ایک وہ زمانہ بھی تھا جب ہمارے یہاں اسکولوں میں تاریخ اور جغرافیہ پڑھایا جاتا تھا۔ بہترین سفید کاغذ پر چھپی ہوئی روشن کتابیں، نیویارک سے چھپ کر آتیں۔ ہمارے لیے وہ کتابیں نعمت غیر مترقبہ تھیں۔ ان میں کتابوں سے جانا کہ افریقا دنیا کا سب سے بڑا براعظم ہے جس کے جنگلوں اور کھیتوں کے درمیان سے نیل جیسا شاندار دریا بہتا ہے۔ یہی نیل تھا جس کی نہروں پر ایک بچہ بہتا ہوا فرعون مصر کی ملکہ کو ملا تھا۔
ہر یہودی بچے کے قتل کا حکم تھا لیکن وہ بچہ فرعون کے محل میں پلا بڑھا اور موسیٰ کہلایا۔ حضرت موسیٰؑ جنھوں نے فرعون کے خلاف بغاوت کی، اپنے مظلوم قبیلے کو اس کے چنگل سے نکال کر لے گئے۔ اس براعظم میں الجزائر اور مصر جیسے تاریخی ملک ہیں۔ ہماری ٹیچر نے بتایا تھا کہ دنیا کی پہلی آبادی افریقا میں ہوئی تھی۔ ہم جو افریقیوں کی طرح سیہ فام نہ تھے، ہمیں صدمہ ہوا تھا کہ یہ اولیت بھی افریقیوں نے ہم سے چھین لی۔
کہلاتی وہ غلاموں کی سرزمین تھی لیکن دنیا کے حسین ترین ہیرے اسی کی پرتوں میں چھپے ہوئے تھے اور پھر وہاں کے باغیوں، انقلابیوں، دانشوروں اور شاعروں کا چرچا ہونے لگا۔ نوآبادیاتی آقاؤں سے آزادی کی لڑائی لڑی جانے لگی۔ کیسے کیسے شاندار نام۔ افریقی جانثاروں کی صفیں سجنے لگیں۔ کوئی پیٹرک لوممبا کا نام لیتا تھا، کوئی نیلسن منڈیلا اور کوئی جمال عبدالناصر کا۔ اسی زمانے میں فیضؔ صاحب نے افریقی رجز لکھا:
آجاؤ، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آجاؤ، مست ہوگئی میرے لہو کی تال
آجاؤ ایفریقا
آجاؤ، میں نے دھول سے ماتھا اُٹھا لیا
آجاؤ، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجاؤ، میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آجاؤ، میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال
آجاؤ ایفریقا
جلتے ہیں ہر کچھار میں بھالوں کے مرگ نین
دشمن لہو سے رات کی کالک ہوئی لال
آجاؤ ایفریقا
دھرتی دھڑک رہی ہے مرے ساتھ ایفریقا
دریا تھرک رہا ہے تو بن دے رہا ہے تال
میں ایفریقا ہوں، دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں تو ہوں، میری چال ہے تیرے ببر کی چال
آجاؤ ایفریقا
آؤ ببر کی چال
آجاؤ ایفریقا
یہ نظم کب کب یاد نہ آئی۔ جب جمال عبدالناصر کا جنازہ اٹھا تو اس میں دس لاکھ سے زیادہ ماتم دار تھے، جب نیلسن منڈیلا دنیا کی سب سے طویل جیل کاٹ کر آزاد ہوئے، جب جمیلہ بوپاشا اور ایسے ہی متعدد سرفروشوں کے سبب الجزائر آزاد ہوا۔ افریقا کے سو رنگ اور اس کی تاریخ کے سو ڈھنگ۔ سب ایک دوسرے سے مختلف، سب ایک دوسرے سے نرالے۔ ایک طرف روانڈا میں لاکھوں لوگ قتل کیے گئے اور دوسری طرف مختلف افریقی ملکوں کے لاکھوں لوگوں کو قحط نے اپنا نوالہ بنا لیا۔
زمانہ اب بھی بدل گیا ہے۔ افریقی نوبل امن انعام لینے لگے ہیں۔ ان کا نام دنیا میں جانا پہچانا ہوگیا ہے۔ ان ہی میں سے تازہ ترین نام ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد علی کا ہے۔ ابی احمد جب اپریل 2018 میں انتخابات جیت کر وزیر اعظم بنے تو انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی اولین ترجیح ایریٹریا کے صدر سے علاقائی امن قائم کرنا تھا۔
