ویت نام سنتے ہی آج بھی ہم چونک جاتے ہیں۔ ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جب ویت نام میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طویل مزاحمتی جنگ اپنے عروج پر تھی اور پوری دنیا میں امریکا مخالف اور گوریلوں کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہوا کرتے تھے۔
اس مزاحمت کی قیادت کرنے والے رہنما ہوچی منہ اور جنرل گیاپ نوجوان انقلابیوں کی پسندیدہ ترین شخصیت ہوا کرتے تھے۔ 1954ء سے لے کر 1975 تک یہ مزاحمت جاری رہی۔ شمالی ویت نام کی حمایت میں پورا سوویت بلاک اور چین کھڑا تھا جب کہ جنوبی ویت نام کی حمایت امریکا سمیت پورا مغرب کر رہا تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کوشش تھی کہ شمالی ویت نام پر قبضہ کر کے وہاں سے سوشل ازم کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اس طویل اور خوں ریز جنگ میں امریکا براہ راست شامل تھا، جس میں 33 لاکھ انسان ہلاک ہوئے، ان میں 20 لاکھ شہری اور 13 لاکھ فوجی شامل تھے۔ ویت نام کا جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہم ہے۔ اس کی سرحدیں چین، تھائی لینڈ، لاؤس اورکمبوڈیا سے ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اور علاقائی طاقتیں اس خطے پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوششوں میں مسلسل مصروف رہتی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
امریکا کے خلاف طویل جنگ میں شمالی ویت نام کو کامیابی حاصل ہوئی اور ویت نام کے دونوں حصے متحد ہو گئے۔ جنگ کے بعد اس ملک نے تعمیر نو کے مشکل کام کا آغاز کیا۔ اس وقت سب کا یہی خیال تھا کہ ویت نام کو ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہونے میں خاصا وقت لگے گا لیکن ویت نامیوں نے تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر دیا۔ آج تقریباً 10 کروڑ کی آبادی والا دنیا کا یہ 15 واں بڑا ملک حیران کن رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ چند ہی برسوں میں یہ ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں شامل ہو جائے گا۔ امیر اور غریب ملکوں میں بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن ترقی پذیر ملکوں کے حوالے سے غربت کی سب سے کم سطح ویت نام میں ہے۔
ہزاروں سال طویل تاریخ رکھنے والے اس کے باشندے مشکل ترین حالات میں بھی زندہ رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ حکمران کمیونسٹ پارٹی کو 1980 کی دہائی میں اندازہ ہو گیا تھا کہ دنیا سے الگ تھلک رہ کر ترقی ممکن نہیں، لہٰذا اس نے آزاد معاشی پالیسی اختیارکر کے دنیا سے معاشی تعلقات استوار کر لیے۔ چین کے بعد ویت نام دنیا کے کل پانچ کمیونسٹ ملکوں میں سے وہ دوسرا ملک ہے جو غیر معمولی رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ ویت نام کاجو اور کالی مرچ برآمد کرنے والادنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ کے بعد دنیا کو چاول برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اسے موٹر بائیکوں کا ملک بھی کہتے ہیں، 10 کروڑ آبادی والے اس ملک میں 6 کروڑ موٹربائیکس ہیں۔ دنیا میں صرف ہندوستان، چین اور انڈونیشیا میں ویت نام سے زیادہ موٹر بائیکس پائی جاتی ہیں۔ معاشی اور سماجی ترقی کے تمام اشاریوں کے حوالے سے ویت نام ہم جیسے ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ معاشی خوش حالی سے لوگوں کو مسرت اور سکون حاصل ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ ویت نام دنیا کے ان پانچ ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں کے لوگ سب سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔
آپ کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ اس وقت مجھے اچانک ویت نام کا خیال کیوں آ گیا۔ آج نومبر کی پہلی تاریخ نہیں کہ جب ویت نام جنگ کا آغاز ہوا تھا اور نہ 30 اپریل ہے جب یہ جنگ ختم ہوئی تھی اور سائیگون پر شمالی ویت نام کی فوجوں کا قبضہ ہوا تھا۔ مجھے اس ملک کا خیال یوں آیا کہ دنیا کا یہ وہ پہلا ملک ہے جس نے ہر ملک سے پہلے کورونا کے خلاف جنگ جیت لی تھی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ایک طرف امریکا ہے، جہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دوسری جانب اس کا سابق دشمن ملک ویت نام ہے، جہاں اس وائرس سے اب تک ایک ہلاکت بھی نہیں ہوئی ہے۔ یہ اس ملک کا ایسا شاندار کارنامہ ہے جس پر اس کا ذکر کرنا اور کالم لکھنا بہت ضروری ہے۔
