Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bayaan Bazu Ghair Faal Kyun Hai?

Bayaan Bazu Ghair Faal Kyun Hai?

بائیں بازو نے ہمیشہ مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کے مسئلے کو اپنی جدوجہد کا مقصد بنالیا یہی وجہ ہے کہ یہ طبقات بائیں بازو کی سیاست کا مرکز رہے ہیں۔ اس حوالے سے کسان کانفرنسیں آرگنائز کی جاتی رہیں، چھوٹا بایاں بازو بڑی حد تک غیر فعال ہو گیا ہے، اس لیے اب یہ کانفرنسیں نہیں ہو پا رہی ہیں۔

آخری کانفرنس 2005 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہوئی جس کے آرگنائزر عابد حسن منٹو تھے اس کانفرنس میں کسانوں کے علاوہ مزدوروں نے بھی شرکت کی تھی۔ مجھے خیال تھا کہ حسب روایت تقریریں ہوں گی اور کانفرنس کا اختتام ہو جائے گا جو میرے نزدیک بے مقصد تھا۔

میں نے عابد حسن منٹو کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ کانفرنس کے بعد ایک میٹنگ رکھی جائے جو یہ دیکھے کہ بایاں بازو کیوں غیر فعال ہوتا جا رہا ہے۔ عابد حسن منٹو نے میری بات پر اتفاق کیا اور کانفرنس کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک ہوٹل میں نشست کا اہتمام کیا۔ سابقہ کسان کانفرنسوں کے مقابلے میں اس کانفرنس کی حاضری نسبتاً کم تھی اور یہ ہماری نااہلیت کا ثبوت تھا۔

بہرحال کانفرنس منعقد ہوئی جس میں چاروں صوبوں کے نمایندے موجود تھے حسب سابق جلسہ ہوا، تقاریر ہوئیں اور جلسہ ختم ہو گیا جلسے میں کسانوں کی شرکت بہت کم تھی اس کا احساس عابد حسن منٹو سمیت سب کو تھا بہرحال جلسہ کسی نہ کسی طرح ختم ہوا اور شرکا پروگرام کے مطابق ہوٹل پہنچ گئے جہاں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا مقصد بایاں بازو کی سست رفتاری اور ناکامیوں کا جائزہ لینا تھا۔

آخر میں یہ طے پایا کہ اس کے بعد جلسے کے حوالے سے ایک جائزہ میٹنگ شروع ہوئی جس میں شرکا نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے جلسے میں چاروں صوبوں کے نمایندے موجود تھے، میٹنگ میں بڑی تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ بایاں بازو کیوں غیر فعال ہوتا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں یہ طے پایا کہ فالو اپ کے لیے کراچی ایک نمایندہ میٹنگ بلوانے کا فیصلہ کیا گیا اور چند دوستوں کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ کراچی کی میٹنگ سے پہلے ایک ایک رپورٹ تیار کریں جس میں تفصیل سے ان خامیوں کی نشان دہی کی جائے کہ بایاں بازو کی عدم فعالیت کا جائزہ لے لیکن بدقسمتی سے میرے بار بار یاد دلانے کے باوجود یہ میٹنگ نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ بائیں بازو کے کارکنوں کی عدم دلچسپی تھی، کراچی میں میٹنگ کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا لیکن اس کا کوئی فوری نتیجہ نہیں نکلا ایک عرصے کے بعد ایک میٹنگ ہوئی لیکن وہ بھی حاضری کے حوالے سے ناکام تھی۔

بائیں بازو کی یہ صورتحال پاکستان میں بائیں بازو کی غیر فعالیت کا ایک اور ثبوت تھا جس کی وجہ سے کارکنوں میں بددلی پھیلتی گئی اس کے تقریباً چھ ماہ بعد محمد علی نے حیدرآباد میں ایک کسان کانفرنس منعقد کی جو سہ روزہ تھی اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کلچرل پروگرام شامل کیا گیا۔ کلچرل پروگرام کی وجہ سے شرکا کی تعداد کافی تھی۔ اس کا اہم پہلو یہ تھا کہ کلچرل پروگرام کو بہت پسند کیا گیا لیکن اس کانفرنس میں سیاسی پہلو نہ ہونے کے برابر تھا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بایاں بازو منظر سے غائب ہو گیا اور اس خلا کے پورا ہونے کی امید کم ہے، کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں اس حوالے سے سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بائیں بازو کی پارٹیاں سمجھنے سے قاصر رہیں کہ ایک ترقی پسند کی حالت سمندر میں مچھلیوں کی سی ہوتی ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہا جائے کہ بایاں بازو سمندر میں مچھلیوں کے بجائے کناروں پر کیکڑوں کی طرح ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ آیندہ کام کے لیے کوئی معقول پلاننگ کا فقدان ہے اور کامریڈ حضرات عوام کو نزدیک لانے میں ناکام رہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کھلی سیاست کے بغیر کام نہیں چل سکتا، یہ بات باوجوہ ہمارے لائق دوستوں کے سمجھنے میں نہ آسکی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریڈ یونین کو دوبارہ آرگنائز کیا جائے یہ کوئی مشکل کام نہیں اور ملک کے مختلف شہروں میں کسان کانفرنسیں منعقد کی جائیں، سیاست بند کمروں میں نہیں چل سکتی، اس کے لیے کھلے میدان اور کھلے دلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے عوام اشرافیہ کی شاہی سیاست سے تنگ آچکے ہیں وہ اپنی سیاست اپنی قیادت اپنے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