انھوں نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں ملک سے ایمرجنسی کے خاتمے، حزب اختلاف کے ہزاروں سیاسی قیدیوں کو عام معافی، میڈیا پر سے سنسر شپ کا خاتمہ، ملک کے متعدد گروہ جنھیں غیر قانونی قرار دیا جاچکا تھا، انھیں قانونی قرار دیا اور انھیں ملکی سیاست کے بنیادی دھارے میں شامل کیا، اس کے ساتھ ہی وہ فوجی اور سویلین افسران جن پر بدعنوانیوں کے الزامات تھے، انھیں فوری طور پر برطرف کردیا۔ یہ وہ اقدامات تھے جنھیں ایتھوپیا اور آس پاس کے ملکوں میں تعریفی نگاہوں سے دیکھا گیا۔
ابی احمد علی نے ملکی سیاست اور سماجی معاملات میں خواتین کے اثر و رسوخ کو بڑھایا۔ یہ ایک نہایت اہم اقدام تھا جس کی توصیف ملک کے بیشتر حلقوں نے کی۔ اس کے ساتھ ہی ایتھوپین وزیر اعظم نے لوگوں سے یہ وعدہ بھی کیا کہ آنے والے دنوں میں وہ نہ صرف جمہوری اقدار کو مستحکم کریں گے بلکہ آیندہ آزادانہ اور شفاف انتخابات بھی کرائیں گے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد انھوں نے ایریٹریا اور جبوتی سے بہتر تعلقات قائم کیے جب کہ ان ملکوں سے ایتھوپیا کے کشیدہ تعلقات چل رہے تھے۔ اسی طرح کینیا، صومالیہ اور سوڈان سے بھی امن مذاکرات چل رہے ہیں۔
ایتھوپیا میں مختلف نسلیں، زبانوں کے بولنے والے اور عقائد کے ماننے والے آباد ہیں۔ خود وزیر اعظم ابی احمد مسلمان باپ اور مسیحی ماں کے بیٹے ہیں۔ ایتھوپیا کے ایک دور دراز علاقے میں غربت کے مارے ہوئے ابی احمد کے بارے میں کبھی کسی نے تصور نہیں کیا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر کلرک بھی بن سکیں گے۔ ابی احمد نے یہ کمال کیا کہ آج وہ ملک کے ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جو اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں بہت کچھ کر رہا ہے اور بہت کچھ کرنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ انھوں نے اپنے لوگوں کے دلوں میں امید کی لو جلائی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ نوجوان ابی احمد ان کی سیاہ بختیوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
اس کے باوجود بہت سے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات بھی ہیں۔ ان ہی میں سے دو ایسے دانشور بھی ہیں جو کہتے ہیں ابی احمد نے نوبل انعام جیت لیا ہے لیکن انھیں دنیا پر ثابت کرنا ہے کہ وہ واقعی اس انعام کے حقدار ہیں۔ توبلاس حجمان اور کے ٹرونوول یونیورسٹی آف ڈنمارک اور اوسلو میں امن اور متصادم قوتوں کے درمیان صلح کے معاملات پر پڑھاتے ہیں۔ ان دونوں دانشوروں کا افریقا کے کئی ملکوں کے مسائل و معاملات سے تعلق رہا ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ ایتھوپیا طویل عرصے سے اختلافات اور مسلح تصادم کا شکار رہا ہے، ایسے میں ہم ابی احمد سے معجزات کی توقع نہیں رکھتے۔ انھیں نوبل امن انعام یقینا مل گیا ہے لیکن انھیں ابھی کچھ کر دکھانا ہو گا۔
(جاری ہے)