Thursday, 05 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Apni Qayadat Apni Safon Se Nikalen

Awam Apni Qayadat Apni Safon Se Nikalen

ہماری اجتماعی بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ ہم 72 سال میں اپنی طبقاتی قیادت پیدا نہ کرسکے، جس کا فائدہ اشرافیہ بھرپور طریقے سے اٹھا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل قیادت صرف اشرافیہ خاندانوں میں ہی ہوتی ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ ایک سے ایک ذہین وقابل عوام میں موجود ہے اور حکومت کی ہر ذمے داری پوری کرنے کا اہل ہے۔

اشرافیہ نے عوام کو اس احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ صرف ووٹ ڈالنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس نفسیات کی وجہ سے عوام یہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ ملک چلا سکتے ہیں، حکومت کرسکتے ہیں لیکن انھیں ایسے احساس کمتری میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ وہ صرف اشرافیہ کی غلامی کے لیے پیدا ہوئے ہیں یہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ 98 فیصد لوگوں کو 72 سال سے بے وقوف بنا کر رکھا گیا ہے۔ اس کے لیے اشرافیہ نے انتخابی نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ صرف کروڑ پتی لوگ ہی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔

پاکستان میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، کسانوں کی تعداد دیہی علاقوں کی 70 فیصد ہے، ذرہ ہمارے جمہوریت پسند بتائیں کہ ان کروڑوں لوگوں کی نمایندگی کہاں ہے؟ جو لوگ ان کی نمایندگی کے دعویدار ہیں وہ عموماً اپنے مفادات کے ساتھ اپنی نمایندگی کو استعمال کرتے ہیں، ایسے ماحول میں اگر عوام کو صرف دو وقت کی روٹی ملتی ہے تو کیا تعجب کی بات ہے کہ یہ تصور عام ہے کہ مڈل کلاس عوام میں شعور پیدا کرتی ہے لیکن ہماری مڈل کلاس عام طور پر اشرافیہ کی تابعداری کرتی ہے۔

ایسے ملکوں میں عوام کس طرح باشعور ہو سکتے ہیں۔ اشرافیہ نے مڈل کلاس کو اپنا مطیع کر رکھا ہے اشرافیہ اگرچہ ہر ملک میں ہوتی ہے لیکن وہ بڑی حد تک قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہتی ہے لیکن ہماری اشرافیہ کو 12 خون معاف ہیں اور وہ جو چاہے کرنے میں آزاد ہے۔ پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں 80 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ہماری نام نہاد جمہوریت کام آسکتی ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور دیہی علاقوں میں ابھی تک جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غریب کسان وڈیروں کے غلام بنے ہوئے ہیں ایسے ماحول میں جب کہ سب کو مل جل کر متحد ہوکر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہے وڈیروں نے انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے تاکہ ان کی طاقت ختم ہو جائے اور وہ مختلف حوالوں سے ایک دوسرے کے مخالف ہوجائیں۔ 72 سال سے یہی ترکیب استعمال ہو رہی ہے اور بے چارے غریب دیہاتی وڈیرہ شاہی کے فریب میں آ کر ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

سندھ میں وڈیرہ شاہی کا ایک بڑا حصہ آباد ہے بدقسمتی سے جب سے پیپلز پارٹی کی حکومت آئی ہے وڈیرے نہ صرف اپنے متعلقین بلکہ دور دراز کے رشتے داروں کو بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ایک اور خرابی کی صورت میں یہ نکل رہا ہے کہ مختلف طبقات کے درمیان نفرت پیدا ہو رہی ہے جو مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ سینئر اور غیر جانب دار سندھی بھائیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ وڈیروں کی اس سازش کو ناکام بنائیں ورنہ مستقبل میں یہ صورت حال نازک صورت اختیار کرسکتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صاحب عقل لوگ ان بدنما حقائق کی طرف نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

دوسرے ملکوں میں جن میں بڑے ملک بھی شامل ہیں۔ اس قسم کی تقسیم کو پسند نہیں کیا جاتا لیکن ہمارے ملک میں اشرافیہ کے لیے یہ تقسیم کمائی کا ذریعہ ہے جیسا کہ ہم نے بتایا تھا کہ ہر ملک میں مڈل کلاس عام آدمی میں شعور پیدا کرنے کی ذمے داری پوری کرتی ہے لیکن ہماری مڈل کلاس عموماً اشرافیہ کی غلامی کرنے میں فخر کرتی ہے ہمارے ملک میں غربت کا عالم یہ ہے کہ دیہی ہی نہیں بلکہ شہری علاقوں میں بھی کروڑوں کی تعداد میں چائلڈ لیبر موجود ہے وہ معصوم بچے جنھیں اسکول میں ہونا چاہیے تھا وہ بچے قالین کے کارخانوں میں معمولی اجرت پر بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔

یہ ایک ایسا المیہ ہے جو حکمرانوں، اپوزیشن، اہل علم اور اہل دانش کے علم میں ہے اور یہ حضرات اس حیوانی نظام کو ختم کرنے کے بجائے رسمی بیانات دے کر اپنی ذمے داری پوری کرتے ہیں اگر ہمارے عوام میں تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو وہ انتخابات میں اپنے معاشی قاتلوں کے بجائے اپنے طبقاتی بھائیوں کو کامیاب کرا کر قانون ساز اداروں میں بھیجتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریب طبقات میں قابل تعلیم یافتہ اور اہل نوجوان موجود نہیں ہیں اگر ہیں تو پھر ان کو قانون ساز اداروں میں کیوں نہیں بھیجا جاتا؟