کوئٹہ سے لگ بھگ 70 کلومیٹر کے فاصلے پر مچھ کا چھوٹا سا شہر ہے جو کوئلے کی کانوں کے لیے مشہور ہے۔ برطانوی راج نے وہاں سے کوئلہ نکالا، مختلف علاقوں سے لاکر لوگ آباد کیے، ان میں براہوی، پشتو، پنجابی، ہند کو، سرائیکی، فارسی کے چند لہجے، بلوچی اور سندھی بولنے والے شامل تھے۔
اردو ان آبادیوں کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ایک بڑا بازار بھی بسایا گیا تھا، جہاں اتنے بہت سے انسان رہتے ہوں، وہاں چوری چکاری اور دوسرے چھوٹے بڑے جرائم بھی ہوتے ہونگے اس لیے 1929 میں ایک جیل بھی بنائی گئی جو آج بھی موجود ہے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بے گناہوں کے قتل کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس مرتبہ ایک بار پھر گزشتہ اتوار کو 11 ہزارہ بلوچ نوجوانوں کے قتل کی خبر آگئی۔ ان کا جرم ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنا تھا اور دوسرا جرم انتہائی غربت تھا۔ یہ لوگ جو پیشے کے اعتبار سے کان کن تھے، اپنے پاڑے میں سوئے تھے کہ اچانک کچھ لوگ ان کے سروں پر جا پہنچے۔ انھوں نے ان سونے والوں کے ہاتھ پیر باندھے اور پھر انھیں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔
کچھ لوگوں کو باہر نکال کر ذبح کیا گیا اور انھیں خون میں لت پت چھوڑ کر آنے والے وہیں چلے گئے جہاں سے وہ آئے تھے۔ دو دن تک اس دل دوز واقعے کی کسی نے کوئی ذمے داری نہ لی لیکن پھر ایک بیان آیا جس کے مطابق داعش نے اس قتل کی ذمے داری قبول کرلی۔ اس بہیمانہ قتل پر پہلے ہی گھنٹے سے واویلا مچ گیا تھا۔ مقتولین کے رشتہ دار آن پہنچے تھے اور داد رسی کے طلب گار تھے۔ ان میں سے بیشتر وہ لوگ تھے جن کا کوئی دوسرا کفیل نہ تھا۔ وہ کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم آئیں، ان سے پرسہ کریں اور ان مقتولین کے وارثوں کو یقین دلائیں کہ جو بے گناہ قتل کیے گئے ہیں انھیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ جن کے دل دکھے ہوئے ہوں ان کا یہ کہنا قطعاً ناروا نہیں۔ یوں بھی نظام مملکت چلانے والے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے اندوہناک واقعے کی فوری تفتیش کرائے اور یہ دیکھے کہ اس بہیمانہ جرم کے ڈانڈے کہاں سے مل رہے ہیں۔ اپنے آرام دہ اور محفوظ محل میں بیٹھ کر ایسے کسی بھی واقعے کو آس پاس کے ملکوں سے جوڑ دینا لوگوں کو طیش میں مبتلا کردیتا ہے۔
شروع میں وزیر اعظم نے اپنے جانے کے معاملے کو اتنا طول دیا کہ اس پر کابینہ کی میٹنگ بلالی جہاں ان کے بعض اہم وزرا نے انھیں مشورہ دیا کہ انھیں کوئٹہ نہیں جانا چاہیے کیوں کہ اس طرح ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ سنا گیا ہے کہ ایک وزیر تو یہ بھی کہہ گزرے کہ ایسے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں َ وزیر اعظم کہاں کہاں جائیں گے۔ مچھ کا اندوہناک واقعہ صرف 11 بے گناہوں کا قتل ہی نہیں، یہ فرقہ وارانہ پہلو بھی رکھتا ہے۔ اس وقت بعض علاقوں میں یہ کشیدگی بڑھ چکی ہے۔ اس سانحے کے بعد دوسرے دن سے ہی کراچی، لاہور اور کئی دوسرے شہروں میں مقتولین کے سوگواروں کی طرف سے دھرنے دینے کا آغاز ہوا اور مظلومین کوانصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ طلب گاری پاکستان کے تمام طبقوں اور فرقوں کی طرف سے ہورہی ہے۔ انصاف کا ملنا ہر فرد اور فرقے کا حق ہے۔ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ داعش یا ایسی کسی بھی انتہا پسند تنظیم کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ ملک میں فرقہ ورانہ افراتفری بھی پیدا کردے۔ حیرت ہے کہ یہ سامنے کی بات سبزی فروش اور موچی کی سمجھ میں تو آرہی ہے لیکن وزیر اعظم اور ان کے جاں نثاروزیر اسے سمجھنے سے انکاری ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ابن رضا کی نظم زاہدہ رائو کی آواز میں گردش کررہی ہے، وہ سننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ارضِ وطن پہ خُوں کے، دریا بہا رہے ہیں
