ہر جمہوری سسٹم میں حکومتیں تبدیل کرنے کی ایک مدت اور طریقہ کارطے ہوتا ہے جس کے مطابق انتخابات ہوتے ہیں اور الیکشن میں حصہ لینے والی جو جماعت اکثریتی ووٹ لیتی ہے وہ اقتدار میں آتی ہے کوئی جماعت اس اصول کو توڑکر اقتدار میں آنے کی حماقت یا بے ایمانی نہیں کرتی، اس لیے ان ملکوں میں نہ کوئی ایمرجنسی پیدا ہوتی ہے نہ سیاست دانوں کے درمیان کوئی تنازعات کھڑے ہوتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ انتخابات جیتنے کا مقصد لوٹ مارکا لائسنس لینا نہیں ہوتا اور ملکوں میں بھی اسی سسٹم کو فالو کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے سیاستدان میچور اور ایماندار ہوتے ہیں اور خاندانی بھی ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے جمہوری نظام کو دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کا مطلب ہر حال میں اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام اس عامیانہ طریقے سے کیا جاتا ہے کہ اصول پسند انسان پریشان ہو جاتے ہیں۔
ابھی ہمارے ملک میں انتخابات کو ڈھائی سال باقی ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتیں جن کا تعلق پوزیشن سے ہے بضد ہیں کہ حکمران ابھی سے حکومت چھوڑ دیں اور اقتدار ان کے حوالے کردیں۔ یہ ایک طرح کا سیاسی ہتھکنڈہ ہے جو ملک و قوم کے لیے مسائل کا باعث ہے۔
موجودہ حکومت پر دو الزامات ہیں ایک یہ کہ اس نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے، دوسرا یہ کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے یہ دونوں الزام نئے نہیں بلکہ ہر الیکشن میں انتخابات لڑنے والی کسی نہ کسی پارٹی پر لگتے رہے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ اس قسم کے الزامات لگتے رہے ہوں بلکہ یہ ہماری انتخابی سیاست کا حصہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میچور اور عوامی سیاست دان نہیں ہیں بلکہ ہمارے ملک میں ایلیٹ کے وہ سیاستدان یا سرمایہ کار ہیں جن کا تعلق ہر حال میں اقتدار میں آنے کی سائیکی سے ہے۔
اس کوکیا کہیں کہ ہمارے عوام میں ابھی جمہوری شعور نہیں شخصیت پرستی بہت مضبوط ہے ہماری ایلیٹ کلاس نے یہ طریقہ اختیارکیا ہے کہ دولت، رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے حوالے سے عوام کو تقسیم کر رکھا ہے اور ان گروہوں پر سیاسی ایجنٹوں کا قبضہ ہے۔ ایلیٹ کے انتخابی امیدوار ان سیاسی ایجنٹوں کو خرید لیتے ہیں اور یہ ایجنٹ اپنے قبضے میں رہنے والے ووٹرکے ووٹ ان امیدواروں کو دلوا دیتے ہیں جو انھیں بھاری رقم دیتے ہیں۔
آج کے سیاسی حالات کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا اور سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون صحیح ہے کون غلط۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے اپنی کوتاہیوں اپنے کارناموں کو حکومت کے کھاتے میں انتہائی چالاکی سے ڈال کر عوام کے ذہنوں کو اس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ وہ ذہنی طور پر الجھ گئے ہیں اورکوئی صحیح فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ کون غلط ہے کون صحیح۔ حالانکہ تین سال سے میڈیا اس ملک اور ملک کے عوام کو نقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کر رہا ہے، لیکن مسئلہ یہی ہے کہ اشرافیہ نے اپنی چرب زبانی سے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کردیا ہے۔
اگرچہ یہ کوئی الجبرا یا جیومیٹری کا سوال نہیں ہے کہ عوام کی سمجھ میں نہ آئے۔ اگر صرف عوام ایک سوال کا جواب تلاش کرلیں کہ اس ملک میں کرپشن کے ذمے دار کون ہیں، تو عوام کو صحیح اور غلط میں تمیزکرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، آج تین برسوں سے میڈیا پرکرپشن کی لمبی لمبی داستانیں گردش کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
اس حوالے سے اگر قانون اور انصاف اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھیں تو وہ ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی جو عوام کو درپیش ہیں، اگرچہ حقائق بہت واضح ہیں لیکن چونکہ ان کو بڑی چالاکی سے الجھا دیا گیا ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ ازخود نوٹس لے کر اس پیچیدہ بنا دیے جانے والے مسئلہ کو سلجھا دے ایسا ہوا تو ایک طرف موجودہ مبہم اور پیچیدہ بنائی ہوئی صورت حال واضح ہو جائے گی تو دوسری طرف وہ لوگ جن پر کرپشن سمیت کئی دوسرے الزامات لگائے گئے ہیں ان سے نجات حاصل کرلیں گے اور ان کا ضمیر مطمئن ہو جائے گا۔
ان الجھنوں کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی معاملات سے عوام کو دور رکھا گیا۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کی ذمے داری صرف پانچ سال میں ایک بار آنکھ بندکرکے ووٹ ڈالنا ہی نہیں بلکہ ملکی سیاست میں اور سیاسی مسائل کے حل میں کردار ادا کرنا بھی ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری اشرافیہ نے عوام سے ووٹ ڈلوانے کے علاوہ کسی اہم سیاسی اور قومی مسئلے میں رائے لینے کی زحمت کی ہے۔