اس ملک یعنی پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟ کہا جاتا ہے چوبیس کروڑ ہے اس میں غریب اور مفلوک الحال کتنے ہوں گے؟ اکیس کروڑ سے زیادہ ہوں گے۔ امیر اور کھاتے پیتے لوگ کتنے ہوں گے چند لاکھ ہوں گے۔
22 کروڑ کی تعداد کتنی ہوتی ہے چند لاکھ کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ 22 کروڑ کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے چند لاکھ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ چند لاکھ انسان امیر ہیں اور 22 کروڑ عوام غریب ہیں؟ قسمت نے یہ تقسیم کی ہے، اسے کون ختم کرسکتا ہے؟بے وقوف اسی لیے تو تم صدیوں سے غربت کی چکی میں پس رہے ہو۔
تم اس تقسیم کو خدا کی تقسیم کہتے ہو یہ خدا کی تقسیم نہیں ہے۔ یہ بالادست یعنی امیر انسانوں کی تقسیم ہے وہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے خدا کا نام لیتے ہیں۔ کائنات بہت بڑی ہے، دنیا نے جدید علوم سے انسانوں کے ذہنوں کو منور کر رکھا ہے ہم اپنے ذہن اپنے علم سے ایک نئی دنیا بنائیں گے جہاں کوئی غریب نہ ہوگا ایسی دنیا کا خواب انسان صدیوں سے دیکھ رہا ہے۔ غریبوں کی طاقت کو تقسیم کرنے کے لیے انھیں ذات پات دین دھرم زبان، رنگ نسل میں بانٹ دیا ہے یہ تقسیم پہلے سے موجود نہیں۔
یہ تقسیم انسان نے بنائی ہے دنیا کے دولت مندوں نے یہ تقسیم بنائی ہے تاکہ غریب تقسیم ہوکر سکڑ جائیں اور اس تقسیم کو جائز قرار دینے کے لیے تقدیر اور قسمت کا ڈرامہ رچایا گیا ہے تقدیر قسمت کا سرے سے کوئی وجود نہیں یہ سب اہل زر نے غریبوں کے ذہنوں کو ماؤف بنانے کے لیے کھڑاک پھیلایا ہے ورنہ غریب ماں کے پیٹ سے غریب پیدا ہوتا ہے نہ امیر ماں کے پیٹ سے امیر پیدا ہوتا ہے۔ یہ سب بالادست انسانوں کی غریبوں کو قابو میں رکھنے کی حکمت عملی ہے۔ تم نے دیکھا ہے ہر ملک میں پولیس ہوتی ہے، پیراملٹری فورس ہوتی ہے ان سب کو ملکی انتظام قائم رکھنے کے لیے رکھا گیا ہے یہ درست نہیں، یہ تنظیموں کو غریبوں کو دبا کر رکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کے کسی کام کی نہیں اسے انسانوں کے استعمال میں لانا چاہیے یہ فالتو اور تجوریوں میں بند دولت اگر غریبوں کے استعمال میں آئے تو دنیا سے غربت ختم ہوجائے گی نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز سب زندگیوں کی خوشیوں میں برابر کے حصے دار ہوں گے۔
خدا بڑا رحیم ہے اور رحمت والا ہے انسان خدا کا نام لے کر غریب اور امیر تخلیق کرتا ہے یہ ایک ایسا فراڈ ہے جس کو جتنا جلد ہو ختم ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ دولت قسمت سے ملتی ہے یہ ایک دھوکا ہے دولت، دولت مندوں کو قسمت کے نام پر ملتی ہے اور غریب کو محنت مزدوری کے بدلے میں ملتی ہے۔ یہ ایک دھوکا ہے۔
امیر حرام کی دولت جمع کرکے امیر بنتا ہے غریب اپنے حقوق سے ناآشنا ہوکر غریب ہوتا ہے۔ یہ بڑا پراسرار کھیل ہے، میں حیران ہوں کہ دنیا کے دانشور و مفکر اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھلی آواز کیوں نہیں اٹھاتے۔ خدا نے کہا ہے کہ میں نے تمہارے لیے یعنی انسانوں کے لیے بہترین نعمتیں اتاری ہیں ان میں سے کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو۔ لیکن خدا کے اس حکم کی سرتابی انسان کرتا ہے اور بدترین چیزیں غریب انسانوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ظلم ہے جس کا ازالہ ضرور ہونا چاہیے۔
آپ نے ابھی ابھی دیکھا امیر کو کتنی سہولت ملتی ہے اگر امیر بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹروں کے پرے کے پرے اسے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور غریب کے لیے اسپتالوں کا کچرا مہیا ہوتا ہے۔ امیر کی اولاد ڈاکٹروں کے جھرمٹ، بہترین طبی سہولتوں کے ساتھ جنم لیتی ہے اور غریب کی اولاد بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر ہی جنم لیتی ہے یہ ہے طبقاتی نظام، طبقاتی تقسیم جسے ختم ہونا چاہیے ورنہ زندگی عذابوں کا مجموعہ بنی رہے گی۔
اس تمام نامنصفانہ نظام کو چلانے کے لیے ایک بڑے سسٹم ایک بڑے سیٹ اپ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ پورا نظام ہی فراڈ ہے، اسے بدلنے کے لیے پاکستان کے 22 کروڑ انسانوں کو اٹھنا ہوگا۔ جب 22 کروڑ انسان طبقاتی جانکاری، طبقاتی اسرار و رموز سے واقف ہوں گے تو سرمایہ دارانہ ناانصافی کا یہ سیٹ اپ ختم ہوجائے گا اور انصاف کا سورج طلوع ہوگا۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ جو رات دن سردیوں میں گرمیوں میں پسینہ بہا کر محنت سے دولت کے انبار لگاتے ہیں وہ بھوکے ہوتے ہیں اور جو ہاتھ ہلائے بغیر دولت پر قبضہ کر لیتے ہیں وہ دنیا کی ہر نعمت سے استفادہ کرتے ہیں۔
دنیا کی آبادی 7 ارب ہے جس میں سے پونے سات ارب انسان غریب ہیں اور دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ بھوک بیماری بے روزگاری میں مبتلا ہوکر غریب و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے اور اس ظلم کو ہر قیمت پر ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے طبقاتی نالج طبقاتی شعور طبقاتی جانکاری ضروری ہے۔ یہ تاویل غلط اور بے بنیاد ہے کہ خدا جس کو چاہے غریب جس کو چاہے امیر بناتا ہے۔ دنیا کے دولت مندوں نے بڑی چالاکی سے یہ نظام تخلیق کیا ہے اور اسے بڑی سمجھ بوجھ اور چالاکی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہی خدا کی مرضی اور انصاف ہے۔