Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mushkil Waqt Samne Hai (1)

Mushkil Waqt Samne Hai (1)

دنیا میں کورونا کی وبا کو آئے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ یہ وبا اس قدر اچانک نمودار ہوئی کہ لوگوں کوسنبھلنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ عالمی ادارہ صحت بھی اس اچانک افتاد سے پریشان ہو گیا۔ چوں کہ یہ ایک نیا وائرس تھا لہٰذا اس ادارے کو بھی اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں کچھ وقت لگا۔ تمام ملکوں نے اپنے حالات کے مطابق اس آفت سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔

وقت گزرنے کے بعد بعض معاملات بھی واضح ہو گئے۔ ایک یہ کہ اس وائرس کی نوعیت کیاہے، یہ کس طرح لوگوں میں منتقل ہوتا ہے، اس کا کوئی علاج یا حفاظتی ٹیکہ موجود نہیں، کس عمر کے لوگ اس وائرس سے موت کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے کس طرح کی احتیاطی تدابیر اپنانی ضروری ہیں۔

چھ ماہ کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اب سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ اس مہلک وائر س سے بچنے کے لیے ماسک لگانا، سینی ٹائزر کا استعمال کرنا اور سماجی فاصلہ بنائے رکھنا لازمی ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے اس ہلاکت خیز وائرس سے بچنا تقریباً ممکن ہوتا ہے، جس ملک پر بھی وائرس حملہ آور ہوا، اس نے کاروبار حیات بند کیا اور لاک ڈاؤن کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ جن ممالک نے اس پالیسی پر سختی سے عمل کیا وہاں یہ وائرس بڑی حد تک قابو میں آ گیا اور جہاں حکومتوں یا شہریوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا وہاں اس وائرس نے بڑی تباہی پھیلائی، یہ وبا چند ملکوں میں آج بھی ہزاروں لوگوں کی جانیں لے رہی ہے۔ ان ملکوں میں امریکا اور برازیل سرفہرست ہیں۔

انسانوں کی ایک خاص نفسیات ہوتی ہے۔ وہ زیادہ دیر تک جبر اور پابندی قبول کرنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آئی ہے۔ بہت سے ملکوں میں لوگوں نے ابتدا میں ضروری اور ناگزیر پابندیوں پر خاصی حد تک عمل درآمد کیا لیکن جب یہ سلسلہ دراز ہونے لگا تو ان کے اعصاب بھی جواب دینے لگے۔

ایک طرف عام شہری گھروں میں رہ کر اکتاہٹ اور دباؤ کا شکار ہو رہے تھے تو دوسری جانب حکومتوں کو کاروبار بند ہونے کی وجہ سے سخت معاشی دباؤ کا سامنا تھا۔ کاروبار بند ہونے سے لوگ بیروزگار ہو رہے تھے، جن ملکوں کی معیشتیں مضبوط تھیں انھوں نے اپنے شہریوں کی مالی امداد کی، چھوٹے کاروبار بند ہونے سے بھی آبادی کا بڑا حصہ متاثرہوا حکومتوں کو انھیں بھی ریلیف پیکیج دینا پڑا۔ ہوا بازی سمیت خدمات اور پیداوار کے کئی بڑے ادارے بھی بند ہونے لگے۔

ان تمام عوامل کے باعث حکومتوں کی آمدنی کافی کم ہو گئی اور معیشتوں کی شرح نمو نیچے گر گئی۔ یہ اتنا بڑا دباؤ تھا کہ حکومتیں بھی زیادہ عرصے تک کاروبار بند رکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی تھیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں خود ان کے اپنے دیوالیہ ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومتیں لاک ڈاؤن ختم کر کے رفتہ رفتہ کاروبار کھول رہی ہیں اور ان کے ساتھ عوام بھی طویل اور "اختیاری نظر بندی" سے تنگ آ کر باہر نکل آئے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں لاک ڈاؤن ختم کرانے کے لیے بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں اور لوگ ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ رکھنے سے بھی انکار کر رہے ہیں۔ امریکا اور یورپ کے بعض ممالک میں ایسے مناظر کافی عام ہیں۔

دنیا کی حکومتیں اور عوام دونوں اس حقیقت کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کہ جب تک اس وائرس کی کوئی دوا اور ویکسین ایجاد نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس بیماری سے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں، لہٰذا غیر معینہ مدت تک گھروں میں نظر بند رہنا اور کاروبار کو بند رکھنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ کسی ویکسین کے آنے اور بڑے پیمانے پر عام لوگوں تک اس کی رسائی ہونے میں کم از کم ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کورونا وائرس سے بچا جائے اور زندگی میں واپس بھی آیا جائے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہناہے کہ 3 ہفتوں کے اندر ہماری معیشت کو معمول پر آ جانا چاہیے ورنہ اس کے بڑے نقصانات ہوں گے۔

