قوم پرستی ایک لعنت ہے جو انسانوں کو تقسیم کرکے ان کی طاقت کو توڑ دیتی ہے مفاد پرست سیاستدان جب عوام سے مایوس ہو جاتے ہیں اور عوام انھیں لفٹ نہیں کراتی تو وہ قوم پرستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ قوم پرستی میں یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ قومیت کے حوالے سے بڑی آسانی سے عوام کا شکار کرلیتے ہیں قوم پرستی انسانوں کو ایک دوسرے سے نفرت بھی سکھا دیتی ہے۔
مشرقی پاکستان میں اس کا مظاہرہ ہم دیکھ چکے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں مایوس سیاستدان تیزی کے ساتھ قوم پرستی کا سہارا لے رہے ہیں۔ قوم پرستی کی بنیاد تعصب ہے، اچھے ملکوں اور معاشروں میں قوم پرستی کو رد کیا جاتا ہے، اس لیے ان معاشروں میں یہ لعنت بہت کم نظر آتی ہے اس کا سب سے خراب پہلو یہ ہے کہ حق داروں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ اس کے بجائے مفادات تو پورے ہوتے ہیں لیکن مستحق لوگ اپنے حقوق سے محروم رہتے ہیں۔
ہمارا صوبہ سندھ اس حوالے سے کافی بدنام ہے، کہا جاتا ہے کہ جانب داری کا عالم یہ ہے کہ قوم پرستی جب سرپر سوار ہوتی ہے تو میرٹ مارا جاتا ہے حق دار اپنے حق سے محروم ہو جاتے ہیں اور غیر متعلقہ نااہل لوگ قوم پرستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میرٹ سے بچ کر وہ حقوق حاصل کر لیتے ہیں جن کے وہ مستحق نہیں ہوتے، ویسے تو قوم پرستی عام ہے لیکن سندھ کو اس کا گڑھ مانا جاتا ہے چونکہ قوم پرستی ایک قومی بیماری ہے جس کا علاج ضروری ہے۔
پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد بھارت کے مختلف شہروں سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجر آئے جو ملک کے مختلف حصوں کے علاوہ سندھ میں بڑی تعداد میں آباد ہوگئے، بدقسمتی سے اردو بولنے والوں کے نمایندوں کا یہ کہنا ہے کہ قوم پرستی کی وجہ اردو بولنے والوں کو سندھ میں وہ حقوق نہیں مل رہے ہیں جو انھیں آئین کے حوالے سے ملنے چاہئیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ میں یہ وبا موجود ہے اور تنگ نظر اہل سیاست اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
بلدیاتی اداروں کو لے لیجیے ان اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس محکمے میں میرٹ کا خیال نہیں کیا جاتا جو ایک تشویشناک بات ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ اشرافیہ کو ملتا ہے وہ قوم پرستی کو انتخابات میں بھی استعمال کرتی ہے، بلاشبہ اس کا فائدہ ایک محدود طبقے کو ہوتا ہے لیکن یہ فائدہ اس طرح قومی نقصان میں بدل جاتا ہے کہ عوام تقسیم ہو جاتے ہیں تقسیم کے ساتھ ایک دوسرے سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سندھ اور پنجاب میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام قائم ہے وہ جاگیردار طبقہ عوام میں پھوٹ ڈالنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخابات جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے بلدیاتی انتخابات کبھی پابندی سے نہیں کرائے جاتے جس کی وجہ سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو پاتے پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے اگر کسی ملک کے شہریوں کو میرٹ کے مطابق حقوق نہیں ملتے تو اسے بڑی ناانصافی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور جاگیردار، سرمایہ دار، صنعت کار اور بڑے تاجر سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں جس کا نتیجہ میرٹ کا نقصان ہوتا ہے اور جب تک کسی معاشرے میں میرٹ کا احترام نہیں کیا جاتا وہ معاشرے مستقل بد نظمی کا شکار رہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
رنگ، نسل، زبان، قومیت یہ ایسی بلائیں ہیں جو قومی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتی ہیں سندھ میں بہت سارے سمجھدار اور فراخ دل سندھی بھائی موجود ہیں جنھیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ تعصب خواہ کسی شکل میں ہو قومی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، اس کے بجائے زبان قومیت کو اہمیت دی گئی جس کا نتیجہ ہم انتشار کی شکل میں دیکھ رہے ہیں بلدیاتی ادارے ہر ملک کی پہلی ضرورت ہوتے ہیں لیکن بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ پس پشت ڈالا جاتا رہا کیونکہ ماضی میں بھی بلدیاتی اداروں کو بے اختیار رکھا جاتا رہا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بلدیاتی فنڈ حکومت کے منتخب نمایندوں کو ملتا رہا، نتیجہ یہ نکلا کہ بلدیاتی ترقی رک گئی اس کی جگہ سیاسی بیورو کریسی نے لے لی، ایک طرف عوام کے مسائل حل نہ ہوسکے، دوسری طرف ایلیٹ کلاس اداروں پر قابض ہوتی گئی۔
اصل قصہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ بہت طاقتور ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک پر چند خاندان عشروں سے حکومت کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ منتخب نمایندوں کو بلدیاتی ادارے چلانے کا موقعہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے تعلیم کی شرح بہت مایوس کن ہے ایسی صورت میں عوام سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرسکے ضرور اس بات کی ہے کہ قوم پرستی کو کنٹرول کیا جائے اور عوامی اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