Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aqal Kamyab Hui

Aqal Kamyab Hui

دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ کچھ ایسا ہی حال مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ سردی اور بارش کے موسم میں اپنے معتقدین کو لا کر اذیتوں سے دوچار کرنے کے بعد اب حضرت اپنے پلان بی عمل کر رہے ہیں۔ مارچ کے حوالے سے جو بھی حماقتیں کی گئیں لیکن مارچ کو بڑی پلاننگ سے آرگنائز کیا گیا ہے اس سے انکار نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ دھرنے جیسے پروگرام ہفتہ دس دن تو چل سکتے ہیں لیکن اگر دھرنوں کو مہینوں لمبا کر دیا جائے تو ان کا ناکام ہونا فطری امر ہے۔

اسلام آباد میں جے یو آئی کا دھرنا 2014ء کے عمران، قادری دھرنے کی طرح طویل تو نہیں تھا لیکن بارش اور سردی نے اس مختصر دھرنے کو بھی تتر بتر کر دیا۔ دھرنے کے آرگنائزر لاکھ آئیں، بائیں، شائیں کریں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دھرنا اپنے اہداف حاصل نہ کر سکا۔ ہو سکتا ہے کچھ دن دھرنا اور چل جاتا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فطرت کو بھی یہ اوٹ پٹانگ دھرنا منظور نہ تھا کہ بارش اور سردی نے دھرنے والوں کے حوصلوں کو پست کر دیا۔

سیاسی تحریکوں کا خواہ وہ منطقی ہوں یا غیر منطقی المیہ یہ ہے کہ ان میں سارا عذاب کارکنوں کو سہنا پڑتا ہے اور کامیابی کی صورت میں دھرنوں کے آرگنائزر تو اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں لیکن دھرنوں کی تکلیف اٹھانے والوں کو کیا ملتا ہے، نزلہ، بخار، کھانسی۔ اگر دھرنا گرمیوں میں دیا جا رہا ہو تو تپتی دھوپ میں کارکنوں کا پسینہ نکلتا ہے، یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے چل رہا ہے۔

اشرافیہ کا دھرنا اصل میں نہ عوام کے مسائل مہنگائی، بیروزگاری جیسے مسائل پر نہیں دیا جاتا۔ اشرافیہ کے دھرنوں کا مقصد محض حصول اقتدار ہوتا ہے جس کا فائدہ اشرافیہ کو تو حاصل ہوتا ہے دھرنے کی تکلیفیں سہنے والوں کو سوائے کھانسی بخار وغیرہ کے کچھ نہیں ملتا۔

اس کے برخلاف اگر دھرنوں کے آرگنائزر مڈل اور لوئر مڈ کلاس سے تعلق رکھتے ہوں اور عوامی مسائل مثلاً مہنگائی، بیروزگاری جیسے مسائل پر دھرنا دیا جاتا ہے، مارچ کیا جاتا ہے یا احتجاج کیا جاتا ہے تو کامیابی کی صورت میں دھرنوں کے شرکا اور عوام کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں وہ سیاسی جماعتیں سیاسی قیادت اور وہ سیاسی کارکن نہیں رہے جو عوامی مسائل پر تحریکیں چلاتے تھے پکڑے جاتے تھے، جیل جاتے تھے جیلوں میں عام قیدیوں کے ساتھ رہتے تھے، ان کے مسائل سے آشنا ہوتے تھے اور ان مسائل کو اپنے منشور میں شامل کرتے تھے۔

جاری تحریکی دھرنا کہا جاتا ہے 80 ہزار کارکنوں پر مشتمل تھا یہ فیگر دھرنے کے خالقوں کے دیے ہوئے ہیں چونکہ دھرنے کی قیادت دیندار رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے جو جھوٹ کو گناہ سمجھتے ہیں لہٰذا عوام اس دعوے پر یقین کر لیتے ہیں کہ دھرنے یا مارچ میں 80 ہزار عوام شامل تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 80 ہزار عوام کے رہنے، کھانے، پینے وغیرہ کے کروڑوں کے اخراجات کون اٹھا رہا ہے؟

