Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ilzamaat

Ilzamaat

ریاستی ادارے کسی عمارت کے ستون کی طرح ہوتے ہیں، ان پر ضرب پڑتی ہے تو عمارت کو نقصان پہنچتا ہے ہماری اپوزیشن ریاستی اداروں پر مسلسل حملے کررہی ہے، اصل میں اپوزیشن مڈل کلاس کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی حکومت کوکسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسے اقتدار سے نکالنے کی بار بار کوششیں کر رہی ہے۔ اپوزیشن یہ بھول گئی ہے کہ اہم اور حساس قومی اداروں پر حملے کرنا جرم ہے۔

اب قومی اداروں پر بے جا تنقید کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اقتدار کی خواہش اشرافیہ کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے لیکن اس کے بھی کچھ اصول کچھ ضابطے ہوتے ہیں، ہماری اپوزیشن ان تمام اصولوں اورضابطوں سے ہٹ کر ہر قیمت پر اقتدارکے فارمولے پر عمل پیرا ہے، اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے عوام کی طاقت سے ڈرانا چاہ رہی ہے۔

مختلف حلقوں کی طرف سے بار بار اس حقیقت کو آشکارکیا جا رہا ہے کہ اشرافیہ نے جو لوٹ مار کی ہے حکومت اور حکومتی اداروں کی طرف سے لوٹ مار کے ان اربوں روپوں کو واپس لینے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔ اس اقدام سے اشرافیہ بدحواس ہو رہی ہے دوسری جانب اپوزیشن بھی قومی اداروں پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس حرکت پر قومی اداروں کی ناراضگی یقینی ہے۔ اسے اتفاق کہیں یا سازش کے بھارت بھی ہمارے قومی اداروں کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔

ہمارے قومی اداروں میں ایک ادارہ نیب ہے، نیب قومی لٹیروں کے خلاف موثرکارروائیاں کر رہا ہے، اب تک نیب نے اشرافیہ سے اربوں روپے ریکورکر لیے ہیں اورکئی سابق حکمران نیب کے ریڈار پر ہیں۔ نیب کی ان کارروائیوں کی وجہ سے اشرافیہ بوکھلائی ہوئی ہے اور نیب کے خلاف مہم چلا رہی ہے لیکن یہ مہم اس لیے بے نتیجہ ثابت ہوگی کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں، سب جھوٹ پر مبنی ہیں۔

اپوزیشن جس پلیٹ فارم سے یہ مہم چلا رہی ہے وہ پلیٹ فارم بھی مستحکم نہیں ہے اور حکومتی حلقے اس کے ٹوٹ پھوٹ کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ پی پی کے زرداری بہت ہوشیار ہیں وہ پی ڈی ایم میں بہت سوچ سمجھ کر کھیل رہے اور پی پی کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔

اپوزیشن نے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان 31 دسمبر تک اقتدار چھوڑ دیں ورنہ لانگ مارچ کیا جائے گا یا اس کے ارکان اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے رہنما پریشان ہیں کہ 31 دسمبر آیا اورگزرگیا لیکن نہ لانگ مارچ ہوا، نہ ارکان نے اسمبلی سے استعفے دیے۔ اب اپوزیشن کے رہنماؤں نے ازراہ کرم لانگ مارچ کی تاریخ میں 31 جنوری تک اضافہ کردیا ہے، یعنی اب ایک ماہ بعد لانگ مارچ ہوگا۔

ن لیگ کہتی ہے کہ جب تک نواز شریف کی سزا ختم کر نہیں کی جائے گی تحریک جاری رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تحریک نہ جمہوری ہے نہ عوامی یا جمہوری مفاد میں بلکہ اس کا اصل مقصد نواز شریف کی رہائی ہے۔ لیکن یہ ساری کاوشیں کرنے والوں کو نہ عوام کا نمایندہ کہا جاسکتا ہے نہ جمہوریت کا حامی کہا جاسکتاہے۔ یہ صرف اور صرف پارٹی وفاداری کا معاملہ ہے۔

پہلی بار ایک عوام دوست اورکرپشن سے پاک رہنما اس قوم کو ملا ہے، جو ہماری اشرافیہ کو کسی قیمت پر قبول نہیں۔ اب عوام دوست طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں، کیونکہ اگر اپوزیشن عمران خان کو نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ملک اور اقتدار پر اگلی کئی دہائیوں تک اس کا قبضہ رہے گا۔