پرندے بھی کیا کمال دکھاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو اپنے بچپن کو یاد کیجیے۔ جس میں ماؤں، نانیوں اور دادیوں سے سنی ہوئی کہانیاں تھیں۔ یہ کہانیاں روز مرہ کی زندگی سے جڑی ہوتی تھیں اور ہم سب کی سمجھ میں آسانی سے آجاتی تھیں۔ سرکنڈے کی گاڑی میں دو مینڈک جوتے جائیں، راجا مارے پودنی، ہم لڑنے مرنے جائیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک ننھی سی چڑیا تھی، وہ اپنی دھن میں مگن بادشاہ کے محل پر سے اڑتی ہوئی جارہی تھی کہ اس نے ایک بہروپیے کو دیکھا۔
اس نے دیکھا کہ بہروپیے نے وزیراعظم، سپہ سالار اور قاضی کے ساتھ سازباز کرکے ملک کے اصل بادشاہ کو قتل کردیا ہے اور اب اسے دفن کرکے، اس کا لباس اور تاج پہن کر تخت پر بیٹھ گیا ہے، دربار میں کسی کو خبر نہیں اور جنھیں خبر ہے انھیں تلوار سے، تیر سے اور تفنگ سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔
ننھی سی چڑیا سے یہ ظلم دیکھا نہ گیا، وہ محل پر سے اڑان بھرتی ہوئی نکلی اور ایک شاخ سے دوسری شاخ، ایک باغ سے دوسرے باغ اور ایک بستی سے دوسری بستی تک بادشاہ کے قتل کی خبر دیتی ہوئی اڑتی چلی گئی۔ یہ خبر رعایا کے کانوں تک پہنچی تو لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ بہروپیے کو بھی خبر ہوئی، اس نے وزیراعظم اور سپہ سالار سے کہا کہ اس ناہنجار چڑیا کی گردن اڑا دی جائے۔ اسی وقت قاضی نے دست بستہ عرض کیا کہ حضور اس ننھی سی جان کا خون اپنی گردن پر کیوں لیتے ہیں۔ اس کی زبان کٹوا دیجیے، نہ زبان ہوگی، نہ یہ بات اوروں تک پہنچے گی، اور ہاں یہ سزا اسے رعایا کے سامنے دیجیے اور اعلان کروا دیجیے کہ جو اس ناہنجار چڑیا کی طرح جھوٹ بولے گا، اس کی زبان نہیں گردن اڑا دی جائے گی۔
بہروپیے نے قاضی کے اس مشورے پر صاد کیا، ایک میدان میں رعایا کو اکٹھا کیا گیا، بہروپیا بھی شاہی لباس اور تاج سر پر سجا کر آیا، دربار لگا اور ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر قلم تراش سے چڑیا کی ننھی سی زبان اڑادی۔ رعایا مطمئن ہوگئی کہ جھوٹی چڑیا اپنے انجام کو پہنچی اور بہروپیا بادشاہ، سازشی وزیراعظم، سپہ سالار اور قاضی، سکون سے اپنے اپنے محل میں سکھ کی نیند سوئے لیکن صبح جب ان سب کی آنکھ کھلی تو ہر طرف بادشاہ کے قتل کی خبر اس چڑیا کی آواز میں گونج رہی تھی جس کی زبان ایک روز پہلے قلم تراش سے اڑائی جاچکی تھی۔
بہروپیے بادشاہ سے جھوٹے قاضی تک سب ہی حیران پریشان تھے کہ ماجرا کیا ہے۔ پوچھ گچھ سے معلوم ہوا کہ کٹی ہوئی زبان والی چڑیا جب درد سے نڈھال اڑی تو وہ جہاں جہاں سے گزری وہاں اس کی لہولہان چونچ سے زمین پر گرنے والے خون کے ہر قطرے سے ایک نئی زبان اُگ آئی اور اب یہ وہی سیکڑوں ہزاروں زبانیں تھیں جو باغوں میں، بازاروں میں، گلیوں میں اور گزرگاہوں میں رعایا کو سچ سنارہی تھیں۔