البتہ اب وہ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ جب معمول کی زندگی بحال ہونے لگے تولوگ سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور ماسک کا استعمال بھی کریں۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ کا رویہ مختلف تھا۔ وہ خود بھی ماسک پہننے سے گریز کرتے تھے اور اب بھی نہیں پہنتے ہیں۔ امریکا کی طرح برازیل کے صدر نے بھی کہا ہے کہ احتیاطی اقدامات کے ساتھ کاروبار بحال کرنا ہو گا ورنہ بہت بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل جائے گی۔ برازیل کے صدر بھی پہلے کورونا وائرس کا جی بھر کے مذاق اڑایا کرتے تھے۔ شروع میں انھوں نے وبا کو نظر انداز کیا، اب برازیل، امریکا کے بعد دوسرا سب سے متاثرہ ملک ہے، جانیں بھی گئیں اور معیشت بھی برباد ہوئی، جب کوئی راستہ باقی نہیں بچا تو برازیل کو بھی تاخیر سے لگائی جانے والی پابندیاں ختم کرنی پڑ رہی ہیں۔

اب امریکااور برازیل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، عوام پابندیاں قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور دونوں ملکوں کی حکومتیں زیادہ نقصان اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔ اب یہی ہوگا کہ کورونا وائرس اپنے حملے جاری رکھے گا، لوگ بیمار پڑیں گے، 80 فیصد سے زیادہ صحت یاب ہو جائیں گے اور 5 سے 6 فیصد مریض ہلاک ہو جائیں گے۔ یہ سب ہوتا رہے گا اور اس کے ساتھ بازار اور کاروبار بھی کھلے رہیں گے، لوگ کام پر جائیں گے، بازاروں میں گھومیں گے اور ساحلوں پر نہائیں گے۔

گویا صورت یہ بن رہی ہے کہ کورونا اور کاروبار زندگی دونوں ساتھ ساتھ چلیں گے۔ کون کس پر حاوی آتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال زیادہ سے زیادہ ایک سے ڈیڑھ سال کا بحران باقی رہ گیا ہے۔ جب بہت سے ملکوں کی طرف سے ایجاد کردہ حفاظتی ادویات سامنے آ جائیں گی تو حالات بھی معمول پر آ جائیں گے اور کورونا کو بالآخر شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

حکومتوں اور شہریوں دونوں کو چاہیے کہ وہ اس مشکل وقت کو انتہائی دانش مندی، صبر اور استقامت کے ساتھ گزاریں۔ حکومتیں اپنے لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، جس علاقے میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی آئے اسے بند کر دیا جائے اور اسپتال، آکسیجن اور وینٹی لیٹرز کی بروقت دستیابی یقینی بنائی جائے۔ اسی طرح عام شہریوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ وائرس اپنی شدت کھو چکا لیکن موجود ہے لہٰذا جو بھی بد احتیاطی اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرے گا، نہ صرف اسے خود بلکہ اس کے پورے خاندان کو بھی ناقابل تلافی جانی اور مالی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

پوری دنیا کے لیے آنے والے دن بہت مشکل ثابت ہونے والے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر ملک جس معاشی بحران کی لپیٹ میں آنے والے ہیں۔ اس کے آثار ابھی سے نمودار ہونے لگے ہیں۔ اس عالمی وبا کی وجہ سے عالمی معیشت کافی سکڑ گئی ہے، ہر ملک میں لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے، بیروزگار لوگوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، صرف پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ خط افلاس سے نیچے جا چکے ہیں۔

منڈی میں طلب کم ہو گی تو نہ کارخانے چلیں گے اور نہ دکانوں میں پہلے کی طرح کاروبار ہو گا۔ اس سے حکومتوں کی آمدنی میں کمی واقع ہو گی اور وہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس لگاکر لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کی کوشش کریں گی، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور عام صارف کی قوت خرید مزید کم ہو جائے گی۔

عالمی سطح پر منڈیوں کے حصول کے لیے معاشی طور پر ترقی یافتہ ملک ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے لگیں گے اور عالمی و علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ امریکا، چین، ہندوستان کے درمیان اس نوعیت کی صورتحال تقریباً پیدا ہو چکی ہے۔ جو ملک معاشی بحران کا زیادہ شکار ہوں گے وہاں سیاسی عدم استحکام کا پیداہونا ناگزیر ہو گا۔ جب روزگار اور کاروبار کے وسائل اور مواقع محدود ہو جائیں گے تو ہر فرد اور گروہ کی یہی کوشش ہو گی کہ اس کے حصے میں کوئی کمی یا کٹوتی نہ ہو اور یہی مسئلہ سیاسی اور سماجی سطح پر کشیدگی اور محاذ آرائی کی بنیادی وجہ بنے گا۔ (جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.