شیخ ایاز مارچ 1923 میں پیدا ہوئے تھے اور 28 دسمبر 1997کو اس جہان سے گزرے۔ ان کی رخصت کے موقعے پر شیخ صاحب کی ایک یاد گار تحریر آپ کے نظر ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
تین سو سال قبل اردو زبان قلعہ معلی میں پیدا ہوئی تاکہ یہ پورے برصغیر میں رابطے کا کام انجام دے سکے، انگریز نے اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے فورٹ ولیم کالج قائم کیا، جہاں اس نے کافی ترقی کی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ یہ چھ سو سال قبل پیدا ہوئی، میں ان کے اس تجزیے کو رد کرنا نہیں چاہتا۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی ترقی کے لیے دس ہزار سال لیے ہوں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھی زبان تقریباً 15 ہزار سال پرانی ہوئی اور عراق کی بولی جسے دنیا کی قدیم ترین بولی تصور کیا جاتا ہے، اس سے بھی قدیم ہے۔
اوپر کہی گئی بات سے میری مراد سندھی کی اردو پر برتری ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ میں سندھی بولی کی قدامت ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں بولیاں بین الاقوامی ہیں اور دونوں کو زندہ رہنے کا پورا حق ہے۔
اردو کو سندھی پر فضیلت ہے کہ یہ پاکستان کے آئین میں قومی زبان تسلیم کی گئی ہے۔ درحقیقت سرکاری اور دفتری زبان ابھی تک انگریزی ہے اور اردو صرف رابطے کی زبان ہے۔ ظاہر ہے کہ جب پشاور جاؤنگا تو مجھے تانگہ والے اور قصہ خوانی بازارکے دکان دار سے اردو میں گفتگو کرنا پڑے گی۔ سوال یہ ہے کہ اردو کراچی کے مہاجر یا نئے سندھی کی زبان ہے یا یہ پاکستان کی زبان ہے جس پر ہم بھی اتنا عبور حاصل کریں کہ نئے سندھیوں اور پنجابیوں کو پیچھے چھوڑ سکیں۔ اردو ہندوستان کی تقسیم اور بنگال کی علیحدگی کا ایک سبب بنی اور اب سندھ کی تقسیم کے لیے استعمال ہورہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی اردو یا جسے صرف پاکستانی کہا جائے کیا کسی کے باپ دادا کی جاگیر ہے؟ پنجاب کے اردو شاعر اختر شیرانی کے والد محمود شیرانی نے اپنی کتاب پنجاب میں اردو میں ثابت کیا ہے کہ اردو دہلی یا لکھنو میں نہیں بلکہ پنجاب میں پیدا ہوئی ہے۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے سندھ میں ہونے والی شاعری پر کتاب تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں شامل شاعری، حیدرآباد دکن کے قلی قطب شاہ کی شاعری سے بہت بہتر ہے۔ کتاب "دکن میں اردو" میں شامل اکثر شاعر سندھ کے اردو شاعروں سے بہتر نہیں ہیں۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے جو کلام جمع کیا ہے، وہ ایک سو سال یا اس سے قبل کا ہے۔ اردو شاعری کو سندھ میں اس مقام تک پہنچنے میں تین سو سال لگے ہوں گے۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اردو سندھ ہی میں پیدا ہوئی لیکن یہ دوسری بات ہے کہ دکنی خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ اردو ان کی سرزمیں پر پیدا ہوئی۔
