1947میں کراچی ایک محبوب ومطلوب شہر تھا۔ دل آرا اور عالم آرا۔ اسے پاکستان کا وفاقی دارالحکومت بنایا گیا۔ خانماں بربادوں کے قافلوں نے یہاں پڑاؤ ڈالا اور اپنی داستان ستم اپنے ساتھ لائے۔ دلوں میں انتقام کے بھانبھڑ جل رہے تھے۔ کوئی یہ کہنے والا نہ تھا کہ تمہارے ساتھ جنھوں نے ظلم کیا، وہ بہت پیچھے رہ گئے۔ یہاں والوں کو کیوں لوٹتے ہو؟
یہ تو خود ہی آنے والے دنوں کے خوف سے پتے کی طرح کانپتے ہیں۔ جس طرح تمہیں اپنی مسہریوں، الماریوں اور برتن بھانڈوں کا قلق ہے، اسی طرح یہ بھی ریشمی کپڑوں سے بھرے ہوئے صندوقوں، آم کی اچاریوں، لحافوں اور توشکوں، چینی کے برتنوں پر حسرت سے نظرکرتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نہ جانے کون سا دل بند ریڈ کلف کی کھینچی ہوئی لکیرکو جان کی سلامتی کے ساتھ پارکرے گا اورکس چاند کے ٹکڑے کو ہوس کی آگ جلا کر راکھ کردے گی۔
اس طرف سے اس طرف جانے اور آنے والوں کے سینے کڑوی یادوں کے جہنم بن گئے۔ کراچی کے بارے میں خیال تھا کہ اس نئے شہر نگر کو سجایا اور سنوارا جائے گا اور انگریز بہادر کا یہ جملہ سچا ہوگا کہ یہ بستی " ملکۂ مشرق" ہے، لیکن زندگی کروٹیں لیتی رہی اور چند برس کے اندر یہ شہر مجموعۂ اضداد بن گیا۔ پہلا ریلا ان آنے والوں کا تھا جو ریڈکلف اور بلوائیوں کی مہربانیوں سے یہاں وارد ہوئے تھے، اس کے بعد آبادیوں کے ریلے آتے رہے اور شہر ان کے ساتھ پھیلتا رہا۔ نہ آبادکاری کے لیے کوئی منصوبہ بندی تھی، نہ بیروزگاروں کے روزگار کے لیے کوئی سوچنے سمجھنے والا۔
اس وقت کراچی کے بے مثال فرزند جمشید نسروان جی نے کہا تھا ان حیران پریشان اور خستہ حال نوجوانوں کا کیا ہوگا جن کے تن پر خستہ کپڑے ہیں اور پیروں میں ٹوٹے ہوئے چپل۔ یہ کیا کمائیں گے اورکہاں سے اپنے گھر والوں کوکھلائیں گے۔ یہ چند برسوں بعد شہر میں پھیل جائیں گے اور انھیں سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک بڈھے پارسی کی بات مملکت اسلامیہ میں کون سنتا۔ اور پھر چند برس بعد ہم نے نوجوانوں کے انبوہ دیکھے جو غولِ بیابانی بن گئے۔
کراچی کے ماضی میں دیکھیے، کیسا بسا بسایا اور سجا سنورا ہوا شہر ہے جس میں پارسی، کرسچن، ہندو، مسلمان سب ہی آباد ہیں۔ یہاں 30 اور 40 کی دہائی میں بنائی جانے والی کئی منزلہ عمارتیں ہیں۔ یہ فریئر ہال ہے اور جہانگیرکوٹھاری پریڈ۔ یہاں سینما جہاں سے نکلے ہوئے لوگ خوابوں میں ان شہزادیوں کا تعاقب کرتے ہیں جنھیں وہ ابھی دیکھ کر آئے ہیں۔ اسکول، کالج اور اسپتال ہیں۔ پیروں میں گھنگھرو باندھے چھم چھم کرتی نازنینیں ہیں۔ پارسیوں کی پرسکون اور خاموش بستیاں ہیں جن میں کسی وزیر اعظم کے حکم سے نہیں، عقل و خرد کے ہاتھوں نے سارے علاقے کوگل وگلزار کر رکھا ہے۔ اس شہر میں کیا نہیں ہے۔ میلوں پرے مگرمچھوں کے تالاب ہیں اور شہر کے درمیان سے گزرتی ہوئی ٹرام ہے۔ اس میں سفرکرنے والے شہرکا تماشا دیکھتے چلے جاتے ہیں اور مسافت ٹرام کے آہنی پہیوں کے نیچے سے سرسراتی ہوئی گزرتی چلی جاتی ہے۔
ہم میں سے کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس شہر میں غول بیابانی ہونکتے ہوئے نکلیں گے اور اسے ہضم کرلیں گے۔ بلوے اور قتل و غارت کا جو سفر 6 جنوری 1948 کو شروع ہوا تھا وہ پھیلتا گیا۔ اسی کا ایک نتیجہ بد دلی اور ہندوستان واپسی کی صورت میں نکلا۔ مارچ 1948 تک ایک لاکھ پندرہ ہزار تاریکین وطن، واپس اپنے آبائی گھروں کو چلے گئے۔ 1947سے 1948 تک شہر میں ایک تنا تنی رہی۔ آبادی کے مختلف گروہوں میں ٹھنی رہی اوپر سے ستم یہ ہوا کہ جمہوریت کا بسترگول کردیا گیا اور تزک واحتشام کے ساتھ 1958 میں مارشل لا نافذ ہوا۔ بتایا گیا کہ اس کے زیر سایہ دودھ شہدکی نہریں بہیں گی۔ یہی دن تھے جب نیویارک ٹائمز پاکستان اور بہ طور خاص کراچی کی تیز رفتار ترقی کے بارے میں لکھ رہا تھا، دوسری طرف ملک اور شہر میں ایک بے کلی اور بے چینی تھی۔