یہ کون ہیں درندے اور کیوں ستا رہے ہیں
معصوم اور نہتّے لوگوں پہ وار کر کے
کیا سسکیوں سے دیکھو، وہ حِظ اُٹھا رہے ہیں
پل پل بکھر رہے ہیں، اعضا بشر کے ہر جا
نعشوں کے دے کے تحفے، وہ کیا جتا رہے ہیں
ایسے کبھی نہ مولا، حالات ہو ں کہیں بھی
سہرے سجے وہ لے کر، تربت میں جارہے ہیں
آئے کوئی مسیحا، لاٹھی خدا کی بن کر
کوئی تو ان کو روکے، کیا ظلم ڈھا رہے ہیں
مستی میں ڈوبے لوگو، اُجڑے گھروں میں جاکر
دیکھو کہ لوگ کیسے، ماتم منا رہے ہیں
کل جو ہوا دھماکا، سب نے رضا سنا تھا
اب بھول کر اُسے، گام آگے بڑھا رہے ہیں
یہ سطریں جمعہ کی شام کو لکھی جارہی ہیں اور اتوار کی صبح کو شایع ہوں گی۔ اس وقت تک ہو سکتا ہے حکومت کی طرف سے کوئی قدم اٹھا لیا جائے اور وزیراعظم صاحب کوئٹہ میں ہوں۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو نے بھی کوئٹہ پہنچ کر مظاہرین اور مقتولین کے لواحقین سے تعزیت کی اور فاتحہ پڑھی۔ بلاول بھٹو نے درست کہا کہ یہاں ہر چیز مہنگی، عوام کا خون سستا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم شہید محترمہ بے نظیربھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلانے کی بات نہیں کرتے۔ جن مزدوروں کے گلے کاٹے گئے ان کو انصاف دلایاجائے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نوازنے کہا، وزیراعظم اپنی ناکامی اور بے حسی کو سیاست کہہ کر ٹال دیں گے تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا جب بھی ہم بلوچستان اور کوئٹہ آتے ہیں تو یہاں خوشی منانے یا سیاست کے لیے نہیں بلکہ عوام کے دکھ میں شریک ہونے اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے آتے ہیں۔ آج بھی دکھ اور افسوس کے ساتھ ہزارہ قبائل کے درمیان موجود ہوں۔ ہزارہ بھائی بہنوں سے کیا کہہ سکتا ہوں۔ یہ ایک ایسی دھرتی ہے جہاں اپنے شہدا کی لاشوں کی تدفین کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں جی رہے ہیں جہاں گیس، بجلی اشیائے خورو نوش مہنگی ہوچکی ہیں لیکن ہمارے مزدوروں، سیاسی کارکنوں، پولیس افسروں، وکلا، شہریوں اور ہزارہ برادری کا خون سستا ہے۔
1999 سے آج تک ہزارہ برادری کے دو ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں، مگر کسی ایک کو بھی انصاف نہیں ملا۔ ہزارہ قبائل کا مطالبہ ایک ہی ہے کہ ان کو جینے دیا جائے، انھوں نے کہا کہ میرا تعلق بھی شہیدوں کے خاندان سے ہے۔ ہم بھی آپ کی طرح آج تک اپنے شہیدوں کو انصاف نہ دلا سکے مگر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے دہشت گردی کی کمر توڑنے اور اے پی ایس کے بچوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مگر آج تک صرف دہشت گرد حملے کرتے ہیں تو پھر ہمارا نیشنل ایکشن پلان ناکام ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے شہدا کے جنازے اٹھائے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ شہیدوں کا غم کیا ہوتا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ وزیر اعظم کو یہاں آنا پڑے گا ا، گر نہیں آئے تو یہ قوم اسلام آبادمیں کرسی پر بیٹھنے کی انھیں اجازت نہیں دے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہم ہزارہ برادری کی آواز بن کر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر ان کا مقدمہ اٹھائیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