Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Ko Neeche Se Upar Laane Ka Masla

Awam Ko Neeche Se Upar Laane Ka Masla

وزیر اعظم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ میں نیچے کے لوگوں کو اوپر اٹھاؤں گا، ہمیں نہیں معلوم وزیر اعظم یہ بات سوچ سمجھ کر کہہ رہے ہیں یا اپنی نیک خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ہم نے جہاں تک سمجھا ہے وہ یہ کہ غریب طبقات کو امیروں کے دوش بہ دوش کھڑا کر دے۔ دوسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ عام غریب آدمی کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کریں، جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے یہ بات بہت خوش آیند ہے لیکن اس پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم دانستہ یا غیر دانستہ غریبوں کو امیر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔

ایک طریقہ تو یہ کہ غریب کی آمدنی میں اضافہ کردیا جائے لیکن کتنا اضافہ کیا جائے کہ غریب کی غربت ختم ہو جائے اور وہ خوشحال ہو جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ امیروں سے ان کی دولت چھین کر غریبوں میں بانٹ دی جائے، خان صاحب کے مقاصد بڑے نیک ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے۔

پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے، اس میں عام غریب لوگ بھی ہیں، مزدور بھی ہیں، کسان بھی ہیں جن کی آمدنی ایک جیسی ہے یعنی یہ آمدنی اتنی ہے کہ ان کو دو وقت کی روٹی مہیا نہیں ہو سکتی، ایسے معاشرے میں کسی بڑی تبدیلی کی خواہش نیک خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد بہت مشکل کام ہے، بالادست طبقات اس تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے، سرمایہ دارانہ نظام میں تنخواہوں اور آمدنیوں میں اضافہ کیا جاتا رہتا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی ہر سال بجٹ میں چھوٹا موٹا اضافہ کیا جاتا ہے لیکن اس سے نیچے اوپر لانا یعنی عام آدمی کو خوشحال بنانا آسان نہیں، اس کے لیے پورے نظام کی ازسرنو تشکیل لازمی ہے اور سرمایہ دار طبقہ خوشحالی اور دولت کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتا ہے، وہ بھلا ایسی کسی تبدیلی پر کیسے راضی ہو سکتا ہے جس میں نہ صرف اس کی دولت کے انباروں پر زد پڑے بلکہ اس کے اختیارات بھی کم ہو جائیں، اس اوپر نیچے میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے جیسے کہ ہوتا آرہا ہے، لوگوں کی انکم میں تھوڑا بہت اضافہ ہو جائے لیکن اگر بات نیچے سے اوپر لانے کی ہے تو یہ آسان نہیں نہ پرامن طور پر ایسا کیا جاسکتا ہے۔

یہ دراصل ایک انقلاب ہے اور انقلاب اتنی آسانی سے نہیں آتے دولت کو سرمایہ دار جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے جب اس کی دولت پر قبضے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ہر طرح سے اسے روکنے کی کوشش کرے گا خواہ اس میں خون خرابہ ہی کیوں نہ ہو۔ عمران خان کی نیت یقینا بڑی نیک ہے لیکن اس بڑے کام پر عملدرآمد مشکل ترین ہے۔

دنیا میں چین نے طبقاتی فرق کو کم کرنے کی کوشش کی اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہا لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں ایسی تبدیلی کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے، اگر نچلے طبقے کو خوشحال بنانا ہے تو اس پر براہ راست اثر اوپر کے طبقے کو پڑے گا جو نہ صرف اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھا ہے بلکہ اپنے اسٹیٹس کو بھی کم نہیں ہونے دیتا۔ یہاں چین کی مثال دینا غیر اہم ہے اس لیے کہ چینی عوام ایک ڈسپلنڈ قوم ہے، ان میں اجتماعی شعور بھی ہے، چینی قیادت کوشش کرکے نچلے طبقات کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتی رہی ہے۔

بلاشبہ یہ طبقاتی فرق کو ختم کرنے کی ایک موثر کوشش ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں ایک معمولی سرمایہ دار اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے بیسیوں مسلح گارڈ رکھتا ہے وہاں اگر عام آدمی کو ان سرمایہ داروں کے اسٹیٹس کے برابر لایا جائے تو کیا یہ طبقہ آسانی سے قبول کرلے گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ عمران خان ہمیشہ غریبوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ دو طبقہ آگ اور پانی ہے۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ غریبوں کو اوپر لانے کی بات کا مطلب کیا ہے، اگر غریبوں کی آمدنی میں اضافہ کرنا ہو تو اسے ایک حد میں رکھا جاسکتا ہے تاکہ سرمایہ دار مزاحمت پر نہ اتر آئے۔ خان صاحب غریبوں کے لیے بڑا حساس دل رکھتے ہیں لیکن غریبوں کو امیروں کے درجے تک پہنچانا خون خرابے کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ ہمارا سماج کٹر طبقاتی ہے اور طبقے اپنے اسٹیٹس کو عزیز رکھتے ہیں۔