دنیا میں انسان جن مسائل کا شکار ہیں، اس کی دوسری بہت ساری وجوہات کے علاوہ ان کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ ذرایع ابلاغ کے ذریعے مختلف ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے کسی حد تک واقف تو ہوتے ہیں لیکن ان مسائل پر مل بیٹھ کرگفتگو کریں تو ان کے حل ہونے کے راستے نکل آتے ہیں۔
پہلے تو دنیا کے عوام ایک دوسرے سے قطعی لاتعلق ہوتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی حمایت خاص طور پر مظلوموں کی حمایت کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے جو کرہ ارض پر رہنے والی انسان برادری کے لیے نیک فال ہی کہلا سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دنیا سات براعظموں میں اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ اس میں رہنے والے عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ مشکل ہوتا ہے، مواصلاتی رابطہ تو ممکن ہے لیکن اس کے لیے افراد اور تنظیموں کی دلچسپی ضروری ہے۔
ان مشکلات کے باوجود یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ عالمی مسائل خاص طور پر بڑی طاقتوں کے ظلم و جبر کے خلاف ساری دنیا میں شدید رد عمل پیدا ہو رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کی رضاکار فورس کے سربراہ اور ان کے سات ساتھیوں کو جس بربریت سے مروا دیا اس پر ساری دنیا میں شدید رد عمل دیکھا جا رہا ہے، یہ ایک حوصلہ افزا رجحان ہے جس کی حمایت ہی نہیں بلکہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ خود امریکا میں بھی ٹرمپ کے خلاف ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔
ویسے یہ کام تو سیاسی جماعتوں کے علاوہ اہل دانش، اہل فکر ادیبوں اور شاعروں کا ہے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے دنیا بھرکے عوام کو قریب لانے اور ان کے درمیان دوستی اور اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کریں اور مقامی سطح پر یہ کام شاید ہو بھی رہا ہے لیکن دنیا بھرکے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا ان میں ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنا ایک منظم اور مربوط کے علاوہ انتہائی منصوبہ بند کام ہے دنیا کی اشرافیہ چونکہ یہ سمجھتی ہے کہ اتنا بڑا کام غیر منظم اور وسائل سے محروم افراد سے ممکن نہیں لہٰذا وہ مطمئن ہے کہ اس کی لوٹ مار ظلم و زیادتی کی راہ میں کوئی نہیں آئے گا۔ لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ظلم اور نا انصافی اب ان حدوں کو چھو رہے ہیں جہاں عوام کا نوٹس لینا ناگزیر ہو جاتا ہے اور یہ کام غیر منظم اور غیر محسوس طریقے سے ہو رہا ہے۔
ٹرمپ کے حکم سے ایران رضاکار فورس کے سربراہ اور ان کے سات افسروں کے قتل کے بعد ساری دنیا میں جن میں امریکا بھی شامل ہے عوامی احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ انسانوں کو قریب لانے کی کوششیں کرنے والوں کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔ ضرورت ہے کہ دنیا کی ترقی پسند طاقتیں جو دنیا میں عوام کی برتری دیکھنے کی خواہش مند ہیں اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں خاص طور پر منظم جماعتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھائیں کیونکہ ظلم اپنی حدوں سے گزر رہا ہے اور مظلوم بے بس اور لاچار بنے ہوئے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنی حدوں کو پار کر چکا ہے اور اب ننگی جارحیت پر اتر آیا ہے اگر اب بھی اس کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو کوئی شخص نہ گھر کے اندر محفوظ رہ سکے گا نہ گھر کے باہر۔ حیرت ہے کہ مغرب کا آزاد میڈیا ان مظالم کی خبریں تو دیتا ہے لیکن ان مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اب ضرورت ہے کیونکہ ریاستی غنڈہ گردی اب اس مقام پر آ گئی ہے کہ اس کی مزاحمت نہ کی جائے اس کو روکا نہ جائے تو انسانوں کا سڑکوں پر چلنا پھرنا مشکل ہو جائے گا۔ مغرب کا باشعور انسان پسماندہ ملکوں کے عوام کے مقابلے میں زیادہ سلجھا ہوا اور سمجھدار ہے وہ ظلم اس کی ماہیت اور اس کے نتائج کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے آگے بڑھنے کی ترغیب دی جائے۔
پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کو اس قدر بے بس اور مجبور کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ سوائے کڑھنے کے کچھ اور نہیں کر سکتے۔ سات ارب انسان اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ ہر شخص دنیا کا ہر انسان اس ظالمانہ نظام کو بدلنا چاہتا ہے جو ایک نیم پاگل حکمران ٹرمپ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک کی رضاکار فورس کے سربراہ کو سات ساتھیوں کے ساتھ قتل کرا دے اس سانحہ پر کم از کم آدھے امریکا کو احتجاجاً سڑکوں پر آنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ موٹیویٹڈ فورس نہیں ہے اہل قلم اہل دانش اپنی ذمے داریوں سے بے بہرہ ہیں اگر اہل قلم اہل دانش اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں تو ایسے کئی ٹرمپ عوام کے ہاتھوں رسوا ہوتے نظر آئیں گے۔ یہ کوئی خوش فہمی نہیں ہے بلکہ ایسا ممکن ہے وقت کے ساتھ ساتھ لے مین کو بھی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے پروڈکٹ طبقاتی نظام کے مظالم کا احساس ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور خوشخبری یہ ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کے نامنصفانہ اور متعصبانہ شہریت بل کے خلاف بلا تخصیص مذہب و ملت ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے مختلف زبانیں بولنے والے احتجاج ہی نہیں بلکہ پر تشدد احتجاج کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ملک کے اندر سے نکل کر ملک کے باہر تک پھیل گیا ہے۔ یہ صدیوں میں دیکھی اور سنی جانے والی ایک مبارک خبر ہے مودی اینڈ کمپنی بھارت کو ایک کٹر مذہبی ریاست بنا کر بھارتی عوام کو ایک دوسرے کا خون بہانے پر مجبور کرنا چاہتی تھی۔ نریندر مودی کو گجرات کے عوام کے خون کا مزہ لگا ہوا ہے اور خونی کو ایک بار انسانی خون کا مزہ لگ جاتا ہے تو وہ پھر انسانی خون کا پیاسا بن جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ بھارت کے اہل قلم اہل دانش نے اس حوالے سے وہ کردار ادا نہیں کیا جو کردار انھیں ادا کرنا چاہیے تھا۔