پاکستان سے قبل، ہندوستانی اردو پانچ بولیوں کھڑی بولی، راجستھانی بولی، برج بھاشا، پوربی، میواتی اور بھوجپوری کے بے شمار الفاظ اپنے اندر سمو کر اپنا ذخیرہ وسیع کرچکی تھی جب کہ مولانا شبلی نعمانی یا اعظم گڑھ کے ادارہ مصنفین کے عالم اردو میں عربی اور فارسی کے اہم الفاظ استعمال کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اردو کی یہ وسعت تنگ ہوگئی اور اب یہ فقط فارسی اور عربی کے سہارے پنجاب کی اردو بن کر چل رہی ہے۔ پنجاب نے تقسیم سے کافی قبل اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا تھا اور پنجاب میں لفظ اہل زبان معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ نہ صرف یاس یگانہ چنگیزی بلکہ جگر مراد آبادی جیسے ہندوستان کے تسلیم شدہ شاعر کی پنجاب میں تذلیل کی گئی۔
آج اردو، قیام پاکستان کے 48 سال بعد بھی بولی جاتی ہے مگر یہ ہندوستانی اردو سے خاصی مختلف ہے، اسے اب پاکستانی بولی یا پاکستان کی زبان کہنا چاہیے۔ اس کی لکھنؤ والی نفاست اور دہلی والی شائستگی ہندوستان میں رہ گئی جہاں یہ آئین میں تسلیم شدہ زبان تو ہے مگر اسے سرکاری تحفظ بہت کم حاصل ہے۔ ہندوستان کی ساہتیہ اکیڈمی نے جو کتابیں اردو میں شایع کی ہیں ان میں ہندی، بنگالی، آسامی، تامل اور تیلگو زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل کیے ہیں جو ہمارے عوام بلکہ اردو دانشوروں کے لیے بھی نامانوس ہیں۔
ہماری اردو تو وہی ہے جو ہماری وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بولتی ہیں (وہ پاکستانی اردو خاصی اچھی بولتی ہیں)۔ سندھ کی اردو وہی ہے جو ٹی وی ڈراموں میں نور الہدیٰ شاہ، عبدالقادر جونیجو اور کہیر شوکت وغیرہ لکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ جب یہاں اردو کی صورت اتنی بدل جائے کہ اسے ہندوستان میں سمجھنے کے لیے پاکستانی لغت کی ضرورت پڑنے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری رابطے کی زبان پاکستانی ہے اب کوئی اسے اردو کا نام دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔
سندھ میں اردو کے خلاف تعصب کی بنیاد ون یونٹ والے دور میں پڑی، جب اردو کو ترجیح دے کر سندھی کو بالکل نظر انداز کیا گیا بلکہ مسترد کیا گیا۔ سندھ میں فقط میں واحد شاعر ہوں جس کے دو مجموعے "نیل کنٹھ اور نیم کے پتے" اور "بوئے دل نالہ دل" چھپ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے شاہ بھٹائی کے رسالے کا مکمل منظوم اردو ترجمہ کیا ہے جس کے تین ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ فقط مرحوم رشید احمد لاشاری اور چند دوسرے شاعروں نے آڑھی ترچھی غزل اردو میں لکھی ہے یا اب آغا سلیم شاہ کے رسالے پر اردو میں کام کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی ہماری مادری زبان ہے اور دنیا کی ہر دوسری زبان سے زیادہ عزیز ہے یہ کسی حد تک ذریعہ تعلیم بھی ہے اور روز بروز ترقی بھی کررہی ہے یہاں تک کہ روزانہ اس زبان میں ایک کتاب چھپ رہی ہے۔ جس کی مثال پاکستان کی کسی بھی زبان میں نہیں ملتی۔ مجھے سندھی ادبی سنگت کے سیکریٹری جنرل ادل سومرو نے بتایا کہ اس وقت سندھ میں تقریباً تیرہ ہزار شاعر ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی مادری زبان کو نظر انداز کیے بغیر پاکستانی اردو پر عبور حاصل نہیں کرسکتے؟ سندھی زبان میں پنجابی سے زیادہ فارسی اور عربی کے الفاظ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پرانے سندھی اردو پر اتنا ہی عبور حاصل کرسکتے ہیں جتنا کہ نئے سندھیوں کو ہے۔ نئے سندھی اپنی اجداد کی جانب سے وراثت میں ملنے والے محاورے ضرب المثل اور طرز گفتار وغیرہ بھول چکے ہیں اور سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی کے اکثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اس اردو کو اگر اردو کہا جائے تو یہ پاکستانی اردو ہے۔
