پچھلے ہفتے عوامی ورکرز پارٹی کی تیسری کانگریس کراچی میں منعقد ہوئی۔ بائیں بازوکی جماعتوں کی یہ روایت ہے کہ وہ اپنی پچھلی کارکردگی اور اگلے پروگرام کے حوالے سے کانگریس منعقد کرتے رہتے ہیں تاکہ ماضی اور مستقبل کے حوالے سے انھیں آگہی حاصل ہو۔ یہ روایت سابق سوشلسٹ ملکوں کے دور سے جاری ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی سابق بائیں بازو کی معروف جماعت نیشنل عوامی پارٹی کا تسلسل ہے۔ نیپ مختلف ناموں کے ساتھ کام کرتی رہی ہے اور اب عوامی ورکرز پارٹی کے نام سے کام کر رہی ہے۔ کانگریس میں سابقہ کارکردگی کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں کے لیے بھی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔
نیپ ایوب خان کے دور تک ایک متحدہ جماعت تھی، اس کے بعد نیپ دو حصوں میں بٹ گئی ایک نیپ بھاشانی گروپ دوسرا نیپ ولی گروپ۔ نیپ کو بائیں بازو کی جماعتوں میں وہی حیثیت حاصل رہی ہے جو حیثیت لبرل جماعتوں میں پیپلز پارٹی کو اس فرق کے ساتھ کے پیپلز پارٹی کی سربراہی ذوالفقار علی بھٹو جیسے بڑے جاگیردار کے ہاتھوں میں رہی جب کہ نیپ کی قیادت ہمیشہ مڈل کلاس کے کامریڈوں کے ہاتھوں میں رہی۔
نیپ بائیں بازو کی فعال جماعتوں میں سے ایک فعال جماعت تھی۔ نیپ اپنے دور میں بہت سرگرم جماعت رہی ہے، اس جماعت میں بائیں بازو کے معروف رہنما شامل رہے مثلاً ولی خان، بھاشانی، سی آر اسلم، مرزا ابراہیم، قصورگردیزی۔ نیپ مزدوروں اور کسانوں میں کام کرتی رہی۔ کسان کانفرنسیں نیپ کا ورثہ ہیں۔ آخری بڑی کسان کانفرنس 2005 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہوئی، جس میں چاروں صوبوں سے کامریڈوں نے شرکت کی۔
بائیں بازو کے ساتھ ایک نفسیاتی الجھن ہمیشہ رہی۔ بایاں بازو اپنی ابتدا سے انقلاب کا داعی رہا ہے لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ رہا ہے کہ بایاں بازو جس انقلاب کا داعی رہا ہے، اس کے لیے پاکستان میں حالات سازگار نہیں رہے اور دوسری طرف وہ بوروژوا پالیٹکس کا سخت مخالف رہا ہے اور دنیا میں بوروژوا پالیٹکس کا رواج عام رہا ہے۔ آج بھی سیاسی جماعتوں میں بوروژوا پالیٹکس ہی عام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا رہا ہے کہ عوام سے رابطے کا سلسلہ کس حوالے سے قائم رہے۔
آج مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اپنی پیٹی بوروژوا جماعتوں کے ذریعے ہی سیاست کر رہی ہیں۔ اس سیاست کی بنیاد پارلیمانی سیاست پرکھڑی ہے اور انتخابات اس سیاست کا محور ہوتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں مراعات یافتہ طبقات پارلیمانی سیاست پر قابض ہیں اور انھوں نے انتخابات کا نظام کچھ اس طرح استوارکیا ہے کہ کروڑ پتی افراد ہی اس پارلیمانی انتخابات میں شرکت کر سکتے ہیں۔ عام آدمی اس پارلیمانی انتخابات میں شرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس حقیقت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انتخابات میں بوروژوا طبقہ کامیاب ہوتا ہے غریب طبقات منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
پارلیمانی سیاست ساری دنیا میں عام ہوگئی ہے اور پارلیمانی سیاست میں بائیں بازوکا جگہ بنانا بہت مشکل ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دورکی بات ہے اس سسٹم میں ایک معمولی کونسلر کے انتخابات جیتنا بھی بائیں بازو کے کامریڈوں کے لیے ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بایاں بازو پارلیمانی انتخابات کو بوروژوا طبقے کی عیاشی سمجھتا ہے اور کروڑوں روپے ان انتخابات پر لگانا بوروژوا طبقے کے لیے اس لیے آسان ہے کہ یہ طبقہ لوٹ مارکے ذریعے اربوں روپے جمع کرلیتا ہے اور ہر قسم کی بد دیانتی اس کے لیے جائز ہوتی ہے پھر پارلیمانی جمہوریت ایک انتہائی فائدہ مند کاروبار ہے جس میں ایک کروڑ لگانے والا پچاس کروڑ واپس حاصل کرلیتا ہے۔ یہ طرز سیاست پاکستان میں عام ہے۔
آج کرپشن کے حوالے سے اشرافیہ کے خلاف جو طوفان اٹھا ہوا ہے اس کی وجہ اشرافیہ کو کچھ مشکلات اور شدید بدنامیوں کا سامنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ احتساب کا ڈرامہ بھی جاری ہے۔ اس احتساب کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اشرافیہ پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن اشرافیہ سے کوئی ریکوری نہ ہوسکی کیونکہ قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہماری اشرافیہ نے ایسے کھانچے بنا رکھے ہیں کہ اس میں اربوں روپے آسانی سے سما سکتے ہیں نیب رُل رہا ہے لیکن اشرافیہ کی گرفت کرپشن کے سرمائے پر بہت مضبوط ہے۔
یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی ایکٹیو ہے خاص طور پر معلوم ہوا کہ پنجاب میں اور سندھ میں کام کر رہی ہے لیکن ماضی میں جس طرح بائیں بازو کی پارٹیاں مزدوروں، کسانوں، وکلا، ڈاکٹرز سمیت پیشہ ورانہ تنظیموں میں کام کرتی تھیں۔ ایک بار پھر بایاں بازو ان فرنٹوں پر بھی ایکٹیو ہوجائے خاص طور پر طلبا محاذ پر۔ بائیں بازو کو سخت محنت سے کام کرنا پڑے گا۔ تب جا کر وہ اس کھچڑی سیاست میں اپنا مقام بناسکتی ہیں۔ اب بائیں بازو کو کھل کر پارلیمانی سیاست میں حصہ لینا چاہیے، شرما حضوری کی سیاست سے اب کام نہیں چل سکتا۔ کیونکہ اس پارلیمانی سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے نیپ کی سیاست کے دور ہی سے نیا لیڈر نہیں بنایا جاسکا جس کی وجہ آج بایاں بازو سکڑ کر رہ گیا ہے۔
البتہ اپنے منفرد ایجنڈے کے ساتھ بائیں بازو کو انتخابی اصلاحات پر زور دینا چاہیے، ایسی انتخابی اصلاحات جس میں عام آدمی انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہوسکے۔ عوامی ورکرز پارٹی کو کسانوں، ہاریوں میں اپنی تنظیمیں بنانی چاہئیں کیونکہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں، ہاریوں پر مشتمل ہے ایسے حقائق کا تقاضا ہے کہ کسانوں، مزدوروں میں کام کیا جائے۔