پاکستان بنانے والے، اس میں رہنے والے اور اس میں پیدا ہونے والے اسی عذاب سے گزر رہے ہیں۔ بہت سے اچھے دنوں کی امید کرتے ہوئے اس جہاں سے چلے گئے۔ وہ جو رہ گئے ہیں، سوچتے ہیں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک ان کی زندگی جس طرح اکارت ہوئی، اس میں ان کا کیا قصور تھا؟
وہ لوگ آہستہ آہستہ اٹھتے جارہے ہیں جنھیں ایک جمہوری سماج کے خواب دکھائے گئے تھے۔ ان کے بعد آنے والے سوچتے ہیں کہ ان سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ انھیں ایک ایسے ملک میں رہنا پڑرہا ہے جہاں آئین کی پاسداری، جمہوریت کی آبیاری کے بجائے انسانی اورآئینی حقوق سے محرومی ان کا مقدر بنی۔
یہ ایسا موضوع ہے جس پر دانشوروں اور سماجی علوم سے تعلق رکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا لیکن اقتدار پر قابض قوتوں اور اداروں نے نہ حالات کی طرف توجہ دی اور نہ اہم دانشوروں کی باتوں کو درخور ِاعتناء سمجھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک وجود میں آئے ہوئے 73 برس گزرگئے لیکن آج بھی ہم یوسف بے کارواں ہوئے پھرتے ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کے لوگ یہ سب کچھ سمجھ چکے تھے، اسی لیے پہلے تو وہ اپنے اور مغربی پاکستان کے جمہوری اورآئینی حقوق کے لیے لڑتے رہے۔
انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کے لیے سردھڑکی بازی لگا دی لیکن جب انھیں مغربی پاکستان میں شرمناک دھاندلی سے ہرا دیا گیا اور بات بگڑتی ہی چلی گئی تو انھوں نے اپنی آزادی ایک خونیں جدوجہد کے بعد حاصل کی اور اس کے بعد وہ اپنے حالات کو سنوارنے پر لگ گئے۔ آج وہ جہاں ہیں اس کی تفصیل جب سامنے آتی ہے تو ہم میں سے اکثر لوگوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کے حق میں ووٹ نہ ڈالے ہوتے تو پاکستان کا بننا ہی ممکن نہ تھا۔
ہمیں ان لوگوں کا ممنون ہونا چاہیے جنھوں نے اپنے قلم کو خوف اور مصلحتوں کی نذر نہیں کیا اور انھیں جب بھی موقع ملا وہ پاکستان کی سچی تاریخ لکھتے رہے۔ ایسی ہی ایک کتاب " شب گزیدہ سحر" ہے جس کا ذیلی عنوان "پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی حکمرانی کا آغاز ( 1947-1958)۔ اسے انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے شایع کیا ہے۔ ہمارے ایک اہم دانشور اور اسکالر ڈاکٹرسید جعفر احمد نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا احاطہ ایک بڑے اردو اخبار میں قسط وارکیا تھا۔
"شب گزیدہ سحر" میں ڈاکٹر جعفر احمد نے ملک کی تاریخ کے ابتدائی دس گیارہ برسوں کا احاطہ کیا اور بہ قول ڈاکٹر جعفر " یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایک جمہوری وفاق اورایک خوشحال مملکت بننے کے خواب کے ساتھ جو ملک وجود میں آیا وہ آغاز کار ہی سے آمریت کے راستے پر کس طرح ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں آمرانہ طرز حکمرانی کی تاریخی جڑیں تو دورغلامی کے استعماری فلسفہ حکمرانی ہی میں بنیاد رکھتی تھیں۔ آزادی کے بعد پاکستانی ریاست ایک حقیقی جمہوری اور وفاقی مملکت کے قالب میں نہیں ڈھل سکی۔ ایک جدید نو آبادیاتی نظام پاکستان میں یوں جاری و ساری ہوا کہ آج تک اس کا یہ تشخص اورکردار تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔"
وہ دو ٹوک لفظوں میں کہتے ہیں کہ " پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں دنیا کے جمہوری ممالک اپنے بحرانوں سے نکل کر مزید مضبوط اور توانا بنتے ہیں وہاں ہمارے بحران ہماری بنیادوں کو مزید کھوکھلا کرکے ہمیں نئے بحرانوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ جمہوریت، وفاقیت، قانون کی بالادستی اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام پاکستان کے قیام کے بنیادی مقاصد تھے۔