فیروز اللغات کے مرتب ہونے سے آج تک تاریخ و ثقافت اس قدر بدل چکی ہے کہ اسی فیروز اللغات کے تقریباً آدھے الفاظ پنجاب میں متروک ہوچکے ہیں اور اس کا لب و لہجہ اس قدر بدل چکا ہے جو کہ دہلی، یوپی، مالوا اور بہار کے لیے اجنبی ہے، یوں ایک وقت ایسا آئے گا جو دونوں ملکوں کی زبان کا لب و لہجہ اس قدر بدل جائے گا جس طرح کہ برطانیہ کی انگریزی، امریکی و آسٹریلوی انگریزی سے مختلف ہے۔
پاکستانی اردو پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا۔ یہ ہماری اتنی ہی اپنی ہے جتنی کہ کسی دوسرے پاکستانی کی۔ کیا ہم پرانے سندھی اس اردو پر عبور حاصل کرکے مہاجر یا اردو دیش کے نعرے کو بے معنی نہیں بناسکتے۔ انسان جتنی بھی زبانیں سیکھے اس کی علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ زبان کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس سے تعصب بے معنی ہوتا ہے۔ کیا ہم یہ تجزیہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ ہمارا نقصان کہاں اور فائدہ کس چیز میں ہے۔ کیا ہم میں اتنی ذہانت اور طلب علم نہیں کہ ہم دیگر پاکستانیوں کی طرح اردو پر عبور حاصل کرسکیں؟ آخر پاکستانی اردو اقبال و فیض کی اردو ہے نہ کہ داغ دہلوی یا جیلانی بانو کی اردو۔ ہم خود کو کیوں اردو سے دور رکھیں کیا اس بات کا کوئی جواز ہے؟
بغیر کسی فرد، افراد، اداروں کی مدد، سہارے اور حمایت کے اردو کا پورے ہندوستان پر چھا جانا کرشمے سے کم حقیقت نہیں ہے، آپ بنگال سے چلیں، مدارس تشریف لے آئیں، آپ تب مدراسیوں سے مدارسی یا تامل زبان میں بات نہیں کرتے، کیونکہ یہ زبان آپ نہیں جانتے، آپ ان سے اپنی زبان بنگالی میں بھی بات نہیں کرسکتے کیونکہ مدارس چنائی کے لوگ بنگالی نہیں جانتے، آپ ان سے اردو میں بات کرتے ہیں، ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں اردو بولی اور سمجھی نہ جاتی ہو، تقسیم ہند سے پہلے اردو کو ہندوستانی بھی کہا جاتا تھا۔
صدر کراچی کے آٹھ دس سینما میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں، شہر کے باقی سینماؤں میں ہندوستانی فلمیں چلتی تھیں، وہ تمام فلمیں مع گانوں اور مکالموں کے اردو میں ہوتی تھیں، آزاد قبائل کے پہاڑی علاقوں سے روانہ ہوکر کراچی پہنچنے والے پٹھان گنتی کے چند ماہ میں اردو بولنے اور سمجھنے لگتے ہیں، اس کے برعکس آزاد قبائل سے آتے ہوئے پٹھان چند ماہ تو کیا برسوں میں بھی سندھی، پنجابی، بلوچی نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس سلسلے میں عمرانیات اور لسانیات کے ماہروں سے میں نے بات چیت کی ہے، کہیں سے بھی مجھے خاطر خواہ جواب نہیں ملا ہے۔
شیخ ایازرخصت ہوئے ان کی یاد گار تحریر ہمارے درمیان موجود ہے اور آج بھی وہ ہم سے سوال کررہے ہیں۔