مولانا کی یہ ایک نوبل عادت ہے کہ وہ اپنے خاص دوستوں کے آڑے وقت میں کام آتے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مولانا کے شریف برادران سے بہت ہی خاص اور قریبی تعلقات ہیں اتنے قریبی کہ اگر شریفوں کے کانٹا لگ جاتا ہے تو حضرت کو اس کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کے اقتدار سے الگ ہونے کا دکھ اور تکلیف شریفوں سے زیادہ حضرت کو محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مارچ اور دھرنا شروع ہونے سے قبل شریفوں اور زرداریوں نے حضرت کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی تحریک میں دل وجان سے شرکت کریں گے۔ یہ خبریں میڈیا میں بھی بھرپور طریقے سے رپورٹ ہوئیں۔ لیکن ہوا کیا؟ یہ دونوں سابق حکمران خاندان دھرنے اور مارچ کے قریب تک نہ گئے۔

جگری دوستوں کی اس بے وفائی سے آج حضرت اکیلے میدان کارزار میں کھڑے ہوئے ہیں اور بے جگری سے غنیم کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن مولانا کے جگری دوستوں کی بے وفائی کا اثر یہ ہوا کہ حضرت کے معتقدین مایوس ہو گئے اور میدان کار زار سے پسپا ہوگئے۔ اب جو کارکن رہ گئے ہیں وہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ حضرت فرما رہے ہیں کہ ہم کامیابی کے بالکل قریب ہیں۔ ہو سکتا ہے حضرت کا اندازہ درست ہو لیکن زمینی حقائق بہرحال حضرت کے دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔

13 نومبر کو مولانا نے پلان بی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا ہم صبح ہی سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے کہ جانے پلان بی کیا کیا لوازمات لے کر آئے خاص طور پر شہری علاقوں میں ٹریفک کو روکنے سے بڑے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ افراتفری کے ساتھ تشدد کو بھی خارج از امکان نہیں سمجھا جا سکتا۔

ہماری نظریں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں کہ خدا خیر کرے پلان بی خون خرابے کا باعث نہ بن جائے۔ چینل بدل بدل کر دیکھتے رہے ہم ویسے تو صبح 9 بجے ہی سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے دس بج گئے کچھ نہ ہوا پھر بجتے ہی گئے آخر بارہ بج گئے امید پیدا ہوئی کہ بارہ بج رہے ہیں اب ضرور پلان بی پر عملدرآمد شروع ہو گا۔ سڑکوں پر پولیس بھی نظر نہ آئی خیال آیا شاید حضرت نے پلان بی کو ملتوی کر دیا ہے کیونکہ پلان بی یعنی شاہ راہوں پر ٹریفک روکنے کے لیے بڑی نفری کی ضرورت ہوتی ہے اور نفری لاپتہ ہے۔

بہرحال بارہ سے چار بج گئے لیکن پلان بی پر عملدرآمد کا کوئی پتا نہ تھا۔ دوسری طرف سرکار کی طرف سے بھی اتنے بڑے پلان کو کنٹرول کرنے کا کوئی اہتمام نظر نہ آیا البتہ خیبر پختونخوا کے کسی دور دراز علاقے میں پلان بی پر عملدرآمد کی ایک اڑتی اڑتی خبر اسکرین پر آئی۔ ہمارا خیال ہے کہ اللہ نے حضرت کے دل میں نیکی ڈال دی اور حضرت نے اپنے مشہور پلان پر عملدرآمد سے ہاتھ کھینچ لیے اس وقت شام کے پانچ بج رہے ہیں اللہ اللہ کر کے پلان بی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ سڑکیں بلاک کردی گئی ہیں، آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