ملک میں کرپشن کا راج رہا ہے، ویسے تو یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہو چکا تھا لیکن اس میں ایک اعتدال تھا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد سیاست اور اقتدار میں آنے والی وڈیرہ شاہی بھی لوٹ مار میں اتنا آگے جانا نہیں چاہتی تھی کہ واپسی کا راستہ ہی نہ رہے۔
اس لیے اس دور میں کرپشن کے اتنے چرچے نہ تھے۔ سیاستدان بڑی احتیاط سے منہ مار لیا کرتے تھے اس دوران ملک میں چار فوجی حکومتیں بھی آئیں لیکن فوجی حکومتوں میں بھی اعتدال رہا اور عوام کو کرپشن کا احساس بہت کم رہا۔ ملک میں کرپشن کلچر کا عروج بھٹو صاحب کے آخری دور سے ہوا۔
بھٹو کی کابینہ میں ایسے لوگ آنے لگے جنھوں نے سیاسی ایمانداری کو پھلانگ کر کرپشن کے میدان میں قدم رکھا اور ان کی اصولی سیاست کا بیڑا غرق کیا۔ کرپشن ایک ایسا نشہ ہے جسے ہم چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی کہہ سکتے ہیں لیکن اس دور میں بھی مادر پدر آزاد کرپشن نہ تھی بڑی احتیاط سے یہ کام کیا جاتا تھا۔
اس حوالے سے بھٹو دو کے ایک واقعے کا ذکر دلچسپ رہے گا۔ بھٹو صاحب شملہ کانفرنس جانے کی تیاری کر رہے تھے، بھٹو کی یہ ایک جمہوری عادت یا روایت تھی کہ کوئی اہم میٹنگ یا کانفرنس میں انھیں جانا ہوتا تو ملک کے چاروں صوبوں میں جاتے اور سرکردہ لوگوں خاص طور پر تعلیم یافتہ دانشوروں، ادیبوں وغیرہ سے میٹنگ کرتے ان سے زیر بحث آنے والے ایجنڈے پر رائے لیتے۔ سو بھٹو صاحب نے سندھ اسمبلی کے ہال میں ایک میٹنگ بلائی جس میں شہر کے چیدہ چیدہ لوگوں کو مدعو کیا گیا جن میں ہم بھی شامل تھے۔ بھٹو نے پہلے شملہ کانفرنس کے حوالے سے شرکا میٹنگ کی رائے لی پھر شرکا سے اپنی حکومت کے بارے میں رائے مانگی۔
شرکا نے اپنی مرضی کے مطابق اپنے خیالات سے میٹنگ کے شرکا کو واقف کرایا۔ اس زمانے میں کرپشن کے حوالے سے ایک صاحب کا نام بہت لیا جاتا تھا، سو ہم نے بھی دیگر تجاویز کے ساتھ اس صاحب کی کرپشن کی بات کی، بھٹو پوری دلچسپی کے ساتھ ہماری بات سنتے رہے، پھر اتنا کہا "اس حوالے سے کئی شکایتیں آ چکی ہیں، ہم اس پر ایکشن لے رہے ہیں " یہ ایک فارمیلٹی تھی جسے بھٹو نے پورا کیا۔ میٹنگ کے بعد گپ شپ کا دور چلا بھٹو کو کسی اور میٹنگ میں جانا تھا وہ چلے گئے۔
بھٹو دور کی ایک بری روایت یہ ہے کہ مزدوروں کے ساتھ بھٹو حکومت کا رویہ بہت افسوس ناک تھا۔ بھٹو دور میں مزدوروں پر دو بار بے تحاشا گولیاں چلائی گئیں۔ ایک بار سائٹ ایریا میں جس میں مزدور جان سے گئے دوسری بار لانڈھی میں مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں جس میں کئی مزدور جان سے گئے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔
کراچی میں مزدور تحریک زوروں پر تھی تقریباً ہر ملز، ہر کارخانے میں ہڑتال تھی ہڑتال ختم کرنے کے مسئلے پر وزیر محنت ستارگبول کی رہائش گاہ پر ایک معروف لیڈروں کی میٹنگ بلائی گئی جس میں بعض اہم مسائل پر ایک انڈر اسٹیڈنگ ہوئی اور طے پایا گیا کہ دوسرے دن سندھ اسمبلی میں ستار گبول کے آفس میں ان مسائل پر فیصلہ کن گفتگو ہو گی اور ایک معاہدہ طے پایا جائے گا۔ معذرت۔۔۔۔ بات چل رہی تھی بھٹو کے دور کے کرپٹ ایلیمنٹ کے حوالے سے اور چلی گئی اسمبلی ہال، لیکن یہ سارے واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں لہٰذا اس میں لاتعلقی نظر نہیں آئے گی۔ جیسا کہ طے ہوا صبح سندھ اسمبلی میں ستارگبول کے آفس 9 بجے پہنچنا تھا، سو ہم آٹھ بجے گھر سے نکلے اور ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔
ڈرائیور نے بتایا صاحب انڈسٹریل ایریا پورا بند ہے کل رات پولیس نے مزدوروں پر گولیاں چلائیں، کئی مزدور مارے گئے۔ حیرت سے ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے ستار گبول کو ٹیلی فون کیا۔ ستار گبول نے کہا "سنا تو ہم نے بھی یہی ہے لیکن یہ سب ہوا کیسے اس کا علم نہیں۔" ہم حیران تھے کہ مزدوروں کا قتل عام ہو اور وزیر محنت کو اس کا علم نہیں۔ بہرحال انتظامیہ نے صنعتی علاقوں میں مزدوروں کو مار کر امن بحال کر دیا۔ ہم دوستوں سے رابطے کی کوشش کرتے رہے لیکن کوئی اپنی جگہ پر نہ تھا۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتاؤں اس زمانے میں کمشنر کراچی روئیداد علی خان تھے۔ وہ مزدور رہنماؤں سے بڑے الرجک تھے۔
بات کا آغاز بھٹو حکومت کے دور میں کرپشن سے ہوا تھا۔ اس میں ذرہ برابر شک نہ تھا کہ بھٹو کے بعض وزیر کرپٹ تھے اور کھلے دل سے کرپشن کا ارتکاب کر رہے تھے جس کی اطلاع ہم نے بھٹو صاحب کو دی۔ ہمارا خیال تھا کہ بھٹو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور کرپشن کا سلسلہ جاری رہا لیکن کرپشن آج کی طرح بے لگام نہ تھی اور نہ آج کی طرح اس کا دائرہ اربوں تک پھیلا تھا۔ نہ اس قدر کھلے عام کرپشن کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔
ستارگبول سے جب ہم نے شکایت کی کہ انھوں نے اپنے وعدے کے برخلاف اقدامات کر کے سیاسی بد دیانتی کا مظاہرہ کیا۔ ستار گبول نے کہا " بخدا مجھے اس پوری کارروائی سے بے خبر رکھا گیا۔" ایک وزیر محنت کو اعتماد میں لیے بغیر اتنا خون خرابہ دیکھ کر بیوروکریسی کی طاقت کا اندازہ ہوا۔