بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مرکنڈ نروانے نے کہا ہے کہ "حکم ملا تو آزاد کشمیر لینے کے لیے کارروائی کریں گے" بھارتی پارلیمنٹ اگر چاہے تو آزاد کشمیر بھی ہمارا ہو سکتا ہے۔ سارا جموں وکشمیر بھارت کا حصہ ہے، اس حوالے سے پارلیمنٹ میں کئی سال پہلے سے قرارداد موجود ہے۔
جنرل نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کسی وقت یہ خواہش کرتی ہے کہ آزاد کشمیر بھی ہمارا ہو جائے اور ہمیں اس قسم کا کوئی حکم ملے تو آزاد کشمیر لینے کے لیے فوج لازمی طور پر کارروائی کرے گی۔ موصوف نے کہا کہ انھیں مغربی سرحدوں سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ سیاچن ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بھارتی آرمی چیف کے اس تازہ بیان کے جواب میں ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ نئے بھارتی چیف آف اسٹاف کا ایل او سی پر جارحیت سے متعلق بیان بھارتی ریاستی اداروں میں انتہا پسندانہ نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم پاکستان کی مسلح افواج بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت 27 فروری 2019 کو ہمارے جواب کا مزہ چکھ چکا ہے، اگر بھارت آیندہ بھی کبھی اس قسم کی حماقت کا مظاہرہ کرے گا تو بھارت کو 27 فروری سے بھی زیادہ سخت جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آصف غفور نے کہا کہ بھارتی آرمی چیف کا بیان معمول کی ہرزہ سرائی ہے وہ اپنے ملک کے اندرونی خلفشار اور بدتر حالات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اور اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں فاشسٹ ذہنیت اور علاقائی امن کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں، تاہم دنیا کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لینا چاہیے۔
جنرل موصوف ابھی نئے نئے اس اہم عہدے پر پدھارے ہیں اور اپنی شناخت اینٹی پاکستان جنرل کی حیثیت سے کرانا چاہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اگر بھارتی جنرل انسان کا شریف اور امن پسند بچہ ہوتا تو کہتا کہ پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے جنھیں حل کرنا اگرچہ سیاستدانوں کا کام ہے لیکن بحیثیت بھارتی آرمی چیف میری خواہش ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ اختلافات حل ہوں اور دونوں ملکوں کی مسلح افواج کی قیادت اگر دونوں ملکوں کے اختلافات دور کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکے تو مجھے اس کی خوشی ہوگی۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہی ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کی قیادت اختلافی مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی پیشانیوں پر لگے شناخت کے حوالے سے تو بات کرتے ہیں لیکن انسان کی اولاد بن کر سوچنے کے لیے تیار نہیں اور جب تک انسان کی اولاد بن کر سوچنا اور مسائل کو حل کرنا نہیں شروع کریں گے "حکم کر میرے آقا" کی آوازیں آتی رہیں گی۔ جنرل نروانے کو اگر وقت ملے تو انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ انسان کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں یا ایک ہندو کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں۔ فوجی اگرچہ عام طور پر ایک پروفیشنل کی حیثیت ہی سے سوچتے ہیں اور یہ بات خوبی میں شمار ہوتی ہے لیکن کیا اس حقیقت کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان پہلے انسان ہوتا ہے اس کے بعد وہ اپنے نام کے ساتھ مختلف اضافتیں لگاتا رہتا ہے۔
ان اضافتوں نے دنیا میں بسنے والے انسانوں خاص طور پر غریب انسانوں کو جن مسائل جن مشکلات جن عذابوں سے دوچار کر دیا ہے ان کا اندازہ کرکے انسان کی روح لرز جاتی ہے۔ خدا نے کہا ہے کہ ہم نے زمین پر تمہارے لیے طرح طرح کی نعمتیں پیدا کی ہیں ان میں سے اپنی پسند کی نعمتیں کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو۔ بلاشبہ دنیا خدا کی بخشی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں سے بھری ہوئی ہے لیکن دنیا کے غریب انسان خدا کی دی ہوئی ان نعمتوں سے محروم ہیں کیونکہ ان کے ساتھ مختلف اضافتیں لگی ہوئی ہیں جو انھیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کردیتی ہیں بلکہ متحارب بھی کر دیتی ہیں اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو تقسیم بھی کردیتی ہیں۔
بھارت کا آرمی چیف کہہ رہا ہے کہ اگر ہمیں حکم ملا تو ہم آزاد کشمیرکو آزاد کرا لیں گے۔ احمق پہلے تم اپنے آپ کو تو ان اضافتوں سے آزاد کرالو جنھوں نے تمہیں انسان بننے سے روک رکھا ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ مسٹر نروانے انڈین آرمی چیف، آرمی چیف بلاشبہ ایک بڑا آدمی ہوتا ہے لیکن مسٹر نروانے! تم ایک بہت بڑے آدمی ہوتے ہوئے بھی کتنے چھوٹے آدمی ہو۔ کیا تم نے کبھی "بڑا آدمی" بننے کے بارے میں سوچا ہے۔ دیکھو تمہارے اور ہمارے ملکوں کے درمیان حکمرانوں نے ایک لائن آف کنٹرول کھینچی ہے اس لائن کے ایک طرف مسٹر نروانے! تمہارا ملک ہے دوسری طرف ہمارا۔ تم اور تمہارے حکمران بہت بڑے آدمی ہو لیکن لائن آف کنٹرول پر بیٹھ کر چلم پینے والے رامیّا، خوشی محمد تم سے بہت بڑے آدمی ہیں کیونکہ وہ اضافتوں کے چکر سے آزاد ہیں۔
مسٹر نروانے! آرمی چیف آف بھارت تمہارے انڈر میں لاکھوں فوجی ہیں، فوجی جوان سیدھے سادھے انسان انھیں تم نے یہ بتایا ہے بلکہ ان کے ذہنوں میں یہ زہر بھر دیا ہے کہ پاکستان ہمارا دشمن ملک ہے اور پاکستانی تمہارے دشمن ہیں۔ ان لاکھوں لٹھ ماروں کے ذہنوں میں یہ بات بہت مضبوطی سے بیٹھ گئی ہے کہ پاکستان اور ہندوستانی ایک دوسرے کے دشمن ہیں جب یہ تقسیمی نفرت ذہنوں میں لے کر جوان میدان جنگ میں جاتے ہیں تو وہ اسی نفرت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے انتہائی بیدردی اور وحشیانہ انداز میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دشمن کو قتل کردیا ہے، اس خونی کھیل کا ریفری سرمایہ دارانہ نظام ہے اور ایجنٹ سرمایہ دار، غریب عوام غریب جوانوں کے دشمن ہیں، اس کھلی حقیقت کو مقدس پردوں قوم و ملک کے پردوں میں اس طرح چھپا دیا گیا ہے کہ صرف تقدس سامنے رہ گیا ہے باقی سب کو چھپا دیا گیا ہے۔
مسٹر انڈین چیف آف اسٹاف! تم کہتے ہو اگر حکم ملے تو ہم آزاد کشمیر کو لے لیں گے۔ احمق! پانچ ماہ سے کرفیو لگا کر تم غلام کشمیر پر قبضہ برقرار رکھ رہے ہو، تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ یہ اضافتوں کا کھیل ہے جس میں انسانوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ یہ کھیل تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔ مسٹر انڈین چیف آف اسٹاف! کیونکہ تم چوبیس گھنٹے اضافتوں کے نشے میں رہتے ہو، تم آزاد کشمیر کو لے کر کیا کرو گے پہلے غلام کشمیر کو تو سنبھالو۔