لوگ فوجی حکومت کے کڑوے پن سے بیزار تھے۔ ایسے میں محترمہ فاطمہ جناح نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور وہ کراچی سے کرنافلی تک عوام کی نگاہوں کا مرکز بن گئیں۔ انھیں جس شرم ناک دھاندلی سے ہرایا گیا وہ ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پورے مغربی پاکستان میں یہ صرف کراچی ڈویژن تھا جہاں سے جنرل ایوب کو شکست ہوئی۔ یہ ایک آمر اور اس کی فتح کا جشن منانے والوں کے لیے ناقابل برداشت صورتحال تھی، اس کی فتح کے جلوس نکالے گئے۔ اس میں شامل لوگوں نے غریب بستیوں میں گھس کر جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا۔
دو درجن سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، سیکڑوںبگھیاں جلائی گئیں، آمرکے فرزند اور اس کے ساتھیوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی توہین کی تو ایک نیم خواندہ نوجوان سے یہ برداشت نہ ہوا وہ چھرا لہراتا ہوا اس جیپ پر چڑھ گیا جس میں ولی عہد بہادر سفر کر رہے تھے، نوجوان مارا گیا۔ بات اتنی بڑھی کہ کئی روز تک کراچی میں کرفیو رہا اور کئی علاقوں سے لاشیں اسپتال پہنچتی رہیں۔ یہاں سے اس نسلی منافرت کا بیج بویا گیا جو آگے چل کر ایک تناور پیڑ بن گیا۔
اس کے بعد کراچی میں سیاست کے نام پر جوکھیل ہوا، اس میں شہرکرفیو کے بغیر کئی کئی دن بند رہتا تھا اور سڑکوں پر خاموشی کا راج رہتا تھا۔ ان دنوں کراچی سے کچرا اٹھانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ برسات نے نکاسی آب کا سارا قصہ شہرکی گلیوں، محلوں میں کھول کر رکھ دیا ہے۔ سونے پر سہاگہ تین دن کی قربانی کے بعد سڑکوں پر پھیلی ہوئی آلائشیں ثابت ہوئیں، کوئی انھیں اٹھانے والا تھا۔ شہرکی مضافاتی بستیاں پہلے ہی کچرا کنڈی بنی ہوئی تھیں۔ برسات اور پھر قربانی کی آلائشیں بستیوں اور ان میں رہنے والوں کے لیے سزا بن گئیں۔ غلاظت اور عفونت کا وہ عالم ہے کہ یقین نہیں آتا۔ دور سے کھڑے ہوکر دیکھیے تو غلاظت کا ایک سمندر ہے جو ہزاروں گھروں کے درمیان سانس لے رہا ہے۔ اس کے قریب کھڑے ہوکر ہم سانس نہیں لے سکتے۔
وہ لوگ جو کراچی کو "صاف" کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ بعض خوشحال علاقوں کا کوڑا کرکٹ ادھر ادھر کر دینے سے کیا واقعی شہر کی صفائی ہو سکے گی۔ جہاں علاقے سمندر بن چکے ہیں، لوگ مختلف بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ ڈینگی انھیں شکار کر رہا ہے، وہاں کیا واقعی صفائی ممکن ہوسکے گی؟ وہاں کے لوگ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح سڑکوں سے گزر سکیں۔ ان کے علاقے میں میٹرنٹی ہوم، اسکول اور اسپتال کھل سکیں اور انھیں اس عفونت سے نجات مل سکے جو ان کے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔ سبزی کے ٹھیلے اور چائے کے ڈھابے غلاظت کے درمیان جزیرے نہ ہوں۔ ان بوڑھوں، نوجوانوں، عورتوں اور بچوں کی جسمانی صحت اور ذہنی حالت کیسی ہوگی اس کا ہم بس تصور ہی کرسکتے ہیں۔
بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی ان علاقوں کی بجلی بند کردی جاتی ہے۔ ان علاقوں کے بچے امتحان کی تیاری کیسے کریں، ذہن کو جلا دینے والی کتابیں کیسے پڑھیں، صاف ستھرے کیسے رہیں اور بدبو کے بھبکوں سے، گندے پانی میں پرورش پاتے ہوئے مچھروں سے اور دوسری بیماریوں سے کیسے لڑیں۔ انھیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر وہ نفرت اور غصے سے دیکھتے ہوئے شہری نہ بنیں اور اپنے ہی جیسے لوگوں کی گردنیں نہ ادھیڑنے لگیں تو کیا ہمیں خود سے اور اپنے ان لوگوں سے شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ جنھوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کے آلام کے نام پر سیاست کرتے رہے، ان کے رہنما، ان کے رہبر بنے رہے۔ ان سے ووٹ لیتے رہے اور انھیں نظر انداز کرتے رہے۔ صدیوں پہلے میرؔ صاحب کہہ گئے تھے:
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں توکھول شہر کو سیلاب لے گیا
میرؔ صاحب نے یہ کمال شعر انسانوں کے بارے میں کہا تھا لیکن یہاں تو مگر مچھ ہیں اور ان کے آنسو ہیں۔