دنیا کی معلوم تاریخ میں شاہانہ طرز حکومت ہزاروں سال رہا، شاہانہ طرز حکومت میں اختیارات چونکہ افراد اور خاندانوں کے پاس رہتے ہیں، اس لیے عوام کی نہ کوئی شنوائی ہوتی ہے نہ ان کے کوئی حقوق ہوتے ہیں۔
انسان جانوروں کی طرح زندگی گزارتا ہے، اختیارات کے چند ہاتھوں میں اجتماع کی وجہ عوام میں بے چینی پیدا ہونا ایک فطری بات ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا کے مدبرین نے شاہانہ طرز حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک نئے نظام کو متعارف کرایا جسے جمہوریت کا نام دیا گیا۔
اس جمہوریت کی تعریف جمہوری مدبرین نے اس طرح کی "عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے" مغربی دنیا میں جمہوریت کی اس تعریف کا خیال کیا جاتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں جمہوریت ناپید ہے اب تو صورتحال یہ ہے کہ مغلیہ دور ہمارے ملک پر مسلط ہے صرف دو خاندان برسر اقتدار رہتے آئے ہیں۔
اس انارکی کے خلاف چند بااثر لوگوں کی حمایت کے ساتھ ایک فرد واحد نے بغاوت کی اور الیکشن کے ذریعے اقتدار پر براجمان ہوا چونکہ یہ فرد ایماندار ہے لہٰذا ملک میں دو خاندانوں کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا، یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے ایلیٹ بہت مشتعل ہے اس نے عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کوئی فرشتوں کی حکومت نہیں ہے اس میں بھی خامیاں ہیں اور رہیں گی لیکن ایک بات بلا توقف کہی جاسکتی ہے کہ ہماری اپوزیشن باوجود کوشش و بسیار کے موجودہ حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا سکی، ادھر وزیراعظم عمران خان تیزی کے ساتھ دوررس تبدیلیوں کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
ماضی میں دوررس تبدیلیوں کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی اس کے برخلاف اپنا سارا وقت لوٹ مار میں لگا دیا کہ کرپشن کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ میڈیا نے کرپشن کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اس اشرافیائی ٹولے سے بدظن ہوگئے اب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے اور ایک دوسرے پر نااہلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت تیزی سے اپنے قدم مضبوط کر رہی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کی انتظامیہ انتہائی نااہل ہے ملک میں مصنوعی مہنگائی کا طوفان اٹھا ہوا ہے عوام پریشان ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس جان لیوا مہنگائی کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے یہ ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑے گا۔
اس خطے میں ایک افراتفری پیدا ہوگئی ہے افغانستان میں طالبان کی آمد کی وجہ سے یہ علاقہ اضطراب کا شکار ہے اگرچہ پاکستان حکومت اس مسئلے سے انتہائی احتیاط کے ساتھ نمٹ رہی ہے لیکن خدا جانے طالبان کا اگلا پروگرام کیا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا، البتہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ افغانستان کی نئی انتظامیہ خواتین کی آزادی سمیت ایسے اقدامات کرنے جا رہی ہے جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔
کیا ہم اسے حالات کا تقاضہ کہیں یا مصلحت کہیں کہ طالبان کا رویہ لبرل سے لبرل ہے لیکن اس کا مجموعی فائدہ افغانستان کو ہو رہا ہے۔ طالبان کا ماضی سب کے سامنے ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام خوف کا شکار ہیں جس کے باعث پورے ملک میں ایک غیر یقینی کیفیت نظر آتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے امریکا جیسی سپر پاور کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کردیا لیکن سامراجی ملک اس ہزیمت کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے۔
پورا خطہ ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے طالبان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ افغان عوام اور دنیا کو یہ یقین دلاسکیں کہ وہ اب بدل گئے ہیں کیا یہ حالات کا تقاضا ہے یا طالبان کے رویوں میں تبدیلی آ رہی ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا، طالبان ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں یہ کس طرح کا اسلامی نظام ہوگا اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
دنیا کے ممالک بہت محتاط ہیں اور صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ابھی تک یہ پتا نہیں چل رہا کہ طالبان کس قسم کا نظام لانا چاہتے ہیں۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے آج سب سے زیادہ اہمیت انسانی حقوق کو دی جاتی ہے کیا طالبان کا نظام انسانی حقوق سے مطابقت رکھتا ہے، یہ اہم سوال ہے جس کا طالبان کو سامنا ہے طالبان کی تربیت جس ماحول میں ہوئی ہے۔
اس کے پس منظر میں یہ امکانات بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں کہ طالبان جدید دنیا کے تقاضے پورے کرسکیں گے۔ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے جو قبائلی نظام سے متصادم ہے کیا طالبان ان تقاضوں کو پورا کرسکیں گے جو سامنے کھڑے ہیں۔
پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے۔ افغانستان کی تاریخ پاکستان کی مخالفت سے بھری ہوئی ہے، طالبان اگرچہ حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اپنے نظریات سے ہٹ کر باتیں کر رہے ہیں لیکن کیا ان کے نئے بیانات ان کے نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ یہ بڑا مشکل سوال ہے جس کا جواب مستقبل قریب میں دنیا کو مل جائے گا۔ فی الوقت طالبان کی یہ کوشش ہے کہ وہ دنیا کو اپنے نئے نظریات سے مطمئن کریں یہ ایک بڑا کٹھن کام ہے، دیکھنا یہ ہے کہ طالبان دنیا کی ضرورتوں سے کس طرح نمٹیں گے خود افغان قیادت اس نازک صورتحال میں کیا پالیسی اختیار کرے گی؟