سرمایہ دارانہ نظام میں چاقو سے لے کر ایٹم بم تک سب کا شمار ہتھیاروں میں ہوتا ہے ہلاکت خیزیوں کے فرق کے ساتھ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کا حال یہ ہے کہ دنیا میں ہر روز اربوں کھربوں روپوں کے ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلاکت خیزیوں کے اس وسیلے پر انسان کی محنت کا کمایا ہوا سرمایہ اس طرح ضایع کرنے پر بڑے پیمانے پر احتجاج کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں "باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا رپیہ" ہوتا ہے، حصول دولت کا چسکا ایسی برائی ہے کہ ہر انسان اپنی خوشی اور خواہش کے تحت اس برائی کو گلے لگانے کے لیے بے چین رہتا ہے دنیا میں آج تک جتنا خون بہا ہے وہ سب ہتھیاروں کے ذریعے بہا ہے۔
اس انسان دشمن وسیلۂ فنا کی مانگ اتنی ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی دولت کا ایک بڑا حصہ انسان خود اپنی مرضی سے ہتھیاروں کی تیاری اور خریداری پر لگا دیتا ہے آج افغانستان پر نظر ڈالیے انسان کا خون جس طرح پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے کیا اہل عقل کو اس پر شرم نہیں آتی؟
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو معصوم ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے اس میں شعور بیدار ہوتا ہے وہ برائیوں کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے بے شک انسان کی فطرت میں برائیاں شامل ہیں لیکن اس کی ایک حد ہوتی ہے۔ جن بے مصرف اشیا پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں کیا ان کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔
ہم نے انھی کالموں میں بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ ہتھیاروں کی بے مصرف خریداری پر اربوں روپے خرچ کرنا سوائے عوام دشمنی کے اور کیا ہو سکتا ہے اور نہ جانے ہم جیسے کتنے لوگ ہر روز اس ہلاکت خیز بیماری کے خلاف قلم اٹھاتے ہیں لیکن ہتھیاروں کی تیاری اور خریداری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے دنیا بھر میں قتل و غارت کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اس کی تفصیل ہر روز میڈیا میں آتی رہتی ہے لیکن اس برائی کے خلاف اب تک کوئی منظم تحریک نہ اٹھ سکی، کہا جاتا ہے ہزار بیماروں کا علاج عقل و دانش ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا سے عقل و دانش ناپید ہوگئی ہے۔
چاقو ایک چھوٹا سا ہتھیار ہے لیکن جاندار کی جان لینے میں وہ چاقو ہلاکت خیزی کا ذریعہ بن جاتا ہے دنیا میں ہر روز اربوں روپوں کا ہتھیار بنایا، خریدا اور بیچا جا رہا ہے جس کا مشاہدہ ہر انسان کر رہا ہے لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ہلاکت خیز بیماری کے خلاف اجتماعی دانش کیوں شال اوڑھ کر سوئی ہوئی ہے اس اجتماعی دانش کو گہری نیند سے جگانے کے لیے قلم کاروں پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے قلم کار اپنے حصے کی ذمے داری کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ آبادی کے اس ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھوک اور بے روزگاری کے ڈیرے ہیں، ایسے ملک میں اگر ہتھیاروں کی خریداری پر بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کر دیا جاتا ہے تو اسے المیے کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی غریب اور پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں دونوں ایٹمی ملک ہیں لہٰذا ان کے درمیان جنگ ناممکن ہے اس کے باوجود ہتھیاروں کے انبار لگانا سوائے عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کے اور کیا ہو سکتا ہے۔
ہتھیاروں کی صنعت میں اربوں روپے لگائے گئے ہیں اسی حساب سے ہتھیاروں کی خریداری بھی جاری ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ ہر سال بجٹ میں اس مد میں اربوں روپے رکھے جاتے ہیں چونکہ جنگوں کے نقصانات سے آگہی کی وجہ سے اصولاً ہتھیاروں کی خریداری پر اتنی بھاری رقم خرچ نہیں کی جانی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہتھیاروں کی بڑے پیمانوں پر خریداری کا سلسلہ جاری ہے جو سوائے دولت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں ایسے غریب ملک جہاں 80 فیصد سے زیادہ لوگ روٹی کے محتاج ہیں ایسے ملک میں ہتھیاروں کی خریداری پر اربوں روپے لگانا سوائے اصراف کے کچھ نہیں۔
آج افغانستان میں قتل و غارت کا سلسلہ چل رہا ہے، اس کا جواز کیا ہے اخباروں میں ہر روز طالبان کی پیش قدمی اور فتح مندیوں کی خبروں کی بھرمار ہے۔ اخبار ایسا ذریعہ اظہار ہے جس کی رسائی دنیا کے ہر انسان تک ہے میڈیا میں بے شمار اہل دانش موجود ہیں لیکن وہ کسی انسان دشمن ایجاد کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے بلاشبہ خبروں کی ترسیل صحافی کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن کیا اس ذمے داری کو بلا روک ٹوک عوام تک پہنچانا چاہیے؟
جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے اصل مسئلہ منافع ہے اور دنیا اسی منافع کے محور پر گھوم رہی ہے ایک ادارہ ہے جس کا نام اقوام متحدہ ہے اس ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کی روک تھام کریں۔
اقوام متحدہ کی آنکھوں کے سامنے طالبان اپنے پروگرام کے مطابق فتح کے پرچم اڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اور کابل میں بھی لڑائی کا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ جنگجو ہماری آپ کی طرح انسان ہیں اور یقیناً ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ انسان اچھائی کے بجائے برائی کی طرف جلد مائل ہوتا ہے۔ ہم نے اقوام متحدہ کا ذکر کیا ہے، اقوام متحدہ کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ اب تک اپنی پوری کوششوں کے باوجود دنیا میں قتل و غارت کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