ویت نام، چین کا پڑوسی ملک ہے۔ چین نے 31 دسمبر 2019 کو اس وائرس کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کو مطلع کیا تھا۔ جیسے ہی ویت نام کو معلوم ہوا کہ چین میں لوگ ایک نئے وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں تو اس نے وقت ضایع کیے بغیر ہنگامی اقدامات شروع کر دیے۔ 3 جنوری 2020 کو ایک شخص اپنے بیٹے سے ملنے ووہان سے ویت نام کے دارالحکومت ہوچی منہ سٹی پہنچا تھا۔ وہ کوروناوائرس میں مبتلا تھا جس کی تصدیق ہوتے ہی حکومت فوراًحرکت میں آ گئی۔ اس وقت تک ووہان میں صرف 2 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
لوگوں کا خیال تھا کہ ویت نام کی حکومت بوکھلا گئی ہے کیونکہ اب تک دنیا کے کسی بھی ملک کی حکومت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ 21 جنوری تک ویت نام میں اس وائرس کو روکنے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ چین کی سرحد کو بند کر دیا گیا۔ جن جگہوں سے لوگ ملک میں داخل ہو سکتے تھے وہاں اسکریننگ کا بندوبست کر دیا گیا۔ غیر ملکیوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی، جو ویت نامی شہری ملک واپس آ رہے تھے انھیں 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھا جانے لگا، اسکول بند کر دیے گئے، عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی، کھلی جگہوں پر ماسک لگانے کے قانون پر سختی سے عمل کرایا گیا۔ یہ سارے اقدامات عالمی ادارہ صحت کی جانب سے آنے والی ہدایات اور سفارشات سے پہلے کر لیے گئے تھے۔ یوں کہہ لیجیے کہ ویت نام، عالمی ادارہ صحت سے بھی آگے نکل گیا تھا۔
ویت نام میں یک جماعتی کمیونسٹ حکومت قائم ہے۔ اس نے عام روش سے ہٹ کر اپنے عوام کو بھرپور اعتماد میں لیا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پورے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا جس سے امریکا کے خلاف ویت نام کی جنگ کے دور کی یاد تازہ ہو گئی اور یوں لگنے لگا جیسے پورا ملک متحد ہو کر کسی بیرونی دشمن کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ویت نام کی دانش مندی تھی کہ اس نے بروقت خطرے کو بھانپ لیا اور اس کے آنے کا انتظار نہیں کیا۔ حکومت نے لوگوں سے کچھ نہیں چھپایا، درست اعداد و شمار پیش کیے، بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی حکومتی اعداد و شمار پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔
اپریل کے اختتام تک ویت نام نے کورونا وائرس کا خاتمہ کر دیا تھا اور 27 جولائی تک حالات بالکل درست سمت جا رہے تھے کہ اچانک معلوم ہوا کہ ویت نام میں سیاحوں کے شہر ڈانانگ میں گیارہ افراد اس وائرس میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ ان لوگوں کی عمریں 24 سے 70 سال کے درمیان ہیں۔ سیاحت، ویت نام کے لیے آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، حکومت نے ملک میں سیاحوں کے آنے پر پابندی لگا دی تھی لیکن جاپان ان ملکوں میں شامل ہے جسے استثنیٰ حاصل ہے۔ اب حکومت اس شہر سے 80ہزار لوگوں کا انخلا کر رہی ہے جن میں زیادہ تر سیاح شامل ہیں۔
اس مقصد کے لیے شہر سے روزانہ 100 پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔ ہائی الرٹ کے اعلان کے ساتھ ہی بہت بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ، اسکریننگ اور ٹریسنگ کی مہم شروع کردی گئی ہے اور فوری طور پر 12000 لوگوں کو قرنطینہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ کورونا کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے والے ملکوں کے لیے ویت نام ایک مثالی ملک ہے۔ لیکن 3 ماہ تک بھی کوئی نیا کیس ریکارڈ ہونے یا کوئی ہلاکت نہ ہونے کے باوجود یہ وائرس ویت نام میں پھر نمودار ہو گیا ہے جس سے سمجھنا چاہیے کہ جب تک اس کے خلاف کوئی دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہو جاتی اس وقت تک کسی بھی ملک کو بے فکر نہیں اور محض اعداد و شمار دیکھ کر اطمینان کی سانس نہیں لینی چاہیے۔ دنیا سے ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے، کسی ملک، شہر یا علاقے میں ایک شخص بھی اس وائرس کا شکار ہو کر اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ویکسین کے آنے تک کوئی یہ سمجھنے کی غلطی نہ کرے کہ اس وائرس کا خطرہ موجود نہیں ہے۔ آپ اسے رعایت دے سکتے ہیں لیکن یہ آپ کوکسی قسم کی رعایت نہیں دے گا۔
ماضی کی مثالی کارکردگی کو دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ویت نام اس مسئلے پر بھی قابو پا لے گا۔ ویت نام نے ہمیشہ دنیا کو حیران کیا ہے، جس طرح اس نے 45 سال پہلے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں اور غیرمعمولی طاقتور ملکوں کو جنگ میں شکست دی۔ اسی طرح اس نے آج ایک ایسے وائرس کو شکست سے دوچار کیا ہے جس کے سامنے امریکا اور ساری دنیا لرزہ براندام ہے۔ آپ ہی کہیں کیا، اس کارنامے پر ویت نام کو خراج تحسین پیش نہیں کیا جانا چاہیے؟