کبھی "چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا " اور کبھی "یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے " میں نظر آتا ہے۔ کبھی وہ ہمیں روس اور جاپان کی سیر کراتی ہیں۔ انھوں نے 1979ء میں کشمیر کا سفر نامہ لکھا جسے انھوں نے " گل گشت" اور "خضر سوچتا ہے" کا نام دیا۔ ان دنوں کشمیر اپنے ہی خون میں نہایا ہوا ہے۔ چنار کے پیڑوں اور زعفرانی ریشوں کے سرخ رنگ کے چھینٹے اس کی گلیوں اور بازاروں میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں "خضر سوچتا ہے" کو پھر سے پڑھا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ سیاست کی سفاکی کس طرح سادہ و معصوم لوگوں کی زندگیوں کو سر کے بل کھڑا کر دیتی ہے۔
قرۃ العین کہیں سے بھی گزریں، اس کی تاریخ کو بیان کرنا ان کی مجبوری ہے۔ کشمیر کے بارے میں لکھتی ہیں: "سازش بدامنی اور قتل و خون ایک ملک و قوم کے زوال کی علامتیں ہیں۔ آخر میں راجگانِ کشمیر اتنے نا لائق ثابت ہوئے کہ ان کی جگہ باہمت اور سمجھ دار رانیوں نے ملک پر حکومت کی 950ء میں دیدہ رانی تخت نشین ہوئی اور 23 برس فرمانروا رہی۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہونے کے سبب سے وادی کے باشندے ہمیشہ سے علیحدگی پسند رہے ہیں۔ بقول محمد امین پنڈت، ابو ریحان البیرونی نے لکھا تھا کہ اہل کشمیراپنے ملک کی حفاظت کے خواہاں اور اس کی سرحدوں اور درّوںکی حفاظت کرتے ہیں اس وجہ سے ان سے لین دین مشکل ہے۔ گزشتہ زمانوں میں وہ اِکّا دُکّا غیر ملکی خصوصاً یہودیوں کو وادی میں داخل ہونے کی اجازت دیتے تھے، مگر اب وہ کسی ہندو کو بھی نہیںآنے دیتے جس سے وہ ذاتی طور پر واقف نہ ہوں۔ "
وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ اکبر نے 1586ء میں کشمیر فتح کیا۔ پنڈت رام چندکک کا قول ہے کہ مغلوں نے کشمیر کو عہد وسطیٰ سے نکال کر دور جدید میں داخل کیا، مغلیہ ایڈمنسٹریشن، صنعتی ترقی، خوشحالی، عہد مغلیہ کشمیر کا دور زریں تھا۔ للت دتیہ، شہاب الدین اور بڈ شاہ کے بعد رومان پرست شہزادہ سلیم دو بار باپ کے ساتھ کشمیر آیا۔ چھ بار نور جہاں بیگم کے ساتھ۔ شاہ جہاں دارا شکوہ سب کشمیر آتے رہے۔ اور عمارتیں، مسجدیں اور باغات بنواتے چلے گئے۔ 1664ء میں اورنگ زیب تین ماہ رہا۔ وہ دراصل ایک "آوٹ سائڈر" تھا اور MISFIT۔ بے حد ذہین تھا اور آئیڈیلسٹ لیکن کنفیوزڈ۔ نجانے اصلیت میںوہ کیا کرنا چاہتا تھا جدید ذہن بھی رکھتا تھا۔ جیسا کہ اس کے خشمناک اور طنزیہ خط سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے اپنے لڑکپن کے استادکو لکھا تھا کہ مولانا آپ نے مجھے بتایا کہ انگلستان کا بادشاہ ہمارے معمولی راجاؤںسے بھی کمزور ہے۔ یورپ ایک جزیرہ ہے۔ آپ نے انٹ شنٹ مجھے تعلیم دی آپ کو حالات حاضرہ کی کوئی واقفیت نہیں۔
کشمیر کے سفر کے دوران قرۃ العین دکانداروں، چائے بنانے والوں اور قالین بیچنے والوں سے باتیں کرتی چلی جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ: غلام محمد پابندی سے بازار جا کر ریڈیو سنتا ہے۔ کشمیر کے بیشتر عوام کی طرح وہ بھی بے حد سیاسی آدمی ہے۔ جاہل ہے مگر اس کے لڑکے اسکول میں انگریزی پڑھ رہے ہیں۔
"تمہارے ہاں ہندو مسلم جھگڑا ہوتا ہے؟"
"نہیں جناب! گاؤںمیں اگر پڑوس کی ایک پنڈت عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور مسلمان عورت کے ہاں بھی تو وہ دودھ شریک بھائی بن جاتے ہیں"…… "کمال ہے"۔
گھنے چناروں کے اندھیرے میں سرد چشمے اور ویشنو مندر، ایک مندر پر اردو میں لکھا تھا۔ رام کنڈ۔ نزدیک ایک گور دوارہ۔ اور مندر سے چند گز کے فاصلے پر مسجد دارا شکوہ۔ اس فقیر شہزادے کے نام پر بنائی ہوئی مسجد پر گنبدکے بجائے چنارکا عظیم الشان چھتنار درخت سایہ فگن ہے۔
سرینگر میں زبروال کی پہاڑی پر پری محل ہے جس میں داراشکوہ تصوف کا مدرسہ اور ایک رصدگاہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ بے چارہ انوکھا درویش صفت شہزادہ یہ فقیر دارا شکوہ جو آج موجود ہوتا تو نوبل پیس پرائز کا حقدار ہوتا۔
گندھک کا چشمہ اننت ناگ مندر کی خشک نیم تاریکی سے نکل کر مسجد دارا شکوہ کے روشن باغ کو سیراب کرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ نہر کے کنارے ایک فرغل پوش بڑے میاں چہرہ گلاب کے پھول کی طرح شگفتہ نہرکی منڈیر پر اس اطمینان سے بیٹھے تھے گویا جنت میں تشریف فرما ہوں۔
واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ یہ 40 برس پرانے ایک سفرکی یادیں ہیں جو انھوں نے لکھیں۔ موئے مبارک کی زیارت کا جو منظر انھوں نے لکھا ہے، وہ آنکھیں نم ناک کر دیتا ہے۔ آج اگر وہ کشمیر کے فساد زدہ علاقے سے گزرتیں تو کیا لکھتیں؟ کیا ان رضاعی بھائیوں کا قصہ جن میں سے ایک مسلمان اور دوسرا ہندو ہوتا تھا، یا اس بارود کا قصہ جو کہیں سے لائی گئی اور کشمیرکی بنیادوں میں بچھا دی گئی۔ وہ ہوتیں توکیا لکھتیں؟ اور یہ بھی کہ خضر اب کیا سوچتا ہے؟