جماعت اسلامی کے سربراہ کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے اپنے نظریے سے اخلاص کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ قوم کاسمیٹک تبدیلی کے بجائے حقیقی تبدیلی چاہتی ہے، چند وزرا کی تبدیلی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
سراج الحق صاحب کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ قوم اب کاسمیٹک تبدیلی ہرگز نہیں چاہتی بلکہ ملک میں ایسی تبدیلی چاہتی ہے جس سے عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حل طلب مسائل کون سے ہیں اور ان میں اہم ترین مسائل کون سے ہیں؟ اس حوالے سے سب سے اہم اور خطرناک مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ سیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی ہے۔
اقتدار تو جیسے اس کی جاگیر ہے، اس حقیقت کی روشنی میں سب سے پہلا کام اشرافیہ کے اقتدار کا خاتمہ تھا، سو وہ کسی طرح ہو گیا اور اقتدار کا خاتمہ ایک بجلی بن کر اشرافیہ کے خرمن پر آگرا ہے۔ اس تبدیلی کا ایک اور اہم اور منفرد پہلو یہ ہے کہ تبدیلی ایسی آئی ہے کہ اشرافیہ اقتدار سے باہر کھڑی ہے اور اس کی جگہ عمران خان کی مڈل کلاسر حکومت نے لے لی ہے۔ اس تبدیلی نے اشرافیہ کو اس قدر مضطرب کر دیا ہے کہ ان کی نیند اڑ گئی ہے، اسے کسی پہلو قرار نہیں آتا، حکومت کے خلاف اشرافیہ کچھ کر نہیں سکتی کہ عوام حکومت سے اس کی کرپشن کی داستانوں کی وجہ متنفر ہو گئے ہیں اور عوامی حمایت کے بغیر کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ایک مشہور مولاناصاحب آگے بڑھے ہیں۔
مولانا صاحب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اتحادی رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ ہر ضرورت کے وقت مولانا صاحب دونوں پارٹیوں کی مدد کو آ جاتے ہیں۔ اس بار اس فرق کے ساتھ مولانا آگے آئے ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ دینی مدرسوں کے مبینہ طور پر 80 ہزار طلبا بھی احتجاجی مارچ میں شامل ہوں گے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک مہم ہے جو ملک کی ہیئت بدل کر رکھ دے گی۔
خود دینی حلقوں میں اس خطرناک مہم جوئی کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ معروف دینی اسکالر اور دارالعلوم بنوریہ کے سربراہ مفتی نعیم نے کہا ہے کہ دینی مدارس کے طلبا کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے، طلبا زخمی ہوئے تو ادارے بدنام ہوں گے ہم والدین کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہمارے ادارے میں 53 ممالک کے طلبا زیر تعلیم ہیں انھوں نے کہا کہ دینی مدارس غیر سیاسی ہوتے ہیں انھیں سیاست میں گھسیٹنا درست نہیں ہے۔
مفتی نعیم ایک دینی علوم سے تعلق رکھنے والے اسکالر ہیں اور ان کا دائرہ کار دینی علوم ہے، سیاست ہرگز نہیں ہے۔ مفتی صاحب کے دارالعلوم میں ہزاروں طلبا زیر تعلیم ہیں۔ دینی مدرسوں کے طلبا کا ذہن دینی امور دینی تعلیم کی طرف مکمل طور پر مبذول ہوتا ہے، اگر ان کے ذہن میں سیاست ٹھونس دی جائے تو ان کا ذہن سخت انتشارکا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
خصوصاً ہماری سیاست جس طرز میں تبدیل ہو گئی ہے اگر یہ سیاست دینی طلبا کے ذہنوں کو اس طرح مسموم کر دے گی کہ وہ نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا کو یہ انتہائی قدم کیوں اٹھانا پڑا ہے۔ کیا مولانا شریف برادران کی خواہش پوری کر سکیں گے؟ حکومت کی طرف سے واضح طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پرامن مارچ کی اجازت ہو گی اگر امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا گیا تو سختی سے کچل دیا جائے گا۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ایک سالہ کارکردگی پر الزامات کی بھرمار کرنے والوں نے دس سالوں میں کیا کارنامہ انجام دیا؟ ایسے فاسٹ باؤلروں سے جمع ہونے والے مسائل کے جھنڈ کس طرح حل ہو سکیں گے۔ موجودہ حکومت اپنی کوششوں کے بعد بھی بعض اہم عوامی مسائل پر قابو نہ پا سکی۔ خاص طور پر مہنگائی کے مسئلے پر حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ اگر اپوزیشن مخلص ہوتی تو مہنگائی کو کم کرنے کے لیے حکومت کو معقول تجاویز پیش کر سکتی تھی لیکن یہاں ہماری اپوزیشن کی ایک ہی رٹ ہے کہ ہمیں حکومت کو گرانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا "حکومت کوگرانا ہے" کبھی سیاسی جماعتوں کی ایسی ڈیمانڈ رہی ہے؟ مولانا کی قیادت میں جو جماعتیں متحد نظر آ رہی ہیں۔
ان میں سوائے (ن) اور پی پی کے دوسروں کا عمومی حال یہ ہے کہ ہر چند کہیں ہیں کہ نہیں ہیں، والی صورت ہے چونکہ حلوے مانڈے کا دور دورہ ہے لہٰذا اس حوالے سے بھی شرکاء بڑی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ الیکشن کا دورانیہ پانچ سال ہے، یعنی انتخابات کے پانچ سال بعد ہی الیکشن کروائے جا سکتے ہیں لیکن ہماری اپوزیشن ایک سال بعد ہی حکومت گراؤ مہم چلا رہی ہے۔ پی پی پی اور (ن) لیگ پانچ پانچ سال حکومت کرتے رہے اور جہاں تک کارکردگی کا سوال ہے بعض کارکردگیاں اس قدر عیاں ہوتی ہیں کہ انھیں خورد بین لے کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام عمران حکومت آنے کے بعد ہی سابقہ دو حکومتوں کی کارکردگی دیکھ سکے۔
جمہوری روایات کے مطابق موجودہ حکومت کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا اختیار ہے، ایک سال ہو گیا ہے، ابھی چار سال باقی ہیں۔ جی ہاں چار سال جن اکابرین نے اقتدار کے لیے چار دن صبر کرنے کے لیے تیار نہیں کیا۔ وہ مزید چار سال صبرکر سکتے ہیں۔ رضا کار کی الیکٹرانک میڈیا پر ڈنڈوں کے ساتھ جو جھلکیاں دکھائی جا رہی ہیں اسے عوام ڈنڈا جمہوریت کا نام دے رہے ہیں اگر خدانخواستہ ڈنڈا جمہوریت کا رواج چل پڑا تو ہمارے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ملک بھی اقتدار کے لیے ڈنڈوں اور رضاکاروں کا استعمال شروع کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے چونکہ اس جمہوریت میں ہینگ اور پھٹکڑی کے بغیر ہی رنگ چوکھا آتا ہے، ڈر ہے کہ دنیا انتخابات ترک کر کے ڈنڈا برداروں سے کام چلا لے گی۔