پچھلے کچھ عرصے سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہوا اور یہ احتجاج ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہو رہا ہے۔
یہ پہلا موقعہ نہیں کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلائی جا رہی ہے اس سے پہلے کئی بار جمہوریت بحال ہوچکی ہے ہمیں حیرت ہے کہ بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں عام طور پر غریب عوام ہی شامل رہتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے عوام میں طبقاتی شعور نہیں ہے کہ وہ طبقاتی مفادات اور طبقاتی تضادات کو سمجھ سکیں لیکن وہ اتنا بہرحال سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کی تحریکوں میں حصہ لینے والوں کا کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں البتہ نقصان ضرور ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نقصان کس کا ہوتا ہے فائدہ کس کا ہوتا ہے؟ غریب عوام کا فائدہ توکچھ نظر نہیں آتا البتہ بے روزگاری بھوک کا فائدہ ضرور ہوتا ہے اور تحریک میں شامل لوگ تحریک کی سزا میں نوکریوں سے جاتے ہیں خوار ہوتے ہیں گھر بار پریشان ہوتا ہے، اس کے برعکس بہت سارے کارکن مختلف مشکلات کا شکار ہوکر خوارضرور ہوتے ہیں اور جمہوری تحریکوں میں شرکت کا عموماً یہی فائدہ ہوتا ہے۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ عموماً تحریکوں میں شامل ہونے والے کارکن خوار ہو جاتے ہیں البتہ لیڈران کو لوٹ مار کے ایسے مواقع ملتے ہیں کہ عشروں کا سرمایہ جمع کرلیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں عوام کو چاہیے کہ اگر وہ کسی جمہوری تحریک میں شامل ہونے کے بعد فارغ ہوئے ہیں تو اپنے نفع نقصان کا جائزہ ضرور لیں عام طور پر سیاسی تحریکوں میں شامل ہونے والوں کو تھانوں اور جیلوں کا اور دوسری کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تھانہ، جیل، ضمانت جیسے انعامات کا فائدہ مدتوں اٹھانا پڑتا ہے۔ کارکنوں کے لیے نقصانات کے مقابلے میں لیڈران کے یہ فائدے ہوتے ہیں کہ وزارتیں سفارتیں حاصل ہوتی ہیں اور عوام کا منتخب وزیر مالا مال ہو جاتا ہے۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں جمہوریت کی برائی کر رہا ہوں۔ نہیں جمہوریت بذات خود کوئی برائی نہیں ہوتی بلکہ اسے غلط استعمال کرنے والے عوام کے دشمن ہوتے ہیں کیونکہ عموماً عوام کی قربانیوں سے حاصل ہونے والی جمہوریت اشرافیائی ہوتی ہے اور اشرافیائی جمہوریت میں اشرافیہ ہی اس جمہوریت کی مالک ہوتی ہے اور اس جمہوریت سے فائدے اٹھاتی ہے۔
جمہوریت سے جن طبقات کو فائدہ ہوتا ہے وہ ہماری اشرافیہ یعنی امرا ہوتے ہیں۔ عام غریب کارکن مار کھاتا ہے تھانے اور جیلوں کی یاترا کرتا ہے ملتا کچھ نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس قسم کی اشرافیائی جمہوریتوں میں قیادت اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور قیادت کا فائدہ اٹھانے والی بھی اشرافیہ ہی ہوتی ہے۔
بلاشبہ جمہوریت اچھی ہوتی ہے جب اس کی قیادت غریب طبقات اور مزدوروں اور کسانوں میں ہوتی ہے اگر قیادت مزدوروں کسانوں اور غریب طبقات میں ہو تو اس کا فائدہ غریب طبقات ہی کو ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہمارے سیاستدان عام طور پر قیادت یعنی لیڈر شپ اپنے یا اپنے طبقے کے ہاتھوں ہی میں رکھتے ہیں عام آدمی کو وہ ہمیشہ کارکن بنائے رکھتے ہیں۔ جب اقتدار میں آتے ہیں توکسی کارکن کو وزیر سفیر نہیں بناتے اپنے بھائی بندوں دوستوں عزیزوں کو بناتے ہیں یہی اس اشرافیائی جمہوریت کی خوبی ہے کہ لیڈر ہی نہیں اس کی آل اولاد بھی لیڈر ہوتی ہے جس کا نظارہ آپ اپنے مالدار لیڈروں کو دیکھ کر کرتے ہیں جو کسی کے بیٹے ہوتے ہیں کسی کے باپ کسی کے بھائی۔
ہم 72 سال سے جس جمہوریت میں زندہ ہیں اس کا اس جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں جو عوامی کہلاتی ہے جس میں قیادت عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور ایسے عوامی قائد عوام کے لیے زندہ رہتے ہیں عوام کے لیے مرتے ہیں۔ آج آپ کے سامنے وہ ماڈل اشرافیائی جمہوریت ہے جس کی مالک اشرافیہ ہے آپ کے سامنے وہ ننگی حقیقتیں ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ہم جس جمہوریت میں زندہ ہیں وہ عوامی نہیں بلکہ اشرافیائی جمہوریت ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی جمہوریت نے تو اتنی ترقی کی ہے کہ ابھی "لیڈر" زیر تعلیم ہی ہوتا ہے کہ اسے ملک کی "بڑی" پارٹیوں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔
اسی طرح خواتین ہیں اگر وہ کسی کی بیٹی یا بہنیں ہیں تو آپ کا شمار صف اول میں ہوتا ہے ذرا آپ ملک کی بڑی پارٹیوں پر نظر ڈالیں ان کی سربراہی کسی بڑے باپ کی بیٹی ہوگی، بہن ہوگی یا بیوی ہوگی ادھر ادھر نہ جائیں اپنے گرد ہی نظر ڈالیں آپ کو یہاں پوری اشرافیائی جمہوریت کے کردار نظر آئیں گے۔ جب تک آپ اس اشرافیائی جمہوریت کے پھندے سے نکل کر عوامی جمہوریت کا حصہ نہیں بنیں گے آپ عملاً اشرافیائی جمہوریت کے غلام ہی رہیں گے لیڈرکبھی نہیں بن سکیں گے۔