ہمارے یہاں اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں کا جو حال ہوچکا ہے وہ ہم میں سے کسی سے ڈھکا چھپکا نہیں، میڈیا سے وابستہ افراد اس چڑیا کے لہو سے اُگنے والی زبانیں ہیں۔ آمریت سچ بولنے والی کسی ایک زبان کو کاٹ دیتی ہے تو اس کی جگہ سچ بولنے والی سو زبانیں اُگ آتی ہیں۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ برصغیر کی صحافت جس نے تاج برطانیہ کے چنگل سے برصغیر کی رہائی میں ایک نہایت اہم اور بنیادی کردار ادا کیا، اس کا آغاز ایک برطانوی نژاد شخص کے ہاتھوں ہوا۔ پلاسی میں سراج الدولہ کی شکست کے بعد بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں آچکا تھا اور بنگال کی دولت کا رخ لندن کی طرف ہوچکا تھا۔ بہت سے برطانوی مہم جُو اس زمانے میں کمپنی کی فوج میں ملازمت یا تجارت کی غرض سے کلکتے کا رخ کررہے تھے۔
ان ہی میں سے ایک James Hicky تھا، وہ تجارت کی غرض سے 1775 میں کلکتہ پہنچا اور صرف ایک سال اندر اپنی جمع پونجی لٹا کر دیوالیہ ہوگیا۔ اس کے قرض خواہوں نے اپنا روپیہ واپس نہ ملنے کا انتقام اس طرح لیا کہ ہکّی کو جیل پہنچا کر دم لیا۔
ہکّی کے کہنے کے مطابق تجارت میں اسے جو نقصان ہوا اس کی ذمے داری ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعلیٰ افسران کی تھی جو رشوت ستانی اور بدعنوانی میں طاق ہوچکے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ ان بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرنا چاہیے، چنانچہ جیسے ہی وہ رہا ہوا، اس نے 29 مارچ 1780 کو ایک ہفت روزہ رسالہ Hicky’s Bengal Gazette جاری کیا۔ اس گزٹ نے بنگال سے برطانیہ تک ایک تہلکہ مچادیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہکّی نے گورنر جنرل (انتظامیہ)، چیف جسٹس (عدلیہ) اور فرسٹ بشپ (چرچ) کی تمام بدمعاملگیوں کو اپنے گزٹ میں افشا کردیا تھا۔
ہکی گزٹ کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر میں اسی گزٹ نے بے باک صحافت کی بنیاد رکھی اور 1947ء تک انگریزی، بنگلہ، اردو، ہندی اور دوسری زبانوں کے اخبارات نے اسی کی پیروی میں تحریکِ آزادی کے ہراول دستے کا شاندار کارنامہ سرانجام دیا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی قوموں کی آزادی اور ملکوں کی خود مختاری کو قائم رکھنے میں صحافت کا عمل دخل روز بہ روز بڑھتا گیا، یہاں تک کہ اب ایک عرصے سے صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ یہ چوتھا ستون جو پہلے صرف لکھے اور چھپے ہوئے حروف کا نام تھا، الیکٹرانک میڈیا کے ورددِ مسعود کے بعد "میڈیا" کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس ستون کی بنیادوں میں سچ لکھنے والے ان گنت جی داروں کا لہو ہے۔
تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں "میڈیا" نامی اس ستون کو ریاست کے دوسرے ستون کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے اور اس میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں کیا فوجی اور کیا جمہوری حکومتیں سب ہی نے "حسب توفیق" اور "حسب استطاعت" اس چوتھے ستون کو زمیں بوس کرنے کی اپنی سی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ ایک طرف انتظامیہ کی یہ کوششیں ہیں دوسری طرف وہ قبیلہ ہے جو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہے۔ اس قبیلے کے افراد اپنے ناتواں شانوں پر نہ صرف اس ستون کا سارا بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں بلکہ کچھ نے اس کے محافظوں کا کردار بھی سنبھال رکھا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اس ستون کو نقصان پہنچانے والوں سے اپنی بساط بھر لڑتے ہیں۔ حکومت کے سیاہ پریس قوانین کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، لکھتے ہیں، جلسے کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں۔ ریاست سے انفرادی طور پر لڑنا ممکن نہیں اس لیے انھوں نے ابتدا سے اپنی انجمنیں بنا رکھی ہیں۔ یہ سب انجمنیں مل کر حکومت سے اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہیں اور خود ان کے درمیان اگر کالی بھیڑیں موجود ہوں تو ان کا مقابلہ بھی جم کر کرتی ہیں۔ میڈیا کی آزادی کا جمہوریت سے جو ناقابلِ تنسیخ رشتہ ہے، وہ روح اور بدن کے رشتے کی مانند ہے، ایک کے بغیر دوسرے کی زندگی ممکن نہیں۔ یہ بات اگر اربابِ اختیار کی سمجھ میں آجائے تو ہر فوجی یاجمہوریت کا مکھوٹا چڑھائے آمرانہ حکومت میڈیا کی گردن مروڑنے کا خیال بھی ذہن میں نہ لائے۔
بات اتنی سی ہے کہ برطانیہ کی براہ راست غلامی میں لگ بھگ ایک صدی گزارنے کے بعد آئینی طور پر 1947 میں جب ہم آزاد ہوئے، تب بھی ہماری روح مکمل طور پر آزاد نہ ہوسکی۔ ہمارے پاس کوئی آئین موجود نہ تھا اس لیے ہم نے برطانوی عہد غلامی کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو عملاً مکمل طور پر اپنالیا۔ اس ایکٹ کے تحت پریس پر جو پابندیاں عائد تھیں، آزاد پاکستان میں بھی پریس پر وہی قدغن رہی، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ ملک آزاد ہوگیا، مگر پریس کے پیروں میں غلامی کی زنجیریں رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ایسے تمام قوانین کو ختم کردیا جاتا جو غیر ملکی آقاؤں نے پنے ناجائز تسلط کو قائم رکھنے کے لیے تشکیل دیے تھے لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔
آزادی ملنے کے بعد ہمارے نئے گندم گوں آقاؤں نے عوام اور پریس کو ان محدود حقوق سے بھی محروم کردیا جو نوآبادیاتی دور میں انھیں حاصل تھے۔ پاکستانی پریس نے اظہار رائے کی آزادی کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ہے، اس جدوجہد کے دوران کئی اخبارات اور رسائل بند ہوئے، بہت سے صحافیوں نے جیل کاٹی، کوڑے کھائے۔ تاہم ملک میں محدود جمہوریت کی بحالی، بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی اور صحافیوں کی مسلسل جدوجہد کی بناء پر مختلف پاکستانی حکومتوں کو اس بات پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ پریس کو نسبتاً آزاد فضا فراہم کریں۔ لیکن یہ وہ خواب ہیں جو ہم دیکھتے ہیں اور پھر ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔
ان دنوں مجھے بار بار اپنی وہ کہانی یاد آتی ہے جس میں ایک چہکتی ہوئی اور سچ بولتی ہوئی چڑیا تھی۔ اس نے لوگوں کو ایک قتل کی خبردی تھی، اس جرم کی سزا میں، بہروپیے بادشاہ اور اس کے ساتھی قاضی، سپہ سالار اور وزیراعظم نے اس کی زبان کٹوادی تھی اور اس کے زخم سے گرنے والی خون کی ہر بوند سے ایک نئی زبان اُگ آئی تھی اور سچ بولتی رہی تھی۔ حکمرانوں اور حکومتوں کو یہ بات کبھی یاد نہیں رہتی کہ سچ کا قتل، کہیں زیادہ شدت سے سچ کے سیلاب کو جنم دیتا ہے جس میں بادشاہتیں اور حکومتیں بہہ جاتی ہیں۔