اس کتاب کے بارے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ ہماری ابتدائی تاریخ کو ہمارے سامنے واضح کرتی ہے۔ اس بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ " 1947 میں پاکستان کا قیام اس عزم اور ارادے کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ یہ ملک ایک جدید جمہوری ریاست کے طور پر اپنے سفرکا آغاز کرے گا۔ اس کی بنیادیں جمہور کے اقتدار اعلیٰ کے تصور پر استوار ہوں گی اور اس کی اقتصادی اورسماجی پالیسیاں ایک منصفانہ معاشرے کے قیام پر منتج ہوں گی، لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد ماضی کے یہ سب آدرش اور خواب قصۂ پارینہ بن کررہ گئے۔ آزادی کے فوراً بعدہی غیرسیاسی اور غیرجمہوری قوتوں نے ملک کے ریاستی اقتدار پر تصرف حاصل کر لیا۔ تب سے اب تک سات سے زیادہ عشرے گزرنے کے باوجود پاکستان کی آزادی سے قبل کے خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہیں۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلاآیا ہے۔
سات عشروں کے سفر میں ملک کئی آئینی تجربوں سے گزرا ہے لیکن ملک کے آئینی اور سیاسی اداروں کو استحکام حاصل نہیں ہوسکا یاان کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔ اس عرصے میں ملک چار مرتبہ براہ راست باوردی حکمرانی کے تجربے سے بھی گزرا۔ آج اگر پیچھے مڑکر دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکارممکن نہیں ہوگا کہ گزشتہ ستر سے زیادہ برسوں میں ملک جس بگاڑ سے دو چار رہا اس کی بنیادیں آزادی کے بعد کے پہلے عشرے ہی میں رکھ دی گئی تھیں۔ یہ کتاب آزادی کے بعد کے دس گیارہ برسوں کے سیاسی رجحانات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کو پڑھ کر اندازہ ہوسکے گا کہ ہم نے آزادی کی سحر کو کس طرح شب گزیدہ سحر بنایا تھا اور یہ بھی کہ یہ شب گزیدہ کیوں اتنا طول پکڑتی چلی گئی۔
وہ ریاست بہاولپور اور ریاست قلات کا بھی تفصیلی سے ذکرکرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کے برخاست کیے جانے پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ پنڈی سازش کیس پر انھوں نے بہت تفصیل سے لکھا ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ پنڈی سازش کیس کے پیچھے ایک اور سازش بھی موجود تھی جو زیادہ گہری تھی۔
ڈاکٹر جعفر ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ امریکا سے بہترین تعلقات کے لیے ملکی بیوروکریسی کی بے قراری کا اندازہ اس دور پر لکھی جانے والی کتابوں سے ہوتا ہے۔ وہ ہمیں بلا کم و کاست ان اہم واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔" خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے اٹھارہ ماہ بعد 24 اکتوبر 1954ء کو انھوں نے بوگرہ کو برطرف اور دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم کو فوراً اپنا بیرونی دورہ ختم کرکے واپس آنے کو کہا گیا۔ ایوب خان اس دورے میں بوگرہ کے ساتھ تھے جب کہ اسکندر مرزا علاج کے غرض سے لندن گئے ہوئے تھے۔ جب وزیر اعظم امریکا سے وطن واپس آتے ہوئے انگلستان پہنچے تو اسکندر مرزا بھی اس قافلے کے ساتھ ہو لیے۔ کراچی پہنچنے کے بعد ایوب اور مرزا، وزیر اعظم کو تقریباً بزورگاڑی میں بٹھا کر گورنر جنرل ہائوس چلے گئے۔ جہاں غلام محمد نے ان کی تواضع بے ہودہ گالیوں سے کی۔
ایوب خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو گورنر جنرل کے روبرو پیش کرنے سے ذرا پہلے ان کی گورنر جنرل سے ملاقات ہوئی جس میں غلام محمد نے انھیں اقتدار سنبھالنے اور تین ماہ میں دستور بنانے کا مشورہ دیا جس کو بقول ایوب خان انھوں نے رد کر دیا۔ تب وزیراعظم کو گورنر جنرل کے سامنے لایا گیا اور وزیر اعظم کو مجبورکیا گیاکہ وہ گورنر جنرل کے اقدامات کی حمایت کریں۔ اسمبلی اور وزارت کو توڑنے کے فیصلوں پر وزیر اعظم کی توثیق حاصل کرنے کے بعد انھیں مزید مجبورکیا گیا کہ وہ ایک نئی کابینہ تشکیل دیں۔ اس کابینہ کے اراکین کا فیصلہ گورنر جنرل پہلے ہی کرچکے تھے۔ گورنر جنرل نے بوگرہ اور اسمبلی کے خلاف جو کارروائی کی، اس میں انھیں ایوب خان کی پس پردہ تائید حاصل تھی۔
یہ کتاب پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا تفصیل سے جائزہ لیتی ہے اور نئی نسل کے لیے بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ آج پاکستان میں جمہوریت پر جو پیمبری وقت پڑا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ڈاکٹر جعفرکی کتاب ایک اہم دستاویز ہے، وہ اگر 1958 کے بعد ملک پر جوگزری اوراس کے نتائج آج تک ہم پر جو سیاہ سائے ڈال رہے ہیں، اس کا بھی جائزہ لیں اور اپنے مضامین کو یکجا کرکے شایع کریں تو یہ نئی نسل کے لیے بہ طورخاص نہایت اہم ہوگا۔ گزشتہ تاریخ کو جانے بغیر آج کی جمہوری لڑائی میں نئی نسل زیادہ مؤثرکردار نہیں ادا کرسکے گی۔